لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے آئے تھے لہٰذا ہم انہیں افغان بھائی کہتے تھے‘ قالینوں کا کاروبار کرتے تھے اور ارب پتی تھے‘ ان کے پاس تیس چالیس ملازم تھے لیکن ان میں ایک بھی افغان نہیں تھا‘ دو تین کو چھوڑ کر سارے پنجابی تھے‘ میں نے ان سے ایک دن پوچھا ’’افغان بھائی آپ خود نیم روز سے ہیں لیکن آپ نے اپنے گھر اور دفتر میں کوئی افغان ملازم نہیں رکھا‘ آپ کے چوکی دار تک بلوچ ہیں‘ اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟‘‘ افغان بھائی نے مسکرا کر جواب دیا ’’ ہم افغان فطرتاً اچھے لوگ ہیں لیکن ہمیں وفادار رکھنے کے لیے آپ کا امیر یا طاقتور ہونا ضروری ہے‘‘ وہ تھوڑی دیر رک کر بولے ’’افغان کی فطرت ہے یہ آپ کے ساتھ لالچ سے رہے گا یا پھر خوف اس کی بنیاد ہو گی‘ یہ برابری یا عزت کی وجہ سے کبھی آپ کے ساتھ نہیں رہتا‘ آپ انہیں دبا لیں یا پھر خرید لیں یہ آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے مگر جس دن آپ کے پاس یہ دونوں ٹولز نہیں ہوں گے اس دن یہ آپ کا گلہ کاٹ دیں گے اور یہ اس وقت آپ کی ساری نیکیاں فراموش کر دیں گے‘‘ ان کا کہنا تھا آپ کو اگر دوست یا ملازم چاہیے تو آپ پنجابی کا انتخاب کریں‘ یہ آپ کو مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا‘‘ میں نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور بات بدل دی‘ میرا خیال تھا افغان بھائی پنجاب میں سیٹل ہیں اور ہم پنجابیوں سے بات کر رہے ہیں چناں چہ یہ ہلکا پھلکا مکھن لگا رہے ہیں لیکن آپ یقین کریں جب سے افغانوں کا نیا چہرہ میرے سامنے آیا مجھے افغان بھائی کا ایک ایک لفظ یاد آ گیا۔
پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ ہم نے 80 کی دہائی میں افغانوں کے لیے اپنے سارے گیٹ کھول دیے اور ان دروازوں سے 50 لاکھ افغان پاکستان آ گئے‘ پاکستان نے انہیں پورے ملک میں آباد ہونے اور کاروبار کی اجازت دے دی‘ اس کے تین نتائج نکلے‘ پاکستان کا کلچر بدل گیا‘ ہم لبرل لوگ تھے‘ ہم مذہبی شدت پسند ہو گئے‘دوسرا ملک میں کلاشنکوف اور منشیات آ گئیں اور اس نے ہماری تین نسلیں برباد کر دیں اور پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا‘ کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی کبھی پرامن اور صاف ستھرے شہر ہوتے تھے‘ لوگ چھٹیاں منانے وہاں جاتے تھے لیکن آج آپ ان کی حالت دیکھ لیں‘ یہ افغانوں کی مہربانی ہے‘ دوسرا افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے سکولوں کا سلیبس تبدیل ہو گیا‘ پاکستان میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان سکولوں میں لازمی ہو گئے اور ان کا سلیبس امریکا میں تیار کیاگیا تھا اور اس میں افغان طالع آزمائوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا‘ اسلامیات میں بھی جہاد کی آیات اور احادیث شامل کی گئیں‘ مسجدوں کے اماموں کو بھی جہاد کی ترویج اور فرقہ پرستی پر لگا دیا گیا چناں چہ آپ آج کا پاکستان دیکھ لیں‘ تاریخ میں محمود غزنوی‘ شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کا کیا کردار تھا‘
