بدھ‬‮ ، 22 اکتوبر‬‮ 2025 

کنفیوز پاکستان

datetime 23  اکتوبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘ یہ مقصد پورا ہو گیا‘ افغانستان میں واقعی امن ہو گیا لیکن اس امن سے ایک نئے بحران نے جنم لے لیا‘ طالبان اپنی سوچ پورے خطے میں پھیلانے لگے‘ پاکستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور چین کا مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ ان کے بڑے ہدف تھے‘ پاکستان میں افغان وار کے دوران بے شمار مذہبی سیاسی جماعتیں بنی تھیں‘ یہ 1980ء کی دہائی کی ضرورت تھیں مگر یہ 1990ء میں غیر ضروری ہو گئیں تاہم اس وقت تک ان کا سائز اتنا بڑا ہو چکا تھا کہ انہیں سمیٹنا یاختم کرنا مشکل تھا‘ طالبان حکومت نے ان میں نئی روح پھونک دی اور انہیں محسوس ہونے لگا اگر افغانستان میں اسلامی حکومت بن سکتی ہے تو پھر پاکستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان اور سنکیانگ میں کیوں نہیں؟

طالبان کے ساتھ القاعدہ بھی تھی‘ یہ عرب تھے اور افغانستان میں رہتے تھے‘ انہیں بھی شہہ مل گئی اور انہوں نے بھی عرب ملکوں میں طالبان طرز کی حکومت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا‘ یہ کام پاکستان میں بہت آسان تھا‘ یونیورسٹی آف نبراسکا کی مہربانی سے پاکستان میں کروڑوں سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جنم لے چکے تھے‘فوج کے اندر بھی ایسے آفیسر اور جوان موجود تھے‘ یہ سب طالبان کے ساتھ جڑ گئے اور یوں انقلاب درہ خیبر‘ دریائے آمو اور واہ خان سے آگے بڑھنے لگا‘ یہ عربوں کے دروازے پر بھی دستک دینے لگا‘ القاعدہ نے اس زمانے میں سعودی عرب میں چندہ جمع کرنا شروع کر دیا‘ حج کے دوران انہیں کروڑوں ڈالر مل جاتے تھے‘ خواتین اپنی بچیوں کے کانوں کی بالیاں تک القاعدہ کے باکس میں ڈال دیتی تھیں‘ طالبان اسے اپنی کام یابی سمجھنے لگے اور انہوں نے نہ صرف آگے بڑھ کر افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی بلکہ یہ سرعام لوگوں کو سنگسار بھی کرنے لگے‘ دنیا بھر کے مطلوب لوگ بھی افغانستان کا رخ کرنے لگے‘ اس بیک گرائونڈ میں 24 دسمبر 1999ء کو ائیرانڈیا کا ایک طیارہ کھٹمنڈو سے ہائی جیک ہو گیا۔

یہ آئی سی 814 فلائیٹ تھی جس میں 179 مسافر اور عملے کے 11 افراد سوار تھے‘ ہائی جیکرز جہاز کو پہلے امرتسر‘ پھر دوبئی اور پھر قندہار لے گئے‘ طیارہ حرکت المجاہدین نے اغواء کیا تھا اور اس کا مقصد بھارت کی قید میں موجود مولانا مسعوداظہر اور ان کے ساتھیوں کی رہائی تھی‘ یہ آپریشن مولانا کے دو بھائیوں ابراہیم اطہر اور جہانگیر نے کیا‘ اس کے لیے پانچ کروڑ روپے کی رقم کراچی کے بزنس مینوں نے دی تھی‘ ہائی جیکرز میں کراچی کے تین نوجوان شاہد اختر سید‘ سنی احمد قاضی اور ظہور مستری شامل تھے جب کہ چوتھا شخص شاکر احمد سکھر اور ابراہیم اطہر بہاولپور سے تعلق رکھتا تھا‘ ابراہیم اطہر مولانا مسعود کا بھائی تھا‘ ان پانچ لوگوں نے 190 مسافروں کا جہاز اغواء کیا اور انہیں طالبان کی بھرپور مدد حاصل تھی‘ ہائی جیکرز سے ڈیل کرنے والی مذاکراتی ٹیم میں بھارت کے آج کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول بھی شامل تھے‘ بہرحال قصہ مختر انڈیا نے ہائی جیکرز کے مطالبے پر مولانا مسعود اظہر‘ مشتاق احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو رہا کر دیا اور یوں یہ معاملہ نبٹ گیا مگر اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ پاکستان اور امریکا کو پہلی بار محسوس ہوا طالبان کے اثرات کراچی تک پہنچ چکے ہیں‘ دوسرا مولانا مسعود اظہر کو پرائیویٹ لوگ ایمبولینس میں ڈال کر قندہار سے کراچی لے آئے اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی‘ یہ بہت بڑا انٹیلی جنس فیلیئر تھا اور یہ ثابت کرتا تھا اداروں میں ان کے لوگ موجود ہیں اور تیسرا ہائی جیکرز رہائی کے بعد غائب ہوگئے‘ امریکی اور پاکستانی انہیں تلاش ہی کرتے رہ گئے‘

