ہفتہ‬‮ ، 13 دسمبر‬‮ 2025 

اسے بھی اٹھا لیں

datetime 14  دسمبر‬‮  2025 |

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کراچی کے دورے پر تھے‘ کیپٹن صفدر اپنی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ مزار قائد پر گئے‘ جذبات میں جنگلہ عبور کر کے قائداعظم کی قبر تک پہنچے اور وہاں کھڑے ہو کر نعرے بازی شروع کر دی‘ کیپٹن صفدر کی یہ حرکت قابل مذمت تھی‘ یہ فوٹیج جب ریلیز ہوئی تو میڈیا نے کھل کر کیپٹن صاحب کی مذمت کی‘ کیپٹن صفدر اور مریم نواز ان دنوں کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں رہائش پذیر تھے ‘18اور19 اکتوبر کی درمیانی رات آئی ایس آئی کراچی کے افسررینجرزکے ساتھ ہوٹل پہنچے‘ کمرے کا دروازہ توڑا اور مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سلیپنگ سوٹ میں گرفتار کر لیا‘ ہوٹل انتظامیہ کے مطابق سیکورٹی ادارے کے اہلکار کیپٹن صفدر کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے گئے جب کہ مریم نواز انہیں روکتی رہ گئیں‘ یہ خبر مزار قائد پر نعرے بازی سے بڑی اور بری تھی لہٰذا میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ ن لیگ نے بھی شورشرابہ شروع کر دیا‘ 19 اکتوبر کو اس واقعے کی مزید معلومات سامنے آئیں تو پتا چلا کیپٹن صفدر کی نعرہ بازی کی فوٹیج جب ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تک پہنچی تو انہوں نے کراچی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئرحبیب نوازکو فون کر کے حکم دیا کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائو‘ اسے اٹھائو اور حوالات کے فرش پر بٹھا کر تصویر میرے پاس بھجوائو‘ سیکٹر کمانڈر نے متعلقہ ایس ایس پی کو فون کر کے ایف آئی آر کا آرڈر دیا‘

اس نے تھوڑا سا وقت مانگا اور یہ حکم آئی جی مشتاق مہر کے نوٹس میں لے آیا‘ آئی جی نے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے بات کی‘ شاہ صاحب نے آئی جی کو ایف آئی آر اور گرفتاری سے روک دیا‘ سیکٹر کمانڈر نے تھوڑی دیر بعد ایس ایس پی کو دوبارہ فون کیا‘ اس نے معذرت کر لی اور آئی جی صاحب سے رابطے کا مشورہ دے دیا‘ سیکٹر کمانڈر نے آئی جی کو فون کر دیا‘ مشتاق مہر ایک سمجھ دار اور بردبار پولیس آفیسر ہیں‘ انہوں نے سیکٹر کمانڈر کو بڑے پیار سے سمجھایا سر کیپٹن صفدر مریم نواز کے ساتھ رہ رہے ہیں‘ پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ یہ مریم نواز کے ساتھ بدتمیزی کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گا‘ دوسرا سیاسی قیادت ہمیں اجازت نہیں دے رہی‘ سیکٹر کمانڈر نے آئی جی پر زور دیا لیکن آئی جی نے وزیراعلیٰ سے مشورے کا بہانہ کر کے معذرت کر لی‘ سیکٹر کمانڈر نے مزید زور دیا مگر آئی جی نہیں مانے‘ اس سارے عمل کے دوران رات ہو گئی‘ سیکٹر کمانڈر کا خیال تھا یہ صبح صورت حال جنرل فیض حمید کے نوٹس میں لاکر مزید احکامات لے گا لیکن پھر اچانک رات کے وقت جنرل فیض کا فون آ گیا‘ انہوں نے سیکٹر کمانڈر سے پوچھا ’’صفدر ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوا؟‘‘ سیکٹر کمانڈر نے ادب سے جواب دیا ’’سر مشتاق مہر نہیں مان رہا‘ ہم نے اس پر ہر طرح سے دبائو ڈالا لیکن یہ انکاری ہے‘ اسے مراد نے روک دیا ہے‘‘ جنرل فیض برا منا گئے اور غصے سے بولے تم سے یہ ذرا سا کام بھی نہیں ہوا‘ کیا میں اس کے لیے اسلام آباد سے ٹیم بھجوائوں‘ مجھے رزلٹ چاہیے‘ آئی جی کو جگائو‘ ایف آئی آر کروائو اور اسے ہوٹل سے گھسیٹتے ہوئے تھانے لے جائو‘ مجھے آدھ گھنٹے میں چینلز پر بریکنگ نیوز چاہیے‘ تم دونوں میاں بیوی کو سلیپنگ سوٹ میں منہ چھپاتا ہوا دکھائو‘ میں یہ سین دیکھ کر سوئوں گا‘ سیکٹر کمانڈر نے پوچھا اور سر اگر آئی جی نہیں مانتا تو پھر؟ جنرل فیض نے آرڈر دیا تم اسے بھی اٹھا لو اور اگر مراد مزاحمت کرے تو اسے بھی اٹھا لو‘ تم سب کے سامنے قائداعظم کے مزار کی توہین ہوئی اور تم اس پر خاموش ہو‘ کل کو اگر ان لوگوں نے قائداعظم کی ہڈیاں نکال لیں تو پھر کیا کریں گے؟ اٹھائو جس کو بھی اٹھانا پڑے‘ مجھے صرف رزلٹ چاہیے۔

