بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں دو دل چسپ واقعات پیش آئے‘ اشک آباد میں پیس اینڈ ٹرسٹ پر انٹرنیشنل کانفرنس ہو رہی تھی‘ وزیراعظم شہباز شریف بھی اس کانفرنس میں مدعو تھے‘ ان کی مختلف سربراہوں کے ساتھ سائیڈ لائین میٹنگز طے تھیں جن میں ایک میٹنگ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ بھی تھی‘ میاں شہباز شریف وفد کے ساتھ طے شدہ وقت پر ہال میں پہنچ گئے‘ سٹیج پر دو کرسیاں اور دونوں ملکوں کے جھنڈے لگے تھے‘ شہباز شریف اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور ان کی دائیں جانب ان کا وفد بیٹھ گیا لیکن روسی صدر ولادی میر پیوٹن وقت مقررہ پر نہیں آئے‘ بھارت میں موجود روسی صحافتی ادارے آر ٹی نے بعدازاں وزیراعظم اور پاکستانی وفد کی فوٹیج ریلیز کر دی‘ فوٹیج میں میاں شہباز شریف کو سٹیج پر اکیلا اور پریشان دکھایا گیا‘ میاں شہباز شریف کے چہرے پر پریشانی میں ایک خاص قسم کا تاثر ابھرتا ہے‘ اس فوٹیج میں وہ تاثر بھی موجود تھا‘ آر ٹی نیٹ ورک کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کو اس صورت حال سے 40 منٹ گزرنا پڑا‘ پاکستانی اور غیرملکی تجزیہ کاروں نے اسے پاکستان کی بے عزتی قرار دے دیا اور یہ دعویٰ کیا پیوٹن نے جان بوجھ کر پاکستانی وزیراعظم کو انتظار کرایا اور یہ حرکت پیوٹن نے اپنے بھارتی دورے کے بعد کی‘ پیوٹن نے پانچ اور چھ دسمبرکو بھارت کا دورہ کیا‘ پاکستان شاید اشک آباد میں پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے ذریعے بھارت کی اس سفارتی کام یابی کااثر زائل کرنا چاہتا تھا لیکن یہ کوشش الٹی پڑ گئی وغیرہ وغیرہ‘ میاں شہباز شریف کی انتظار کرتی ہوئی تصویر بہرحال انڈیا میں ریلیز ہوئی اور اسے پہلے بھارتی میڈیا اور پھر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولرز نے اٹھا لیا اور ہر طرف سے وزیراعظم پر بمباری شروع ہو گئی لیکن اس کے بعد دوسرا واقعہ پیش آیا اور اس نے پوری دنیا کے سفارتی حلقوں کو حیران کر دیا‘ اس واقعے کے ذمہ دار بھی وزیراعظم پاکستان تھے۔
یہ واقعہ کیا تھا‘ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دنیا کے مختلف سربراہوں کو انتظار کرانا روسی صدر پیوٹن کی عادت ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے یہ ہمیشہ لیٹ ہو جاتے ہیں تو غلط نہیں ہو گا‘ میں نے کسی آرٹیکل میں پڑھا تھا پیوٹن اگر کسی میٹنگ میں ایک گھنٹہ لیٹ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس نے اس میٹنگ کو خصوصی اہمیت دی ورنہ عموماً دو چار گھنٹے کی تاخیر روسی صدر کا معمول ہے مثلاً 2014ء میں پیوٹن کی میلان کی آسم (ASEM) کانفرنس میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے ملاقات طے تھی‘ پیوٹن نے اس ملاقات کے لیے اینجلا مرکل کو چار گھنٹے انتظار کرایا تھا اور جرمنی آج تک اس بے عزتی کو بھول نہیں سکا‘ یہ اس کانفرنس کے ’’ویل کم ٹو سٹ‘‘ میں نہیں پہنچ سکا تھا اور دنیا کے 50 سربراہ اس کا انتظار کرتے رہے تھے‘ 2015ء میں پیوٹن کی پوپ فرانسس کے ساتھ ویٹی کن سٹی میں ملاقات طے تھی‘ پوپ کرسچین ورلڈ کی معتبر ترین شخصیت ہے‘ دنیا بھر کے سربراہ اس سے ملاقات اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں لیکن پیوٹن اس ملاقات میں بھی ایک گھنٹہ لیٹ تھا اور پوپ اپنی کرسی پر بیٹھ کر ایک گھنٹہ اس کا انتظار کرتا رہا‘ روسی سفیر بھی اس وقت وہاں موجود تھا‘ پورا ویٹی کن سٹی سفیر کی طرف دیکھ رہا تھا اور اینگزائٹی اور ٹینشن سے اس بے چارے کا برا حال تھا‘ بہرحال پیوٹن آیا اور پوپ سے معذرت تک نہیں کی‘ یوکرائن کے صدر وکٹرینکووچ کے ساتھ اس کی روس کے شہر سوچی میں میٹنگ تھی‘
پیوٹن نے اسے بھی چار گھنٹے انتظار کرایا‘ امریکی صدر باراک اوبامہ کے ساتھ 2012ء میں اس کی میکسیکومیں میٹنگ طے تھی‘ پیوٹن نے اسے بھی چالیس منٹ انتظار کرایا‘ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اس کی فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں میٹنگ تھی‘ اس نے ٹرمپ کو بھی ایک گھنٹہ انتظار کرایااور پیوٹن کی کی ملکہ الزبتھ کے ساتھ بکھنگم پیلس میں ملاقات تھی‘ پیوٹن نے ملکہ کے ساتھ خصوصی رعایت کی اور اسے صرف 14 منٹ انتظار کرایا‘ پیوٹن کی یہ عادت صرف عالمی لیڈرز تک محدود نہیں بلکہ یہ ازل کا ’’لیٹ کمر‘‘ ہے‘ یہ اپنی سرکاری میٹنگز میں بھی لیٹ پہنچتا ہے مثلاً 2002ء میں جرمنی میں دو طیارے ٹکرانے سے 51 روسی بچے فوت ہو گئے تھے‘ پیوٹن ان بچوں کے جنازے میں دو گھنٹے لیٹ پہنچا تھا اور وہ دو گھنٹے بچوں کے والدین نے جنازے سامنے رکھ کر بڑی اذیت میں گزارے تھے‘ 2012ء میں امریکا کے نائب صدر جان کیری ماسکو کے دورے پر تھے‘ یہ پیوٹن کے مہمان تھے‘ پیوٹن نے اسے ماسکو میں تین گھنٹے انتظار کرایا تھایہاں تک کہ جان کیری نے تنگ آ کر ریڈ سکوائر میں واک شروع کر دی تھی جب انہیں اطلاع دی گئی پیوٹن ملاقات کے لیے تیار ہیں تو جان کیری نے کریملن کی طرف انگوٹھا اٹھا کر پیوٹن کی عزت افزائی کی‘ اس کی اس عادت کا ذکر اس کی سابق اہلیہ لڈمیلا نے اپنی یادداشتوں میں بھی کیا‘ اس نے انکشاف کیا پیوٹن اپنی پہلی ڈیٹ میں بھی ایک گھنٹہ لیٹ پہنچا تھا اور میں نے ماسکو کے میٹرو سٹیشن پر کھڑے ہو کر رونا شروع کر دیا تھا لہٰذا یہ پیوٹن کی پرانی عادت ہے اور اس نے میاں شہباز شریف کے ساتھ کوئی ’’خصوصی سلوک‘‘ نہیں کیا۔
اب سوال یہ ہے پیوٹن ایسا کرتا کیوں ہے؟ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں‘ پہلی وجہ طاقت کا اظہار ہے‘ یہ دوسروں کو انتظار کروا کر دنیا کو اپنے طاقتور اور بڑے ہونے کا تاثر دینا چاہتا ہے‘ روسی اس معاملے میں بہت بدنام ہیں‘ سٹالن سے لے کر گورباچوف تک تمام روسی صدر دنیا کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنی طاقت کا احساس دلاتے رہے ہیں‘ روسی صدر خروشیف نے 12 اکتوبر 1960ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اپنا جوتا اتارا اور ڈائس پر مارنا شروع کر دیا تھا‘ یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں کسی صدر کی طرف سے سب سے بڑی گستاخی ہے‘ خروشیف نے یہ حرکت فلپائن کے وفد کو سبق سکھانے کے لیے کی تھی‘ فلپائنی وفد کے سربراہ لورینزو سومولونگ (Lorenzo Sumulong)نے ہال میں کھڑے ہو کر سوویت یونین کے توسیع پسندانہ رجحانات پر اعتراض کر دیا اور جواب میں خروشیف نے جوتا اتار کرپہلے فلپائنی وفد کو دکھایا اور پھر ڈیسک پر مارنا شروع کر دیا‘ جوزف سٹالن بھی عالمی لیڈروں کو اسی طرح ذلیل کرتا تھا چناں چہ دوسروں کو نیچا دکھانا روسی صدور کی عادت ہے اور پیوٹن بھی عالمی سربراہوں کو انتظار کروا کر سابق صدور کی روایت نبھارہا ہے‘ دوسری وجہ تاخیرکی عادت ہو سکتی ہے‘ یہ فطرتاً وقت کی پابندی نہیں کر پاتا‘ یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کیوںکہ روس میں عام تاثر ہے پیوٹن اپنے جنازے پر بھی وقت پر نہیں پہنچ سکے گا اور اس کی لیٹ ہونے کی تیسری وجہ اس کی تیاری بھی ہو سکتی ہے‘ یہ درست ہے یہ ہر میٹنگ سے قبل تیاری پر بہت وقت لگا دیتا ہے‘یہ تفصیل کے ساتھ بریفنگ لے گا‘ کپڑوں‘ ٹائی اور جوتوں کی سلیکشن کو بہت وقت دے گااور اپنے آپ کو بار بار شیشے میں دیکھے گا اور اس تیاری میں یہ میٹنگ سے لیٹ ہو جاتا ہے‘ ان تینوں وجوہات میں سے اصل وجہ کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے لیکن حقیقت یہ ہے پیوٹن ہر میٹنگ اور ہر ملاقات میں لیٹ ہوتا ہے اور کسی میں مجال نہیں اسے ٹوک سکے‘
دنیا میں اب تک صرف تین لوگ اسے ٹکردے پائے ہیں ‘ان میں میاں شہباز شریف تیسرے ہیں‘ کیسے؟ میں آپ کو یہ بتائوں گا لیکن پہلے آپ دوسرے دونوں کے بارے میں جان لیں‘ ان میں ایک طیب اردگان ہیں اور دوسرے چینی صدر شی جن پھنگ ہیں‘ ہم پہلے اردگان کی طرف آتے ہیں‘ 19 جولائی 2022ء کو تہران میں روس‘ ترکی اور ایران کے مذاکرات تھے‘ مذاکرات کے آخر میں پیوٹن اور طیب اردگان کی مشترکہ میڈیا ٹاک تھی‘ پیوٹن جب کمرے میں پہنچا تو طیب اردگان واش روم میں چلے گئے اور یوں پیوٹن دس منٹ میڈیا اور کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتے رہے‘ طیب اردگان نے اس حرکت کے ذریعے 2020ء کے انتظار کا انتقام لیا تھا‘ طیب اردگان کو 9 مارچ 2020ء کو پیوٹن نے ماسکو بلایا تھا‘ یہ شام کی صورت حال پر سرکاری دورہ تھا‘ طیب اردگان جب اپنے وفد کے ساتھ میٹنگ روم میں تھے تو پیوٹن غائب تھا‘ اردگان وہاں اڑھائی منٹ کھڑے ہو کراس کا انتظار کرتے رہے‘ یہ بے عزتی تھی لیکن اس سے بڑی بے عزتی روسی میڈیا نے کی‘ اس نے اردگان کے انتظار کی ویڈیو ریلیز کر دی اور یوں پوری دنیا میں اردگان اور ترکی کی بے عزتی ہو گئی‘ طیب اردگان نے 19 جولائی 2022ء کو پیوٹن کو پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے انتظار کروا کر اپنا پرانا حساب پورا کر لیا‘ دوسری شخصیت چینی صدر شی جن پھنگ ہیں‘ 23 اکتوبر 2024ء کو روسی شہر کازان میں بریکس کانفرنس تھی‘ پیوٹن اس کے میزبان تھے‘ ان کی صدر شی جن پھنگ کے ساتھ میٹنگ تھی‘ یہ کمرے میں پہنچ گئے‘
