جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ مسلمان خواتین کو گلیوں میں سرعام ریپ، بچوں کو گاڑیوں سے کچلا جارہا ہے‘‘ دو ہزارمسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا،کشمیر کی داستان تو ہے، کشمیر کی داستان تو ہے ہی فرعونیت کی داستان ،اس میں موت بوئی اور موت کاٹی جا رہی ہے، قائد محمد علی جناح نے کشمیری رہنماؤںسے کیا الفاظ کہے تھے جو آج سچ ثابت ہو گئے ہیں ؟تہلکہ خیز انکشافات

datetime 6  مارچ‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔دوسری طرف گاندھی کا خیال ہے ہمارا انڈیا مکمل سیکولر ہو گا‘ اس میں کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر کسی شخص پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا‘ انڈیا کا ہر شہری صرف انڈین ہو گا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا میں نے دونوں کی رائے کا احترام کیا‘ قائداعظم کو مسلمانوں کا ملک دے دیا

اور گاندھی کو ہندوؤں کا انڈیا ‘ اقلیتیں دونوں کے پاس ہیں‘ پاکستان میں بھی ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور پارسی ہیں اور انڈیا میں بھی مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور بودھ ہیں‘ اب قائداعظم کا پاکستان جیتتا ہے یا پھر گاندھی کا یہ فیصلہ وقت کرے گا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان تقسیم کر کے برطانیہ چلا گیا لیکن انڈیا اور پاکستان کا نظریہ وقت کی لہروں پر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آج 73برس ہو چکے ہیں‘ ان 73برسوں نے چند حقائق ثابت کر دیے‘ پہلی حقیقت پاکستان کی میچورٹی ہے‘ یہ درست ہم اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دے سکے جو قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے ہندوؤں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور پارسیوں کو دینا چاہتے تھے‘ یہ آج بھی خود کو پاکستان میں اجنبی محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جتنا عدم تحفظ پاکستان کی سرحدوں کی دوسری طرف ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔آپ بھارت میں دنگوں اور فسادات کی تاریخ دیکھ لیں‘ آپ کو گلیوں میں ناچتی وحشت قے پر مجبور کر دے گی‘1992ءمیں بابری مسجد شہید کر دی گئی‘ ایک مسجد نے کسی کا کیا بگاڑا تھا لیکن انتہا پسندوں نے گنبد پر چڑھ کر مسجد شہید کر دی‘ اس سانحے کو آج 28برس ہو چکے ہیں لیکن نفرت کی آگ نہیں بجھی‘ داؤد ابراہیم ہو‘ چھوٹا شکیل ہو یا پھر یعقوب میمن جیسے مسلمان گینگسٹر ہوں یہ سب بابری مسجد اور انتہا پسندوں کی نفرت کا جواب ہیں‘ نریندر مودی نے 2002ءمیں گجرات میں کیا کیا ؟

دو ہزارمسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘ گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اور مسلمان خواتین کو گلیوں میں سرعام ریپ کیا گیا‘ کشمیر کی داستان تو ہے ہی فرعونیت کی داستان‘ یہ خطہ 73 برسوں سے سلگ رہا ہے‘ اس میں موت بوئی اور موت کاٹی جا رہی ہے‘ کشمیر میں کرفیو کو 215دن ہو چکے ہیں‘ ہسپتال‘ سکول اور مارکیٹیں بھی بند ہیں اور انٹرنیٹ اور فون سروس بھی‘ چھ ہزار نوجوان گھروں سے غائب ہیں

اور آج دہلی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے‘ 8دنوں میں 40مسلمان شہید اور 200زخمی ہو چکے ہیں۔لوگوں کے گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں تک جلا دی گئیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہی‘ بھارتی میڈیا اپنے منہ سے بول رہا ہے پولیس اور فوج نے کھل کر بلوائیوں کا ساتھ دیا‘ یہ مسلمانوں کو پکڑ کر انتہا پسندوں کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ انہیں ڈنڈوں‘ راڈز اور پتھروں سے کچل دیتے تھے‘

خواتین کو ریپ بھی کیا گیا اور بچوں کو گاڑیوں تلے بھی روند دیا گیا‘ یہ ظلم صرف مسلمانوں تک محدود رہتا تو شاید گاندھی کے سیکولرازم کی عزت بچ جاتی لیکن 1984ءمیں سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ کیاہوا؟اندرا گاندھی کے حکم پر فوج گولڈن ٹیپمل میں داخل ہوئی اورتین ہزار زائرین کو بھون کر رکھ دیا‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے ساتھ دوبارہ کیا سلوک ہوا؟سیکڑوںسکھ خواتین ریپ ہوئیں

اور اربوں روپے کی پراپرٹیز جلا کر راکھ کر دی گئیں‘بھارت میںعیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بھارت عیسائیوں پر حملوں میں10 بدترین ممالک میں شامل ہے‘ 2018ءمیں مسیحی برادری پر 12000 حملے ہوئے‘درجنوں چرچ بھی جلادیئے گئے اورسیکڑوںعیسائی قتل بھی کر دیئے گئے۔بھارت میں1948ءمیں 30ہزاریہودی تھے‘ آج صرف پانچ ہزار ہیں‘ باقی بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں‘

بودھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کسی دن یہ ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیں اور آپ انڈیا میں 35کروڑ دلتوں کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے‘ یہ لوگ آج بھی انسانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکے‘ یہ آج 21 ویں صدی میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پاکستانی بھی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن نفرت‘ شدت‘ تعصب اور جانب داری نے انسانیت کی جتنی دیواریں بھارت میں پھلانگی ہیں

اور لوگ عقائد اور نسلوں کی جتنی سزا وہاں بھگت رہے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہ درست ہے بھارت نے پچھلے 30 برسوں میں معاشی ترقی کی‘ آج وہاں 138ارب پتی ہیں‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بھی ہے لیکن یہ سماجی‘ انسانی اور مذہبی سطح پر انسانیت سے جتنا نیچے گیا ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ مسلمان‘ سکھ اور دلت آج بھی کسی برہمن کے گلاس میں پانی اور پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے‘

یہ ان کے سائے پر بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں بھارت جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے یہ اس سے ہزار گنا تیزی سے شرف انسانیت سے نیچے جا رہا ہے اور یہ تیزی ثابت کر رہی ہے یہ اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔مجھے آج قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ بار بار یاد آرہے ہیں‘ قائد نے کشمیری رہنماؤںسے کہا تھا‘ تم نے اگر پاکستان سے الحاق نہ کیا تو تمہاری نسلیں پچھتائیں گی‘ آج ہندوستان میں موجود ہر اقلیتی خاندان کی نسلیں پچھتا رہی ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…