سی آئی اے کو 11 ستمبر 2001ء کے ٹوئن ٹاورز حملوں کے بعد پتا چلا پانچوں ہائی جیکرز کابل میں طالبان کے پاس تھے‘ وہ پاکستان آئے ہی نہیں تھے اور انہوں نے بعدازاں نائین الیون کے ہائی جیکرز کو طیارے اغواء کرنے اور مسافروں کو قابو کرنے کی تکنیکس سکھائی تھیں‘ وہ مہینوں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ٹریننگ دیتے رہے‘ یہ انکشاف لرزہ خیز ثابت ہوا‘ طالبان صرف افغانستان تک محدود رہتے‘ یہ اپنا نظریہ دوسرے ملکوں میں سمگل نہ کرتے‘ یہ کراچی کے بزنس مینوں تک نہ پہنچتے‘ یہ ائیر انڈیا کی ہائی جیکنگ میں شامل نہ ہوتے یا ہائی جیکرز کو پناہ نہ دیتے اور یہ اگر نائین الیون میں ملوث نہ ہوتے تو دنیا شاید انہیں برداشت کر لیتی لیکن جب ان کا ماڈل سرحدوں سے باہر نکلنے لگا اور یہ ہائی جیکنگ جیسی وارداتوں میں ملوث ہو گئے تو پھر یہ ناقابل برداشت ہو گئے‘ آپ اگر اس سیناریو کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کی رخصتی اور جنرل پرویز مشرف کی آمد کی وجہ سمجھ آ جائے گی‘ میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی جہادی سوچ کی ایکسٹینشن تھے اور یہ 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے بعد امیرالمومنین بننے کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے‘ میاں صاحب نے 1998ء میں ایٹمی دھماکے بھی کر دیے تھے لہٰذا افغانستان میں طالبان‘ پاکستان میں آگے بڑھتی ہوئی طالبان سوچ‘ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت اور اوپر سے ایٹمی طاقت دنیا ڈر گئی اور اسے اب جنرل پرویز مشرف جیسا کوئی لبرل جنرل چاہیے تھا چناں چہ جنرل پرویز مشرف آ گیا اور اس نے نائن الیون کے بعد جنرل ضیاء الحق کی بچھائی جائے نماز لپیٹنا شروع کر دی‘ اس نے افغانستان اور پاکستان دونوں سے جہادی سوچ کے لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنا شروع کر دیے۔

ہم اگر آج تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا جنرل ضیاء الحق کی جہادی اور جنرل پرویز مشرف کی لبرل دونوں سوچیں غلط تھیں‘ دونوں میں شدت تھی اور ہمارا معاشرہ دونوں کے لیے نہیں بنا ‘ پاکستان جنگ کی بجائے جمہوری عمل کے ذریعے بنا تھا‘ برصغیر کے مسلمان کسی حدتک جمہوریت پسند اور لبرل تھے‘ آپ اس کا اندازہ دو حقیقتوں سے لگا لیجیے‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت سنی العقیدہ تھی لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر اسماعیلیوں کے مذہبی رہنما آغا خان سوم تھے اور یہ اس کے تاحیات صدر رہے‘ مسلم لیگ کے 80 فیصد قائدین اہل تشیع تھے اور انہوں نے سنی اکثریت کے لیے ملک بنایا اور سنی مسلمان آج بھی ان کی تصویریں چومتے ہیں‘ علامہ اقبال اور قائداعظم کے مسلک مختلف تھے لیکن علامہ نے اس کے باوجود 1937ء میں خط لکھ کر قائداعظم کو لندن سے واپس بلایا اور انہیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے قائل کیا لیکن جنرل ضیاء الحق نے ایسے لبرل جمہوری ملک کو جہادی سوچ میں دھکیل دیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں‘دوسری حقیقت پاکستانی لبرل اور جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل مسلمان بھی ہیں‘ یہ جس طرح مذہبی شدت سے دور ہیں یہ بالکل اسی طرح ایکسٹریم لبرل ازم کے بھی خلاف ہیں‘ یہ مسجد میں تفرقہ اور نفرت پسند نہیں کرتے تھے اور کسی کو مسجد شہیدبھی نہیں کرنے دیتے تھے جب کہ جنرل مشرف جنرل ضیاء الحق کی مکمل ضد تھے‘ یہ ایکسٹریم لبرل تھے اور انہوں نے جہادی گود میں پلنے والے بچے کو ماں کی چھاتی سے کھینچ کر کلب میں کھڑا کر دیا‘