میڈیا پہلے سے وہاں موجود تھا لیکن چینی صدر نہیں آئے‘ پیوٹن کھڑے ہو کر انتظار کرتے رہے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے کبھی دائیںدیکھتے تھے اور کبھی بائیں‘ بہرحال صدر شی پیوٹن کو انتظار کرانے کے بعد کمرے میں داخل ہوئے اور معذرت کیے بغیر ہنس کر پیوٹن سے ہاتھ ملایا‘ پیوٹن بھی ساتھ کھڑے ہو کر کھسیانی بلی کی طرح ہنستا رہااور پیوٹن کو ٹکرنے والے تیسرے شخص شبہاز شریف ہیں اور یہ واقعہ 12 دسمبر 2025ء کو پیش آیااور یہ اب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ ہمارے وزیراعظم نے 40 منٹ پیوٹن کا انتظار کیا‘ یہ اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی سیکورٹی کے ساتھ سیدھے اس کمرے میں چلے گئے جہاں پیوٹن ترک صدر طیب اردگان کے ساتھ میٹنگ کر رہا تھا‘ یہ وہاں پہنچے‘ دونوں بلکہ ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف تینوں کے ساتھ میٹنگ کی‘ خود ہیڈ چیئر پر بیٹھ گئے اور تینوں صدور ان کی بائیں جانب ایک صوفے پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے‘ ترکمانستان کے صدرسردار بردی محمدوف اس صورت حال سے اس قدر پریشان تھے کہ یہ میز سے ٹشو پیپر اٹھاتے نظر آئے‘ شہباز شریف دس منٹ ان کے ساتھ رہے اور پھر اٹھ کر آ گئے‘ شہباز شریف کے 40 منٹ انتظار کی فوٹیج بھارت میں موجود روسی نیٹ ورک آر ٹی نے چلائی ‘ یہ بھی پاکستان کو بے عزت کرنے کی کوشش تھی‘ پاکستان نے اس کے بعد روسی حکومت کے ذریعے نہ صرف آر ٹی کے پیجز سے یہ فوٹیج ہٹوائی بلکہ اس سے معذرت بھی کروائی‘ آر ٹی نے اپنے پیج پر باقاعدہ معذرت لکھی اور فوٹیج ہٹائی‘ بعدازاں پاکستان میں روسی سفارت خانے نے بھی پاکستانی موقف کی تائید کی اور شہباز شریف اور پیوٹن کی ملاقات کی باقاعدہ فوٹیج ریلیز کی۔
ہم میاں شہباز شریف سے لاکھ اختلاف کریں‘ ہماری سیاسی دشمنی بھی اپنی جگہ لیکن پاکستان کی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا‘ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی نیوکلیئر پاور ہے‘ ہم نے مئی میں چار بڑی طاقتوں کی وارمشینری کو شکست دے کر بھی دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی لہٰذا ملک کی عزت پر کوئی کمپرومائز نہیں‘ پیوٹن نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی یا پھر جان بوجھ کر کیا لیکن وزیراعظم نے اردگان اور پیوٹن کی ملاقات کے کمرے میں داخل ہو کر نہ صرف حساب برابر کر دیا بلکہ ایک نئی مثال بھی قائم کر دی‘ پاکستان میں چند دانشور اسے ’’سفارتی حماقت‘‘ اور بے عزتی قرار دے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے وہ کام جو اینجلا مرکل سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک نہیں کر سکا کیا وہ شہباز شریف نے نہیں کردیا؟ میرا خیال ہے پیوٹن کے لیے یہ سبق کافی ہو گا اور یہ آئندہ کسی بھی ورلڈ لیڈر کو وقت دے کر لیٹ نہیں ہو گا کیوں کہ اسے خطرہ ہو گا یہ لیڈر بھی شہباز شریف کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہو سکتا ہے چناں چہ انڈین اور پی ٹی آئی میڈیا جو بھی کہتا رہے لیکن میری طرف سے میاں شہباز شریف کے لیے ویل ڈن۔ پاکستان ایک باعزت ملک ہے‘ ہم کسی بھی شخص کو خواہ وہ مودی ہو‘ ٹرمپ ہو یا پھر پیوٹن پاکستان کی بے عزتی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
















