جنرل فیض حمید یہ حکم دے کر فائلوں کی سٹڈی میں مصروف ہو گئے جب کہ دوسری طرف سیکٹر کمانڈر کی ٹیم آئی جی ہائوس گئی اور مشتاق مہر صاحب کو سلیپنگ سوٹ میں اٹھا کر دفتر لے آئی اور جب تک آئی جی نے پولیس افسر بلا کر کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی انہیں سیکٹر کمانڈر کے دفتر میں بٹھائے رکھا گیا‘ آئی جی نے ایف آئی آر کر کے اپنی جان چھڑائی جس کے بعد سیکٹری کمانڈر کی ٹیم اور رینجرز ہوٹل گئے‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے دروازے پر دستک دی‘ دروازہ نہیں کھلا تو تالہ توڑ کرکمرے میں داخل ہو گئے‘ بریکنگ نیوز چینلز تک پہنچی‘ جنرل فیض حمید نے بارہ چینلز پر خبر دیکھی اور اس کے بعد لائیٹس آف کر کے سو گئے‘ وہ دن گزر گیا لیکن اگلا دن طوفانوں کے ساتھ طلوع ہوا‘ ن لیگ نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ ٹی وی چینلز بھی چیخ پڑے‘ ہم پاکستان پیپلز پارٹی پر ہزار تنقید کریں لیکن یہ پارٹی خواتین کے حقوق کے معاملے میں دوسری جماعتوں سے مختلف ہے‘ بلاول بھٹو نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا‘ سید مرادعلی شاہ اور آئی جی کو بلا کر پوچھا گیا‘ آئی جی نے پوری بات صاف صاف بتا دی‘ وہ بے انتہا ڈی مورلائزڈ اور احساس توہین کا شکار تھا‘ اس نے بلاول بھٹو کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کر دیا‘ بلاول بھٹو مزید پریشان ہو گئے اور یہ معاملہ وزیراعظم اور آرمی چیف تک لے جانے کا فیصلہ کر لیا‘ اس دوران آئی جی کی بے عزتی کی خبر سندھ پولیس کے افسروں تک پہنچ گئی‘ کراچی اور حیدرآباد کے پولیس افسر جنرل فیض حمید اورسیکٹر کمانڈر کے احکامات سے پہلے سے تنگ تھے‘

