لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے تھا‘ یہ اپنے خاوند کے ساتھ کاروبار چلا رہی تھی‘ امریکا میں ری سیشن آیا تو کمپنی ڈیفالٹ کر گئی‘ خاوندبیوی سے بہت محبت کرتا تھا‘ وہ زندگی کی 67 بہاریں دیکھ چکا تھا‘ اس نے سوچا میرے پاس دو آپشن ہیں‘ ہم میاں بیوی ڈیفالٹر زندگی گزاریں یا میں مر جائوں اور میری بیوی کو انشورنس کی رقم مل جائے اور یہ اپنا بڑھاپا عزت کے ساتھ گزار لے‘ خاوند نے یہ سوچا اور اگلے دن خودکشی کر لی‘ خاوند کے بعد انشورنس کا کیس شروع ہو گیا‘کیس ذرا لمبا ہو گیا‘ اس دوران بینک نے اینا بل کے اثاثے بیچنے کا اعلان کر دیا‘ اینا بل کو اپنا گھر بچانے کے لیے 40 ہزار ڈالر کی ضرورت تھی‘ وہ یہ رقم ادا کر کے بینک سے کیس کے فیصلے تک مہلت لے سکتی تھی‘ اس نے مدد کے لیے کسی رپورٹر سے رابطہ کیا اور اس نے اس کی خبر شائع کر دی‘
یہ خبر ڈبلیو این بی سی ریڈیو کے اینکر ڈین امیوز (Dan Imus) نے پڑھی اور اپنے ریڈیو شو میں لیڈی اینا بل ہل کی مدد کے لیے کمپیئن شروع کر دی‘ آج کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس زمانے میں صرف بزنس مین تھے اور اٹلانٹک سٹی میں ٹرمپ کے نام سے ان کی بہت بڑی عمارت تھی جس کے تہہ خانے میں کیسینو‘ درمیانی منزلوں پر مشہور کمپنیوں کے دفاتر اور بالائی منزلوں میں فلیٹس تھے‘ ٹرمپ خود بھی اسی عمارت کے پینٹ ہائوس میں رہتے تھے‘ یہ صبح لفٹ کے ذریعے دفتر آتے تھے‘ اخبارات پڑھتے تھے اور پھر فون کرنا شروع کر دیتے تھے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ’’میں سب سے زیادہ فون استعمال کرنے والا بزنس مین تھا‘ میں روزانہ 50 کالز کرتا تھا اور اتنی ہی بزنس ڈیلز لاک کرتا تھا‘‘ ان کا دعویٰ تھا ’’میری کالز بعض اوقات 100 سے زیادہ ہو جاتی تھیں‘ میں مختصر لیکن فائدہ مند کال کرتا تھا‘ ٹیلی فون پر بلاوجہ وقت ضائع نہیں کرتا تھا‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے اخبار میں لیڈی اینا بل کے بارے میں پڑھا‘ اس کے بعد اس نے ڈین امیوز کے شو میں اس سے متعلق امدادی درخواست سنی اور اسی دن ریڈیو اینکر کو فون کر دیا‘ ڈین نے اسے بتایا‘ یہ جینوئن کیس ہے اور اگر اسے فوری طور پر 40 ہزار ڈالر نہ ملے تو بینک دو دن میں اس کی پراپرٹی آکشن کر دے گا‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے فوراً بینک کے وائس پریذیڈنٹ کو فون کر دیا‘ اس نے ان کی بات سن کر جواب دیا‘ میں کچھ نہیں کر سکتا‘ آکشن کا اعلان ہو چکا ہے‘ اینا بل کی پراپرٹی اب بک کر رہے گی‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے سمجھایا‘ آپ آکشن رکوا دیں‘ ہم آپ کو چند دنوں میں چالیس ہزار ڈالر دے دیںگے‘ یہ باقی رقم انشورنس کی رقم ملنے کے بعد دے دے گی‘ آپ نے اگر اس کی پراپرٹی بیچ دی تو یہ بے چاری بے گھر ہو جائے گی اور یہ کہاں جائے گی؟ بینک کے وائس پریذیڈنٹ نے ذرا سا تلخ ہو کر کہا ’’ یہ فیصلہ اب واپس نہیں ہو سکتا‘‘ یہ سن کر ٹرمپ کو غصہ آ گیا اور اس نے سخت لہجے میں کہا ’’تم فوری طور پر بینک کے صدر سے رابطہ کرو اور اسے میرا پیغام دو‘ تم نے اگر یہ آکشن نہ روکا تو میں کل میڈیا اور وکیلوں کے ساتھ آئوں گا اور عدالت میں یہ ثابت کر دوں گا بینک اینا بل کے خاوند کا ذمہ دارہے‘ بینک نے67 سال کے اس بیمار اور بوڑھے شخص کو اتنا ہراساں کیا کہ اس نے خودکشی کر لی‘ میں یہ کیس میڈیا میں بھی لے کر جائوں گا‘ تم اگر میرا مقابلہ کر سکتے ہو تو کر لو‘‘ بینک کا وائس پریذیڈنٹ ڈر گیا‘ اس نے ٹرمپ سے ایک گھنٹہ مانگااور ٹھیک ایک گھنٹے بعد فون کر کے ٹرمپ کو خوش خبری سنائی بینک نے آکشن کینسل کر دی ہے‘ آپ اب 40 ہزار ڈالر کا بندوبست کریں اور بینک اینا بل کو انشورنس کے فیصلے تک مہلت دے دے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا شکریہ ادا کیا‘ ڈین امیوز کو فون کیا اور اسے اپنے ایٹریم میں فنڈ ریزنگ کی دعوت دے دی‘ دو دن بعد کرسمس تھی‘ کرسمس کی شام ٹرمپ بلڈنگ میں فنڈ ریزنگ کا فنکشن ہوا‘ اینکر نے ریڈیو شو سے 20 ہزار ڈالر جمع کیے تھے‘ 20 ہزار ڈالر اس شو سے اکٹھے ہو گئے‘ کرسمس کی چھٹیوں کے بعد یہ رقم بینک میں جمع کرا دی گئی اور یوں لیڈی اینا بل ہل کی پراپرٹی بچ گئی۔
