وزیراعظم اتوار کی شام جب قوم سے خطاب کر رہے تھے تو میں ایک اجنبی پاکستانی نوجوان کا پیغام بار بار پڑھ رہا تھا‘ نوجوان نے خطاب سے ایک دن پہلے مجھ سے پوچھا تھا’’میں کرسچین پاکستانی ہوں‘ کیا یہ ملک میرا نہیں ؟‘‘ میں نے اسے جواب دیا تھا ’’آپ مجھ سے زیادہ پاکستانی ہیں کیوں کہ میں شاید پاکستان نہیں چھوڑ سکتا لیکن آپ چوائس کے باوجود پاکستانی ہیں لہٰذا ملک پر آپ کا مجھ سے زیادہ حق ہے‘‘
اس نے کہا ’’پھر وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں صرف مسلمانوں اور ریاست مدینہ کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ یہ پاکستان کے ہر شہری کو پاکستانی کیوں نہیں سمجھتے اور ان کے سٹیج پر اقلیت کے نمائندے کیوں نظر نہیں آتے‘‘میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور اتوار کے دن بھی عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے آخری عوامی خطاب میں صرف مسلمانوں کا ذکر کیا‘ یہ پاکستان کے ان محسنوں کو بھول گئے جو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی اس ملک پر قربان کر گئے‘ مثلاً آپ تورو کو ہی لے لیجیے‘ اب سوال یہ ہے تورو کون تھا؟۔توروکا پورا نام وادساوترووچ تھا اور وہ مذہباً یہودی تھا‘ وہ پاکستان سے مذہب سے بھی زیادہ محبت کرتا تھا‘ اس نے اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کی بنیاد بھی رکھی تھی اور اسے ایشیا کی بہترین ہوائی قوت بھی بنایا تھا‘قیام پاکستان کے بعد جب برطانوی افواج‘ پائلٹس اور ٹیکنیشنز ہمیں بے آسرا چھوڑ کر چلے گئے تو اس وقت وہ آگے بڑھا اور چند برسوں میں رائل ائیرفورس کی کمی پوری کردی‘ اس نے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا‘وہ ائیرفورس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نیوکلیئر اور میزائل پروگرام کی کور ٹیم کاحصہ بھی تھا‘23اپریل 1908ء کو سائبیریاکے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘والد زار روس کے ٹرانس۔سائبیریا ریلوے کا قیدی مزدور تھا‘ پوراخاندان قیدیوں کے گاؤں میں رہتا تھا‘کمیونسٹ انقلاب آیا تو اس کا خاندان1922ء میں پولینڈ فرار ہوگیا‘ تو رونے وارسا یونیورسٹی سے ہوائی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی‘ اس نے اس کے علاوہ آسٹروفزکس میں بھی تربیت اور تعلیم حاصل کی‘تورو نے1938ء میں پولش ائیرفورس جوائن کرلی‘ اگلے برس دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اورجرمنی نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا‘ تورو کو ہائی کمانڈ کی طرف سے حکم دیا گیا وہ اپنے ہوائی جہاز کو ناکارہ بنادے اور رومانیہ چلا جائے‘وہ پولینڈ سے بھاگ کر رومانیہ کے ایک گم نام گائوں میں پناہ گزین ہو گیا‘ اس دوران اس کی ساتھی طالبہ زوفیا اسے تلاش کرتی ہوئی اس دور افتادہ علاقے میں پہنچ گئی‘دونوں نے وہیں شادی کرلی‘جرمنوں کی یہودیوں کے خلاف نفرت انتہا کو چھو رہی تھی‘
وہ دونوں ہنگری اور فرانس سے ہوتے ہوئے برطانیہ جاپہنچے‘برطانیہ کو پائلٹس کی ضرورت تھی‘اس نے برطانوی رائل ائیرفورس جوائن کرلی۔رائل ائیرفورس میں اس کی کارکردگی عمدہ تھی مگر جنگ کے بعداسے8ہزار پولش ائیرمینز کے ساتھ فارغ کردیا گیا‘وہ دل برداشتہ ہوگیالیکن اس کے باوجوداس نے کمیونسٹ دنیا میں لوٹنا مناسب نہ سمجھا‘وہ برطانیہ میں اپنی دوبیٹیوں کے ساتھ بے آسرا ہوچکا تھا‘1948ء میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن نے اشتہار دیا
پاکستان کو تربیت یافتہ اور ماہر پائلٹوں کی ضرورت ہے‘تورونے اس موقع کو غنیمت جانا اور وہ تیس دوسرے پائلٹوں کے ساتھ پاکستان آ گیا‘ تین سال کا کانٹریکٹ تھا‘ تنخواہ اور مراعات بھی تھیں‘ کراچی میں اسے ڈرگ روڈ پر رہائش بھی دے دی گئی اور یوں تورو نے پی اے ایف کے پائلٹوں کی تربیت شروع کر دی اور اس کی بیوی زوفیا گلائڈنگ پائلٹوں کو ٹریننگ دینے لگی‘
1952ء میں اسے ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور اسے چکلالہ پوسٹ کردیا گیا‘اسی دوران ان کے ہاں ایک بیٹا اور ایک اور بیٹی پیدا ہوئی‘بچوں کی تعلیم اور معاشی معاملات کی وجہ سے زوفیا نے پاکستان ائیرفورس چھوڑ دی اور کراچی امریکن اسکول اور کراچی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا‘تین برس مکمل ہونے پرزیادہ تر پولش پائلٹ واپس چلے گئے جب کہ باقی نے اورئینٹ ائیرلائن جوائن کرلی‘یہ ائیرلائین بعد ازاںپی آئی اے بن گئی۔1957ء میں تورو کو واپس کراچی پوسٹ کردیا گیا‘1959ء میں