آئی جی کی بے عزتی نے جلتی پر تیل کا کام کیا چناں چہ سندھ پولیس کے 10 اے آئی جیز‘16ڈئی آئی جیزاور40ایس ایس پیزنے چھٹی کی درخواست دے کر حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کر دیا‘ صورت حال خطرناک ہو گئی جس کے بعد بلاول بھٹو نے جنرل باجوہ کو فون کیا اور ان کے سامنے شدید احتجاج کیا‘ جنرل باجوہ اس حرکت سے واقف نہیں تھے‘ انہوں نے فوری طور پر کورٹ آف انکوائری بٹھا دی اور اسے آزادانہ انکوائری کا حکم دے دیا‘ جنرل باجوہ نے آئی جی کو فون کر کے معذرت کی‘ انہیں تسلی دی اور سینئر افسروں کی طرف سے چھٹی کی درخواست ہولڈ کرنے کی درخواست کی‘ ان کا کہنا تھا آپ مجھے پندرہ دن دے دیں اگر پندرہ دنوں میں آپ کی تسلی نہ ہوئی تو آپ بے شک چھٹی پر چلے جائیے گا‘ آئی جی مشتاق مہر مطمئن ہو گئے‘ انہوں نے سینئر پولیس افسروں کو بلایا‘ آرمی چیف کا پیغام دیا اور انہیں اپنی درخواستیں 15 دنوں کے لیے ہولڈ کرنے کا مشورہ دے دیا‘ پولیس افسر مان گئے بہرحال قصہ مختصر کورٹ آف انکوائری نے تحقیقات کیں اور جنرل فیض حمید‘ سیکٹری کمانڈر کراچی اور رینجرز کے افسروں کو ذمہ دارقرار دیا‘ کورٹ آف انکوائری کا خیال تھا آئی جی کے خلاف طاقت کا استعمال ناجائز تھا‘ کیپٹن صفدر نے غلط حرکت کی تھی لیکن غلط حرکت کا تدارک اس سے بڑی غلط حرکت نہیں ہو سکتا‘

آپ نے اگر کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنا تھا تو ہوٹل کے باہر سے کر لیتے‘ کمرے کا دروازہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ مزید رینجرز بھی کیوں استعمال کی گئی؟اس واقعے میں جنرل فیض حمید کا قصور تھا لیکن یہ اس وقت انتہائی اہم پوزیشن پر تھے‘ امریکا افغانستان سے نکل رہا تھا‘ عمران خان کی حکومت کا جنرل فیض حمید پر انحصار تھا اور سب سے بڑھ کر جج جنرل فیض حمید کے کنٹرول میں تھے لہٰذا انہیں ان کی پوزیشن سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا تاہم اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا جنرل فیض حمید بہت آگے بڑھ چکے ہیں‘ انہیں اب کنٹرول کرنا ضروری تھا‘ دوسرا یہ بھی ضروری تھا انہیں ان کی پوزیشن پر ایکسٹینشن نہ دی جائے‘ ان کی مدت مارچ 2021ء میں پوری ہو رہی تھی چناں چہ انہیں مدت پوری ہوتے ہی ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ دوسری طرف آرمی چیف آئی جی سندھ اور بلاول بھٹو سے ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دینے کا وعدہ کر چکے تھے چناں چہ جنرل فیض حمید کے احکامات کی سزا کراچی کے سیکٹر کمانڈر اور رینجرز کے افسروں کو دے دی گئی‘ انہیں ٹرانسفر کر دیا گیایوں ان کا کیریئر ختم ہو گیا اور یہ پروموٹ نہ ہو سکے‘ کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ اور ذمہ دار افسروں کی ٹرانسفر کا فیصلہ 10 نومبر 2020ء کو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے ذریعے جاری کیا گیا۔