میں نے یہ واقعہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کتاب ’’دی آرٹ آف دی ڈیل‘‘ میں پڑھا۔میرا خیال ہے آپ نے اگر ٹرمپ کو سمجھنا ہو تو آپ اس کی کتابیں بالخصوص ’’دی آرٹ آف دی ڈیل‘‘ ضرور پڑھیں‘ آپ کوفوراً سمجھ آ جائے گی ٹرمپ کیا چیز ہے‘ یہ کس طرح سوچتا ہے اور یہ کس طرح دوسروں کے ساتھ ڈیل کرتا ہے مثلاً آپ اینا بل کے اس واقعے کو ہی لے لیجیے‘ ہم اس سے پانچ نتائج اخذ کر سکتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی ملاقاتوں سے زیادہ فون پر اعتبار کرتا ہے اور یہ اس کا اندھا دھند استعمال کرتا ہے‘ یہ خود کہتا ہے میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو منٹ کی کال میں ڈیل لاک کر دیتا ہوں یعنی یہ پہلے اپنا مائینڈ بناتا ہے اور پھر کال کرتا ہے‘ دوسرا یہ میڈیا سے بہت متاثر ہے‘ یہ روز دیکھتا ہے کون سا ایشو میڈیا میں کتنا چل رہا ہے اور میں اسے اپنے حق میں کیسے استعمال کر سکتا ہوں‘ لیڈی اینا بل کے معاملے میں بھی اس نے سب سے پہلے ریڈیو کے اینکر سے بات کی جس سے اس کے اینکر کے ساتھ تعلقات استوار ہو گئے یا مزید مضبوط ہو گئے‘ دوسری سٹیج پر بھی اس نے لیڈی اینا بل سے رابطہ نہیں کیا‘
اس نے سیدھا بینک کو فون کیا اور پہلے وائس پریذیڈنٹ کو پیار سے سمجھایا لیکن جب وہ نہیں سمجھا یااس نے ٹرمپ کو زیادہ ویٹ نہیں دیا تو یہ سیدھا ہو گیا اور اس نے بینک کو قاتل قرار دے دیا اور اسے میڈیا‘ وکلاء اور عدالت کی دھمکی بھی دے دی‘ یہ دھمکی اس نے اتنے یقین اور زور سے دی تھی کہ نائب صدر ڈر گیا اور اس نے ٹرمپ کا مطالبہ مان لیا‘ ڈونلڈ ٹرمپ اس کے بعد فوری طور پر لیڈی اینا بل کو 40 ہزار ڈالر دے سکتا تھا‘ یہ اس کے لیے معمولی رقم تھی لیکن اس نے خاتون کو ذاتی جیب سے ایک پیسہ نہیں دیا‘ اس نے اینکر کو دوبارہ فون کر کے پوچھا ’’تم نے کتنا فنڈ جمع کیا ہے؟‘‘ اس نے بتایا‘ ہم 20 ہزار ڈالر جمع کر چکے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ چند سیکنڈ میں اسے باقی 20 ہزار ڈالر دے سکتا تھا لیکن اس نے اس کے بجائے اسے ٹرمپ بلڈنگ میں کرسمس کی شام فنڈ ریزنگ کی دعوت دے دی‘ لیڈی اینا بل کا ایشو ہوتا یا نہ ہوتا کرسمس کا فنکشن ٹرمپ نے کرنا ہی تھا لیکن اس نے اسے بھی اپنی پبلسٹی کا ذریعہ بنا لیا‘ اس نے میڈیا کو بلایا‘ لیڈی اینا بل اور اپنے ارب پتی دوستوں کودعوت دی اور کیمروں کے سامنے فنڈ ریزنگ کر لی‘ میرا خیال ہے 20 ہزار ڈالرز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا کوئی ڈالر شامل نہیں کیا ہو گا‘ اس نے سارا فنڈ ہال میں موجود لوگوں سے لیا ہو گا یوں لیڈی اینا بل کے 40 ہزار ڈالر بھی پورے ہو گئے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کا کرسمس کا فنکشن بھی ہو گیا‘ اینکر ڈین امیوز بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹرمپ کا گرویدہ ہو گیا‘ دیکھنے والے بھی اس کی نیکی کے قائل ہو گئے‘ اینا بل فیملی بھی اس کی فین ہو گئی اور اس نے بینک پر بھی اپنی تگڑی اور مضبوط شخصیت کی دھاک بٹھا دی لہٰذا آپ ذرا ایک سٹروک میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کام یابیاں ملاحظہ کیجیے‘ یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ‘ اصل ڈونلڈ ٹرمپ دی ڈیل میکر‘ آپ اگر اس کی کتاب کا ٹائٹل غور سے پڑھیں تو آپ کو اس میں دو بار دی ملے گا ’’دی آرٹ آف دی ڈیل‘‘ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام ڈیلز اہم اور بڑی ہوتی ہیں‘ یہ خواہ اینا بل کے لیے بینک سے رعایت لینی ہو یا پھر 8 اسلامی ملکوں کو حماس کے سرینڈر پر قائل کرنا ہو‘ یہ ہر مرتبہ‘ ہر بار اسی طرح دی کے ساتھ ڈیل لاک کرتا ہے۔