یہ لوگ ہندوستان کیا لینے آتے تھے اور اسلام کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا؟ ہمیں ماننا ہوگا یہ طالع آزما تھے اور یہ ہر سال ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے لیکن یونیورسٹی آف نبراسکا نے انہیں 1980ء میں اسلامی دنیا کے عظیم ہیرو بنا دیا اور ہماری نئی پود نے یہ ’’نیونارمل‘‘ تسلیم کر لیا لہٰذا آپ آج اس جعلی تاریخ کا نتیجہ دیکھ لیں‘ امریکا نے پروپیگنڈے سے افغانوں کویہ یقین بھی دلا دیا تھا تمہیں آج تک کوئی فتح نہیں کر سکا‘ یہ سراسر جھوٹ تھا‘ افغانستان کسی بھی دور میں آزاد نہیں رہا تھا‘ اشوکا سے لے کر امریکا تک یہ ہر دور میں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا مفتوح رہا اور اس وقت تک رہا جب تک کسی دوسرے نے اس پر قبضہ نہیں کیا‘ آپ تاریخ پڑھ لیں‘ کیا یہ آشوک‘ یونانیوں‘ منگولوں‘ ازبکوں‘ ایرانیوں‘ ترکوں‘ سکھوں‘ انگریزوں‘ روسیوں اور امریکیوں کے زیرتسلط نہیں رہے‘ حدتو یہ تھی سیالکوٹ کے ایک راجہ منندر عرف ملند نے بھی انہیں فتح کر لیا تھا‘ اس کی حکومت بھی کابل تک تھی‘ یہ افغان راجہ رنجیت سنگھ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے تھے‘ وہ بھی 31 سال خیبر پاس پر قابض رہا اور افغانوں نے چوں تک نہیں کی۔ ’’افغان ناقابل تسخیر ہیں‘‘ یہ فارمولہ بھی پاکستان اور یونیورسٹی آف نبراسکا نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دیا تھا اور انہوں نے اسے سچ مان کر دنیا میں اپنے واحد دوست اور محسن پاکستان پر ہی حملے شروع کر دیے۔
طالبان کون ہیں؟ یہ پاکستان میں پرورش پانے والے افغان ہیں‘ ہم نے انہیں 1980ء کی دہائی میں پناہ اور تعلیم دونوںدیے‘ یہ 1994ء میں بھی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے اور 2021ء میں بھی پاکستان ہی انہیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آیا اور دونوں مرتبہ ان کے ہاتھوں ذلیل ہوا‘ پاکستان نے نائین الیون کے بعد انہیں 20 سال دنیا بھر سے بچا کر رکھا تھا‘ یہ کوئٹہ‘ کراچی اور راولپنڈی میں پاکستان کی پناہ میں رہے اور پاکستان نے ہی انہیں امریکا کے انخلاء کے بعد کابل کا تخت پیش کیا اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘ آپ طالبان کے وزیرخارجہ امیر متقی کی مثال لے لیں‘ یہ خاندان سمیت 1980ء میں پاکستان آئے‘ آج بھی کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور میں ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے‘ یہ کاروباری لوگ ہیں‘ انہوں نے پاکستان سے کھربوں روپے کمائے لیکن آج یہ بھارت میں کھڑے ہو کر آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ کیا اسے محسن کشی نہیں کہا جائے گا؟ دوسرا پاکستان نام نہاد ہی سہی لیکن مسلمان ملک ہے جب کہ بھارتی بت پرست اور مشرک ہیں لیکن آج طالبان مسلمان اور محسن پاکستان کو چھوڑ کر مشرکین کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ خود کو مومن بھی قرار دے رہے ہیں‘ یہ بھی کیا ہے؟
افغانستان کا اقتدار اس وقت 35 گورنرز‘ وزراء اور کمانڈرز کے ہاتھ میں ہے‘ ان میں سے 22 پاکستان کے ساتھ ہیں‘ ان کا خیال ہے ہم ہر مشکل گھڑی میں پاکستان میں پناہ لیتے ہیں‘ ہم نے اگر اسے ناراض کر دیا تو ہم کل کہاں جائیں گے جب کہ باقی 13 پاکستان کے سخت مخالف ہیں اور بدقسمتی سے یہ اس وقت فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ 13 طالبان لیڈر بھی برس ہا برس پاکستان میں رہے اور پاکستان نے جی جان سے ان کی حفاظت کی‘ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ ہیں‘ یہ 1979ء میں خاندان سمیت کوئٹہ شفٹ ہوئے اور 1996ء تک کوئٹہ میں رہے‘ تعلیم بھی پاکستانی مدارس سے حاصل کی‘ یہ 2001ء میں دوبارہ کوئٹہ میں پناہ گزین ہوگئے اور پاکستان نے انہیں دوبارہ 20 سال دنیا بھر سے چھپا کر رکھا لیکن یہ اس وقت پاکستان کے دشمن نمبر ون ہیں‘ یہ بھارت اور امریکا دونوں سے ڈالر وصول کرتے ہیں اور پاکستان