’’بکھری ہے میری داستان‘‘ محمد اظہارالحق کی خود نوشت کا پہلا حصہ ہے جو حال ہی میں شائع ہوا‘ضخامت کم رکھنے کے لیے انہوں نے آپ بیتی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ ان کا موقف ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے‘ توجہ کا پھیلاؤ کم ہو گیا ہے‘ اس لیے کتاب کو ضخیم نہیں ہونا چاہیے‘ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ موٹی کتابوں اور طویل ڈرامہ سیریز کا وقت واپس آ چکا ہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو ہیری پورٹرز سے لے کر منی ہیسٹ تک دیکھ لیں‘ آپ مان جائیں گے بہرحال اظہار صاحب کی یہ خود نوشت روایتی خود نوشت نہیں ہے‘ انہوں نے اکبر الہ آبادی کی بتائی ہوئی اس ترتیب کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے’’بی اے کیا‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے‘‘۔اکثر خود نوشتیں اس طرح لکھی جاتی ہیں جیسے تاریخ میں بادشاہوں کا حال لکھا ہوتا ہے‘ پیدائش‘ لڑکپن جوانی اور پھربڑھاپا۔
اظہار صاحب نے ایسا نہیں کیا‘ انہوں نے آغاز ڈھاکا سے کیا ہے جہاں وہ انیس برس کی عمر میں ایم اے کرنے گئے تھے ۔ تین سالہ قیام کے دوران ان کا رو یہ دوسرے مغربی پاکستانیوں یا پنجابیوں سے مختلف تھا‘ انہوں نے بنگالی بھائیوں کی زبان سیکھی‘ ان کا لباس پہنا‘ ان کا کھانا کھایا‘ بنگالی دوستوں نے بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا‘ یہ انہیں اپنے گھروں میں لے کر گئے اور یہ آج تک ان سے رابطے میں بھی ہیں اگرچہ یہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے مغربی پاکستان وپس آگئے تھے مگر ٹوٹنے کا عمل ان کی موجودگی میں شروع ہو چکا تھا۔یہ اس عمل کو بہت سے دوسرے لوگوں کے برعکس بھانپ چکے تھے۔ کتاب کے پہلے اکسٹھ صفحات مشرقی پاکستان میں قیام کے بارے میں ہیں جب کہ ان میں سے آخری آٹھ دس صفحات میں انہوں نے علیحدگی کا تجزیہ پیش کیا ‘ اس تجزیے سے آپ اتفاق کریں یا اختلاف مگر اس کا مطالعہ لازمی ہے‘ ایک فقرہ ان کا غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے’’ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رُو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق حاصل تھا‘کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟ ‘‘ ۔
اظہار صاحب نے اپنے گاؤں اور ننھیال کے گاؤں کا جس انداز سے ذکر کیا ہے یہ ہمارے لٹریچر کا شان دار حصہ ثابت ہو گا‘ ان کے دادا کوانگریزی عہد میں تحصیل کا میرج انسپکٹر مقرر کیا گیا تھا مگر ان کا اصل کارنامہ درس و تدریس تھا‘ پورے بر صغیر سے طلباء ان سے فارسی ادب اور فقہ پڑھنے آتے تھے‘ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان طلباء کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔طالب علموں کو کتابیں داداجان اپنی لائبریری سے فراہم کرتے تھے اور کھانا گاؤں والے‘ یہ اُس دور کی یونی ورسٹیاں تھیں‘ ان کے گاؤں میں طلباء کا الگ قبرستان آج بھی ماضی کی داستان کہہ رہا ہے‘ گاؤں کی اُس زمانے کی زندگی کا خاکہ اظہار صاحب نے بے حد دل چسپ انداز میں کھینچا ہے‘ وہ ایک مخلوط معاشرہ تھا‘خواتین بات چیت میں مردوں کے ساتھ شامل ہوتی تھیں‘صحن میںسر شام چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔
ان پر چادریں اور سرہانے رکھے جاتے تھے جن کے غلاف کڑھے ہوئے ہوتے تھے‘ہانڈی کے لیے ہر روز تازہ مصالحہ تیار کیا جاتا تھا‘نمک کی چٹانیں لائی جاتی تھیں‘انہیں توڑ کر پیسا جاتاتھا‘گائے یا بھینس کے آگے نمک کی چٹان رکھی جاتی جسے وہ چاٹتی رہتی تھی‘بڑے بوڑھے جیب میں نمک کا ٹکڑا رکھتے تھے‘رمضان میں وہ مسجد میں اذان سے پہلے موجود ہوتے تھے‘جیسے ہی مغرب کی اذان ہوتی جیب سے نمک کا ٹکڑا نکالتے‘ چاٹ کر افطار کرتے پھر با جماعت نماز سے فارغ ہو کر گھروں کو جاتے اور معمول کا کھانا کھاتے‘سر شام لالٹینوں کے شیشے صاف کیے جاتے اگر شیشے میں کریک آتا یا ٹوٹتا تو نیا شیشہ منگوانے سے پہلے اسے ہی سریش سے جوڑا جاتاتھا اور کافی عرصہ تک چلایا جاتاتھا‘یہ محض ایک جھلک ہے ورنہ اظہار صاحب نے اْس زمانے کی دیہاتی زندگی کی ایسی ایسی تصویریں کھینچی ہیں جو آج کی نسل کے لیے عجوبوں سے کم نہیں۔
اظہار صاحب نے اپنے بزرگوں کے حالات بھی بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان میں لٹریچر بھی ہے‘ احترام بھی ‘ تاریخ بھی اور کہانی بھی‘ اظہارصاحب نے گھوڑ سواری بھی کی‘ گھوڑی کو پانی پلانے گاؤں سے باہر تالاب پر گئے۔یہ ایسے مواقع پر زین کے بجائے گھوڑی پر محض کمبل ڈالتے تھے‘ نانا جان نے تاکید کی کہ گرمی شدید ہے‘ گھوڑی کو دوڑانا نہیں‘ اظہار صاحب نے گاؤں سے نکلتے ہی ایڑ لگا دی اور گھوڑی کو خوب دوڑایا‘ واپس آئے تو نانا جان کے پوچھنے پر صاف انکار کیا کہ نہیں دوڑایا‘ نانا جان نے کمبل ہٹایا تو گھوڑی پسینے سے شرابور تھی‘ نانا جان نے صرف اتنا کہا تم نے دوڑایا ہے‘ اظہار صاحب سیف الملوک سے گھگھی اور باز والی وہ کہانی زندگی بھر نہیں بھول سکے جسے ان کے بچپن میں ان کی امی جان اپنی مترنم آواز میں سنایاکرتی تھیں‘بزرگوں کی وفات کے حالات انہوں نے دلدوز اسلوب میں بیان کیے ہیں۔
پنڈی گھیب وہ قصبہ ہے جہاں ان کے والد صاحب ایک مدت سکول میں فارسی پڑھاتے رہے اور مسجد میں فی سبیل اللہ قرآن پاک کا درس دیتے رہے‘ اظہارصاحب نے اس قصبے سے میٹرک کیا‘یہ قصبہ ساری زندگی ان کے دل سے نہیں نکلا‘یہ لکھتے ہیں یہ قصبہ آج بھی ان کے دل میں پوری رونق کے ساتھ آباد ہے‘ اس کی ہوائیں گرمیوں میں خنک اور سرما میں قابل برداشت تھیں‘اس کی فضا میں معصومیت تھی‘اس کا پانی میٹھا تھا‘اس کے پکوان ناقابل فراموش تھے یہاں کا مکھڈی حلوہ پوری دنیا میں مشہور تھا‘اینٹوں کے فرش والی گلیاں کسی باغ کی کیاریوں سے کم نہ تھیں‘ اس قصبے کے چند کرداروں کا ذکر جس طرح انہوں نے کیا ہے یہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اظہار صاحب کا تعلق پاکستان سول سروس سے تھا‘ چھتیس برس کی ملازمت کا احوال انہوں نے کہانی کے انداز میں یوں بیان کیا کہ پڑھنے والا اکتاتا نہیں‘ یہ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس سے تھے یوں سمجھیے سونے کی کان پر بیٹھے رہے مگر دامن جھاڑ کر باہر آئے یوں کہ دامن میں کچھ بھی نہ تھا۔ کچھ عرصہ’’ ڈیفنس پر چیز ‘‘ کی ادائیگیوں کے آل ان آل بھی رہے‘ اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے میں نہیںتھیں‘اظہار صاحب نے ایسا نظام بنایا کہ تاجر وں ‘ ٹھیکیداروں اور سپلائرز کو گھر بیٹھے ادائیگیاں ہوئیں‘ یہ لوگ انہیں دیکھنے آتے تھے کہ یہ کون ‘ بد دماغ‘ سر پھرا ہے جو ملتا ہے نہ کچھ لیتا ہے۔عسکری ہیلمٹ بنانے والے ایک صنعت کار نے حکومت کو خط لکھا کہ اس نے اٹھائیس سالہ وابستگی میں پہلی بار ایک سسٹم دیکھا ہے جو کرپشن سے پاک ہے اور خود کار ہے‘ ملازمت کے دوران اظہار صاحب نے جو کچھ سیکھا اسے ایک الگ باب میں بیان کیاہے‘ سول سروس کے ہر رکن کو یہ باب پڑھنا چاہیے‘ نئی نسل کے لیے اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے‘ انہوں نے اپنی کم زوریوں کا بھی برملا اظہار کیا ہے‘سرکاری طور پر جن ملکوں میں گئے ان کا احوال بھی دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