وہ گروپ کیپٹن اور1960ء میں ائیرکموڈور بن گیا‘1961 ء میں اسے اوراس کے خاندان کو پا کستانی شہریت دے دی گئی‘1965ء میں ہندوستان کے خلاف جنگ میں امریکا نے پاکستان کو اسپیئرپارٹس کی سپلائی روک دی تو اس نے مقامی اسپیئرپارٹس سے کام چلایا‘اس کی مسلسل محنت‘ بے لوث جذبے اور عمدہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسے تمغۂ امتیاز‘ستارئہ امتیاز اور ستارئہ قائداعظم سے نوازا گیا‘
دنیا میںجب روسی خلائی پروگرام اسپوتنک شروع ہوا تو یہودی نژاد تورو اور قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کو قائل کیا پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے خلائی پروگرام ضروری ہے‘صدر ایوب نے اوکے کر دیا یوںتورو نے1962ء میں پاکستان کا پہلا راکٹ راہبر۔1لانچ کردیا‘ اسے سونمیانی لانچنگ پیڈ سے لانچ کیا گیا تھابعد ازاں تورو اور ڈاکٹر عبدالسلام امریکا گئے اورامریکا سے
پاکستان کے لیے راکٹ ٹیکنالوجی لی‘یہ کام ناممکن تھا لیکن ان دونوں کی وجہ سے ٹیکنالوجی بھی ملی اور امریکا نے بے شمار پاکستانی سائنس دانوں کو ٹرینڈ بھی کیا‘تورونے1967ء میں ائیرفورس چھوڑدی اوروہ پاکستانی خلائی ادارے سپار کو کا ایگزیکٹوڈائریکٹر بن گیا‘اس نے سپارکو کوبھی آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا‘ وہ 1970ء میں سپارکو سے بھی ریٹائر ہوگیا‘ بڑھاپے کے ایام تکلیف میں گزرے‘
وہ بچپن میں پولینڈ میں موٹرسائیکل حادثے کا شکار ہو اتھا‘بڑھاپے میںاس حادثے کے اثرات نظر آنے لگے اوراس کی حرکات محدود ہوگئیں‘1980ء میں وہ اپنے ڈرائیور سمیت کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا‘ اسے مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے مسیحی قبرستان میں دفن کیا گیا‘ زوفیا تورو اس کے بعد بھی زندہ رہی‘ اس کے نواسے اور پوتے پوتیاں اس کے سامنے پیدا ہوئے
وہ بھی پاکستانی یہودی تھے‘ زوفیا بھی بالآخر فروری 2012ء میں وفات پاگئی اوراسے اس کے محبوب شوہر کے پہلو میں کراچی میں دفن کر دیا گیا‘دونوں کے انتقال کے بعد کلاسیفائیڈ دستاویزات کھلیں تو یہ حقیقت سامنے آئی توروکو جاسوس بنانے اور خریدنے کی متعدد کوششیں ہوئیں مگر اس نے انکار کردیا تھا‘اس سے جب ا س بارے میں پوچھا گیا تو اس نے الٹا سوال کیا تھا
’’ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے کیا مجھے زیب دیتا تھا میں ایسے بدبودار لوگوں کو توجہ بھی دیتا جو مجھے خریدنا چاہتے تھے‘‘۔آپ نے تورو کی کہانی پڑھی‘ آپ اس شخص کا کمال دیکھیے‘ یہ کہاں سے آیا اور اس نے کس طرح پاکستان کو اپنا ملک بنایا اور پھر اسی پاکستان کی مٹی میں دفن بھی ہوا‘ آپ چند لمحوں کے لیے اس کا مذہب اور عقیدہ سائیڈ پر رکھ کر جواب دیجیے‘
کیا خاندان اور زبان چھوڑ دینا اور اپنی پوری زندگی ان لوگوں کے لیے وقف کر دینا جو دوسروں کو مذہب کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھتے ہوں کیا یہ آسان ہوتا ہے؟ اور کیا کسی نئے ملک کی ہوائوں اور فضائوں کو ناقابل تسخیر بنا دینا اور لاکھوں کروڑوں روپے کی آفر ٹھکرا کر چند ہزار روپے کی تنخواہ پر گزارہ کرنا اور پھر خاموشی سے مر جانا کیا یہ بھی آسان ہے؟ ڈاکٹر عبدالسلام بھی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے‘
دنیا آج بھی انہیں بڑا دماغ سمجھتی اور مانتی ہے‘ پاکستان کے لیے ان کے کنٹری بیوشنز بھی کم نہیں ہیں لیکن ان کا عقیدہ‘ ان کا مذہب بھی ہمارے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا اور ہم آج بھی ان کا احسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کیا ہم ایک احسان فراموش قوم نہیں ہیں اور کیا ہم دنیا میں اپنی اس عادت کی سزانہیں بھگت رہے؟ لہٰذا وزیراعظم صاحب خدا کے لیے عوام کو مذہب اور عقیدے کے نام پر مزید تقسیم نہ کریں‘ یہ ملک پہلے ہی عقیدوں کی آگ میں جل رہا ہے‘ اس ملک کی اقلیتیںہم سے زیادہ پاکستانی ہیں‘ یہ آپشنز کے باوجود اپنی مرضی سے اس ملک کے شہری ہیں‘ آپ بار بار مذہب کا نام لے کر ان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ملک ان کا نہیں ہے اور کیا یہ 73لاکھ لوگ اس ملک سے چلے جائیں؟۔