آپ اب اینا بل کے واقعے کو ذہن میں رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی 9 ماہ کی ڈیلز پر نظر دوڑائیں‘ آپ انہیں فوراً سمجھ جائیں گے‘ اس نے انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے دوران نریندر مودی کے ساتھ بینک کے نائب صدر جیسا سلوک کیا‘ اس نے اسے براہ راست دھمکی دی اور یہ سات طیاروں اور پاکستانی حکمرانوں کا بار بار ذکر کر کے اسے مسلسل زچ بھی کر رہا ہے تاہم یہ دنیا کو یہ نہیں بتا رہا بھارت کے سات طیارے پاکستان نے گرائے تھے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اب بھی بھارت کے ساتھ ڈیل لاک کرنا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہے نریندر مودی بینک کے نائب صدر کی طرح اسے فون کرے اور اسے مائی باپ مان لے‘مجھے یقین ہے نریندر مودی عن قریب یہ کرے گا اور اس کے بعد آپ دیکھیے گا ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کوآمنے سامنے بٹھائے گا اور یہ منظر پوری دنیا کے میڈیا پر دکھایا جائے گا‘ اس نے اسی طرح یوکرینی صدر زیلنسکی کو وائیٹ ہائوس بلا کر اس کے ساتھ بینک کے نائب صدر جیسا سلوک کیا اور بعدازاں اس کے ساتھ بڑی اچھی ڈیل لاک کی‘ اس نے پیوٹن کو بھی الاسکامیں بلایا لیکن وہ اس کے پریشر میں نہیں آیا‘ٹرمپ نے آٹھ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ بھی بینک کے نائب صدر جیسا سلوک کیا‘
انہیں بتایا آپ نے اگر حماس کو مذاکرات کے لیے راضی نہ کیا تو میں نیتن یاہو کو کھلی چھٹی دے دوں گا‘ اسرائیل اس پیغام سے قبل دوحا میں حماس کے دفتر پر حملہ کر کے اسلامی دنیا کو اپنی رائے دے چکا تھا چناں چہ آٹھوں اسلامی ملک بھی فوراً بینک کی طرح مان گئے‘ امریکا پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بھی خاموش رہا‘ کیوں؟ کیوں کہ ٹرمپ اب اس معاہدے کے ذریعے اسرائیل کو کنٹرول کر رہا ہے‘ یہ نیتن یاہو کو سمجھا رہا ہے تم نے اگر اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو سعودی عرب نیوکلیئر پاکستان کو تمہاری سرحدوں پر بٹھا دے گا تم پھر کیا کرو گے اور آخری بات ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے بگرام ائیربیس مانگ کر اسے بھی بینک کا نائب صدر بنا دیا ہے‘ یہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کا مطالبہ مانیں گے یا پھر اپنے انکار کی ٹھیک ٹھاک قیمت ادا کریں گے اور اس قیمت کی ادائیگی اب شروع ہو چکی ہے‘ آپ طالبان کی حماقت ملاحظہ کیجیے‘ یہ صورت حال کا اندازہ کیے بغیر انڈیا میں گھس گئے اور امیر خان متقی نے جے شنکر کو گلے لگا لیا اور یہ حماقت انہوں نے اس وقت کی جب ڈونلڈ ٹرمپ کے خوف سے یورپ بھی مودی کے ساتھ سلام نہیں لے رہا چناں چہ آپ چند دن میں دیکھ لیجیے گا ڈونلڈ ٹرمپ طالبان کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ میرا امیر متقی کو مشورہ ہے آپ فوری طور پر دی آرٹ آف دی ڈیل پڑھیں کیوں کہ آپ ٹرمپ کو سمجھے بغیر اس سے پنگے لے رہے ہیں‘ یہ پنگے آپ کو برباد کر دیں گے‘ ٹرمپ سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے آپ اس کے ساتھ چلیں یا مکمل خاموش رہیں‘ اس سے ٹکرانے کی غلطی نہ کریں۔