یہ دوسری ایکسٹریم تھی اور اگر ان دونوں حدوں کے درمیان تیس چالیس سال کا فاصلہ ہوتا تو شاید معاشرہ اسے ہضم کر لیتا لیکن بدقسمتی سے یہ تبدیلی ایک نسل میں لانے کی کوشش کی گئی‘ ہم بچے تھے تو ملک میں جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی‘ مسجدوںمیں باقاعدہ نمازیوں کی حاضری لگتی تھی اور ہمیں یونیورسٹی آف نبراسکا کی تیار شدہ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا تھا‘ تعلیمی اداروں میں مذہبی جماعتیں بھی تھیں اور جو سٹوڈنٹ ان کی محفلوں میں نہیں جاتا تھا اسے پھینٹا لگایاجاتا تھا لیکن ہم جب جوان ہوئے تو چھٹی اتوار پر شفٹ ہو گئی‘ جہاد کے ذکر پر پابندی لگ گئی‘ پولیس داڑھی والوں کو گرفتار کر کے تھانے لے جانے لگی‘ مسجدوں پر ریاستی حملے شروع ہو گئے یہاں تک کہ لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن ہو گیا لہٰذا میری نسل کنفیوز ہو گئی‘ میں آج بھی جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی سوچ کے درمیان پنڈولم بنا ہوا ہوں‘ میرا دل مذہبی اور دماغ لبرل ہے اور میں روز ان دونوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ناکام ہو جاتا ہوں‘میں کیا کروں میری پرورش اور پروفیشنل گروتھ دونوں ایک ہی ملک میں مختلف سوچ کے ساتھ ہوئی اور میں دونوں کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گیاہوں اور یہ تضاد صرف مجھ تک محدود نہیں‘ ہماری ریاست‘ افغانستان اور مدارس بھی اس عمل سے گزر رہے ہیں‘

ہم کبھی افغانستان کے لیے جہادی فیکٹری ہوتے تھے‘ ہم پھر ان کے دشمن ہو گئے‘ ہم پھر ان کے دوست بنے اور ہم اب ایک بار پھر ان کے دشمن بن گئے ہیں‘ سوچ کی اس شفٹنگ نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں اگر آج اس کا تجزیہ کروں تو مجھے اس کا ذمہ دار صرف ایک ملک ملتا ہے اور اس کا نام امریکا ہے‘ امریکا کو ضرورت تھی تو اس نے ہمیں جہادی بنا دیا‘ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ہمیں لبرل بنا دیا‘ اسے تیسری مرتبہ ضرورت پڑی تو اس نے 2021ء میں ہمیں ایک بار پھر طالبان کا ہمدرد بنا دیا اور ہم طالبان کو لے کر دوحا پہنچ گئے اور ان کے امریکا سے 165 مذاکرات کرا دیے‘ ہم نے انہیں امریکا کے حکم پر ایک بار پھر افغانستان کے تخت پر بٹھا دیا‘ آپ ذرا خود ٹھنڈے دماغ سے سوچیے اگر کوئی قوم 45 سال میں چار مرتبہ اپنی سوچ میں 180 درجے تبدیلی لائے گی وہ جہادی بنے گی‘ پھر لبرل ہو گی‘ پھر سیمی جہادی ہو گی اور آخر میں جہادیوں کے خلاف جہاد کرے گی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ نتیجہ اس وقت نکل رہا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوز پاکستان


افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…

اوساکا۔ایکسپو

میرے سامنے لکڑی کا ایک طویل رِنگ تھا اور لوگ اس…

سعودی پاکستان معاہدہ

اسرائیل نے 9 ستمبر 2025ء کو دوحہ پر حملہ کر دیا‘…

’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘

’’بکھری ہے میری داستان‘‘ محمد اظہارالحق کی…

ایس 400

پاکستان نے 10مئی کی صبح بھارت پر حملہ شروع کیا‘…

سات مئی

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق…