کابل (این این آئی)افغان طالبان نے خبردار کیا ہے اگر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کئی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور مخالف فریق اس کا ذمہ دار ہوگا۔ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ دوحہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کی مذاکرات کرنے والی ٹیموں کی بہت کوششوں ، مشاورت اور مذاکرات کا ثمر ہے اور اس مسئلے کو حل
کرنے کا یہ واحد معقول اور پائیدار طریقہ ہے، اگر دوحہ معاہدہ ختم کیا گیا تو یہ بڑی جنگ کا باعث ہوگا اور اس کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوگی۔ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کو دوحہ معاہدے کے بارے میں جذباتی رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہئے اور افغانستان میں جنگ کو جاری رکھنے، جنگجوں اور بدعنوان حکمرانوں پر سرمایہ کاری نہ کرے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے اور اپنے وعدوں کی پاسداری کی ہے، معاہدے میں کئے گئے وعدوں کے پابند ہے اور اس معاہدے کے مکمل نفاذ کو افغانستان کے جاری بحران کا فائدہ مند حل سمجھتی ہے، لہٰذا ایسے اقدامات اور تاثرات سے باز آنا چاہئے جو ہمیں جنگ کی طرف دھکیل کررہے ہیں کیونکہ وہ صورتحال امریکہ کے مفاد میں تھی اور نہ ہی افغان عوام کے مفاد میں تھی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں افغانستان سے متعلق کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کی مدت میں توسیع کرنے کی سفارش کی ہے، کانگریس کی کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی ہے۔اس رپورٹ میں ان امور اور خدشات کا ذکر کیا گیا ہے جو غیر حقیقت پسندانہ ہیں، رپورٹ کی ان کوتاہیوں سے
ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے افغانستان کی صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں لگایا ہے اور سپرد کردہ کام کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔طالبان کے مطابق مذکورہ کمیٹی میں جنرل ڈنفورڈ جیسے لوگوں کی موجودگی قابل غور ہے، ڈنفورڈ نے افغانستان میں اپنے دور میں شکست کھائی، اس لئے افغان مسئلہ کے ساتھ امتیازی اور جذباتی سلوک اختیار کرتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ دوحہ معاہدے کو ان لوگوں کی نگاہ سے نہیں دیکھا جانا چاہئے جو جنگوں اور قتل و غارت گری میں اپنے مفادات کے خواہاں ہیں اور اقوام عالم کے عام مفادات میں رکاوٹ ہیں۔