اسلام آباد (آئی این پی) پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ضرورت پڑی تو وزیراعظم کو بلوائیں گے ورنہ نہیں، ابھی تو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ دوسرے فریق نے کیا کہنا ہے جس کو بلانا پڑا بلائیں گے، سب کو سن کر فیصلہ کریں گے، عدالت نے کیا کرنا ہے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر عدالت شواہد ریکارڈ کرسکتی ہے۔
منگل کوسپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان کے دلائل کو بھی اپناتا ہوں۔ شاہد حامد نے مریم نواز کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا۔ مریم صفدر کے جواب میں کیا گیا کہ میری شادی فوج کے حاضر سروس کیپٹن سے 1992 میں ہوئی۔ کیپٹن صفدر نے بعد میں سول سروس جوائن کرلی۔ کیپٹن صفدر 1986 میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے کیپٹن صفدر 1986 سے آج تک ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ہم نے رائے ونڈ میں شمیم ایگری فارمز پانچ میں سے ایک رہائش گاہ حاصل کی۔ اس کی مالک میری دادی تھیں۔ میرے تین بچے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا زیر تعلیم اور ایک بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ 2000ء میں جلا وطن کیا گیا تو والدین کے ہمراہسعودی عرب چلی گئی۔ شوہر بھی میرے ہمراہ تھے ۔میرے والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔
میرے شوہر کو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ 2007 میں جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے۔ 2007 میں دوبارہ شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیار کی ۔میرے شوہر 2008ء اور 2013ء میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹسرونٹ آتی رہی۔ تفصیلات عدالت کو دے دیں ۔جواب میں کہا گیا کہ والد نے قیمتی تحائف پدرانہ شفقت کے تحت دیئے۔ تحفے دینے میں والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔ 1991ء کے بعد سے کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی۔
کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینی فشل مالک نہیں رہی۔ عدالت نے ایک صفحے کا مریم صفدر کا جواب مسترد کردیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط کے بغیر اس دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ دستخط کراکر دوبارہ جمع کرادوں گا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخط اپنی موکل کی جانب سے کرنے ہوں گے۔ فلیٹس کی ملکیت تقریباً دو ملین پائونڈ ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم صفدر کے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرا چکے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ شمیم ایگری فارم کے دستاویزات بھی عدالت کو دے چکے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا قانونی طور پر اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں؟ شاہد حامد نے کہا
کہ قانونی طور پر لازمی نہیں کیونکہ مریم خود بھی ٹیکس دیتی ہیں۔ ٹیکس گوشوارے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کروائے گئے تھے۔ کیپٹن صفدر کا این ٹی ایم نمبر2013 میں بنا کیپٹن صفدر 1986 سے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو این ٹی این چند سال پہلے ملا ہے کیپٹن (ر) صفدر 1986 سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثوں کا ذکر نہیں کیا۔ شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر2011 میں ریٹرن فائل نہیں کرتے تھے۔
نعیم بخاری نے دلائل میں کہیں کیپٹن (ر) صفدر کا تزکرہ نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نعیم بخاری نے دلائل دیئے کیپٹن صفدر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف درخواست گزار نے استدعا نہیں کی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کو زیر کفالت معاملے پر دلائل دینا ہوں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپمیاں بیوی کے ٹیکس ریٹرن پر دلائل دیں گے۔
شاہد حامد نے کہا کہ برطانیہ میں ٹرسٹ کو رجسٹر کرانا قانونی تقاضا نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دیکھنا ہے ٹرسٹ ڈیڈ کے تمام قانونی تقاضے پورے ہوئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مریم نواز والد کے نہیں تو کیا دادی کے زیر کفالت ہے؟ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا شمیم ایگری فارم کی اراضی اہلیہ کے نام خریدی۔
مریم نواز کی ذاتی آمدن کے گوشوارے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ دوسری پارٹی نے زرعی آمدن پر اعتراض نہیں لگایا۔ پانامہ کیس کی سماعت بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی ۔