پر حملوں کی اجازت دیتے ہیں‘ صدر ابراہیم طالبان کے نائب وزیر داخلہ ہیں‘ اصل وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں لیکن پاکستانی ہمدرد ہونے کی وجہ سے سپریم کمانڈر نے ان کے اختیارات سلب کر کے صدر ابراہیم کو دے دیے ہیں‘ یہ بھی پاکستان کے سخت مخالف ہیں‘ ان کی زندگی کا بڑا حصہ پشاور میں گزرا اور پاکستان نے ان کی میزبانی کی‘ ملا عبدالغنی برادر نائب وزیراعظم ہیں‘ انہوں نے ملاعمر کے ساتھ مل کر طالبان تنظیم بنائی تھی‘ یہ 21 سال کوئٹہ میں رہے لیکن یہ بھی آج انڈین اور امریکن نواز ہیں اور پاکستان سے نفرت کرتے ہیں‘
ملا یعقوب ملا عمر کے بڑے بیٹے جب کہ طالبان کے وزیر دفاع اور ڈپٹی کمانڈر ہیں‘ یہ بھی طویل عرصہ کوئٹہ میں رہے لیکن آج یہ بھی ہمارے مخالف ہیں جب کہ ان کا ذاتی کردار یہ ہے ڈاکٹر ایمن الظواہری سراج الدین حقانی کے گھر میں رہتے تھے‘ ملا یعقوب نے دوحا میں امریکیوں کو بتا دیا اور امریکا نے 31 جولائی 2022ء کو ڈرون حملے کے ذریعے انہیں مار دیا‘ کابل میں لوگ بتاتے ہیں ملایعقوب نے اس ’’وفاداری‘‘ کا بھاری معاوضہ وصول کیا‘ ملا عبدالحق واثق طالبان کے انٹیلی جنس چیف ہیں‘ یہ گوانتانا موبے میں قید تھے‘ ان کی رہائی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن یہ بھی اب را کے ذریعے بی ایل اے کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور اس کی حفاظت کر رہے ہیں‘ ملا محمد زئی ہلمند‘ قندہار اور نیم روز میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے کیمپس کے نگران ہیں‘ یہ بہرحال جلاوطنی کے زمانے میں ایران میں رہے تھے اور ملا عبدالقیوم ذاکر پاک افغان بارڈرز کا کمانڈر ہے‘ یہ قندہاری اور انتہائی سخت مزاج ہے‘ یہ پکتیا میں ٹی ٹی پی کا البدر ٹریننگ کیمپ چلا رہا ہے‘ اس نے پاکستان میں انگور اڈہ کے لیے 300‘ میران شاہ کے لیے 200 اور اسلام آباد‘ راولپنڈی اور کوئٹہ کے لیے 500 دہشت گرد بھجوائے تھے‘ پاکستانی اداروں نے اس کی باقاعدہ گفتگو ریکارڈ کی جس میں یہ پاکستان میں ٹارگٹ بتا رہا تھا‘ قندہار میں اس وقت بھی ملا عمر کے گھر میں 300 خودکش حملہ آور تیار بیٹھے ہیں‘ ہلمند کا کور کمانڈر ملا شرف الدین تقی افغانستان کے بلوچوں کو بلوچستان میں لڑنے کی تربیت دے رہا ہے جب کہ قندہار اور کابل میں انڈین ماہرین طالبان کو میزائل بنا کر دے رہے ہیں‘ دو تین ماہ میں طالبان پاکستانی طیاروں پر میزائل داغیں گے‘ اس جنگ میں بھی طالبان نے دو روسی میزائل داغے‘ یہ انہیں انڈیا نے قابل استعمال بنا کر دیے تھے اور سرحد پار سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے بدخشاں میں روسی ساختہ جوہری بم چھپا رکھے تھے‘ یہ طالبان کے ہاتھ لگ گئے ہیں اوربھارتی ماہرین انہیں یہ چلانے کی ٹریننگ دے رہے ہیں لہٰذا اب پیچھے کیا رہ گیا؟۔
پاکستان کے پاس اب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ورنہ طالبان انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو تباہ کر دیں گے‘ افغانستان تاریخ کے کسی بھی حصے میں آزاد نہیں رہا‘ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی عالمی طاقت کے زیر تسلط رہے لہٰذا ان سے نبٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے طاقت یا رقم‘ امریکا رقم دے کر جان چھڑا رہا ہے جب کہ ہمارے پاس طاقت کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ آپ کو ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ یہ آپ کو بیٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے۔