یہ جنرل فیض حمید کے غرور اور اختیارات سے تجاوز کی ایک چھوٹی سی مثال ہے اگر کوئی شخص کسی دن تحقیق کرے تو اسے اس نوعیت کے سینکڑوں واقعات مل جائیں گے‘ جنرل فیض کسی کو بھی اٹھالیتے تھے‘ اسے ذلیل کرتے تھے اور پھر عدالتوں سے سزا دلادیتے تھے‘یہ ان کا معمول تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب فوج کے اپنے لوگ بھی ان سے گھبراتے تھے‘ فون ٹیپ کرنا‘ ویڈیو کلپس بنانا اور نہ ماننے والوں کو پھینٹا لگانا یا گولی مروانا ان کے لیے عام سی بات تھی‘ کسی بھی شخص کو عمر قید دلانا بھی جنرل فیض کے لیے معمولی بات تھی لیکن آج وہی شخص ڈیڑھ سال سے اپنے ہی ادارے کی قید میں ہے اور اسے اپنے جونیئر افسروں کے ہاتھوں 14 سال قید بامشقت کی سزا ہو چکی ہے اور یہ اب اس شخص کے سامنے اپیل کرے گا جسے آرمی چیف بننے سے روکنے کے لیے اس نے کیا کیا نہیں کیا؟ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ کی عمر چار دسمبر 2022ء تھی جب کہ جنرل باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے تھے جن کے بعد جنرل عاصم سینئر ترین جنرل تھے لیکن جنرل فیض حمید نے ان کے ریکارڈ میں گڑبڑ کر کے ان کی ریٹائرمنٹ 27 نومبر کر دی‘ انہوں نے جنرل عاصم منیر کے خلاف سعودی ایمبیسی میں بھی لابی بنائی اور اسے بھی ان کے خلاف استعمال کیا‘ یہ صدر عارف علوی اور عمران خان کو فوج کی کم زوریوں کے بارے میں بریف کیا کرتے تھے اور عمران خان کو جنرل باجوہ کے لیے میر صادق اور میر جعفر کے خطاب کا آئیڈیا بھی جنرل فیض نے دیا تھا‘ یہ سب حرکتیں قابل برداشت تھیں لیکن یہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ادارے کو کھوکھلا کرتے رہے‘

یہ اس کے اندر ڈائنامائیٹ لگاتے رہے‘ یہ کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا چناں چہ وہ وقت آ گیا جب ادارے نے جنرل فیض یا فوج دونوں میں سے ایک کا تعین کرنا تھا اور یوں جنرل فیض اپنے انجام کے پہلے فیز کا شکار ہو گئے‘ انہیں فیلڈ کورٹ مارشل سے 14 سال قید بامشقت کی سزا ہو گئی‘ یہ سزا ثابت کرتی ہے طاقت اور تکبر صرف اللہ کی ذات پر اچھا لگتا ہے‘ جب انسان خود کو خدا سمجھنا شروع کر دے تو یہ کبھی نہ کبھی قدرت کی پکڑ کا شکار ضرور ہوتا ہے‘ آپ اللہ کا انتقام دیکھیے‘ وہ شخص جو کبھی دوسروں کی بہو بیٹیوں کے بیڈروم کے دروازے توڑ کر انہیں سلیپنگ سوٹ میں اٹھوا لیتا تھا جو سیکٹر کمانڈر کو حکم دے دیتا تھا تم آئی جی کو بھی اٹھا لو‘ وہ آج اپنے کمرے کا پردہ نہیں اٹھا سکتا‘ یہ جن لوگوں کی یونیفارم اتروانا چاہتا تھا وہ آج تاحیات یونیفارم کے حق دار بن چکے ہیں جب کہ یہ اپنے اعزازات اور میڈلز سے بھی محروم ہو رہا ہے‘ توبہ یا پروردگار توبہ‘ یہ دنیا خوف ناک جائے عبرت ہے‘ اس میں ہر فرعون عبرت کی مثال بن کر رہ جاتا ہے اور جنرل فیض اللہ کی اس پکڑ کی تازہ ترین مثال ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسے بھی اٹھا لیں


یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…