قیدی کی حالت خراب تھی‘ کپڑے گندے‘ بدبودار اور پھٹے ہوئے تھے‘ جوتوں کے تلوے گھس چکے تھے اور پالش خراب ہو چکی تھی‘ ناخن لمبے اور ٹوٹے ہوئے تھے اور ان میں میل بھی تھی‘ سر کے بال غیرتراشیدہ‘ خشک اور الجھے ہوئے تھے‘ آنکھوں کے گرد حلقے تھے اور گالوں کی جلد پھٹی ہوئی اور سیاہ تھی‘ ماتھے پر میل جمی تھی‘ گردن کی سلوٹیں کالی پڑ چکی تھیں‘ قمیض کے کف لٹک رہے تھے‘ بائیں بازو کے بٹن ٹوٹ چکے تھے اور اس کی سلائی نکل گئی تھی اور آنکھیں بے آرام نیند کی گواہی دے رہی تھیں جب کہ جسم ایکسرسائز کی کمی کے باعث ٹیڑھا میڑھا اور ڈھیلا ہو چکا تھا‘ وہ مکمل مختلف انسان تھا‘ جج اسے دیکھ کر حیران ہونے لگے‘ وہ کبھی ان کا باس رہا تھا‘ انہیں اس کا کروفر‘اس کی آن‘ بان‘ شان اور تمکنت اچھی طرح یاد تھی‘ انہیں یاد تھا یہ آج سے دو سال قبل تک جب اس سے ملاقات کے لیے جاتے تھے تو اس سے ہاتھ ملانے سے پہلے انہیں اپنے ہاتھ پر پرفیوم لگانا پڑتی تھی اور یہ اپنی شرٹوں اور کوٹوں کی کریز سیدھی رکھنے کے لیے گھنٹہ گھنٹہ بھر کرسیوں پر تن کر بیٹھتے تھے لیکن آج وہ شخص خستہ حالی کی تصویر بن کر کٹہرے میں کھڑا تھا اور یہ اپنی کرسیوں پر آرام سے بیٹھ کر اسے دیکھ رہے تھے اور ہاں یہ جج جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تھے تو قیدی کو ان کے احترام میں کھڑا بھی ہونا پڑا تھا اور جب تک یہ اپنی کرسیوں پر جم کر بیٹھ نہیں گئے تھے قیدی اس وقت تک دوسرے حاضرین کے ساتھ کھڑا رہا تھا‘ ججوں میں سے نسبتاً سینئر نے لمبی اور ٹھنڈی سانس لی اور سوچا وقت بھی کتنا ظالم‘ کتنا سنگ دل ہوتا ہے اور ساتھ ہی عدالتی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ قیدی کون تھا؟یہ دنیا کا مشہور ترین حکمران صدام حسین تھا اور یہ عدالت بغداد میں امریکی فوجیوں کی کڑی نگرانی میں لگی تھی‘ وہ 2004ء کی گرمیاں تھیں‘ جج نے قیدی سے پوچھا ’’آپ کو جیل میں کوئی تکلیف تو نہیں؟‘‘ صدام حسین مسکرایا اور جج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ’’زیادہ تکلیف نہیں لیکن دو تین ایشوز ہیں‘ ایک مجھے جوتا پرانا اور ٹوٹا ہوا دیا گیا ہے‘ دو‘ میرے کپڑے گندے اور خستہ ہو چکے ہیں‘ تین‘ مجھے سگریٹ پینے کی اجازت نہیں دی جاتی اور چار‘ میرے ناخن نہیں تراشے جاتے اور بال نہیں کٹوائے جاتے‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ جج نے پوچھا ’’ہم اس معاملے میں آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ صدام حسین نے عرض کیا ’’مجھے ایک بالٹی اور کپڑے دھونے کا صابن دے دیا جائے تاکہ میں اپنے کپڑے خود دھو سکوں‘ میرے ناخن اور بال کٹوا دیے جائیں‘ مجھے نیا جوتا دے دیا جائے اور دن میں کم از کم تین بار مجھے سگریٹ پینے کی اجازت دے دی جائے‘‘ جج صاحب نے فوراً حکم جاری کر دیا اور اس کے بعد دوجیل قتل عام کے کیس کی سماعت شروع ہو گئی‘ صدام حسین کے حکم پر 1982ء میں دوجیل میں 148 شیعہ مسلمان قتل کر دیے گئے تھے‘ 13 دسمبر 2003ء کو گرفتاری کے بعد صدام کے خلاف دوجیل قتل عام کا مقدمہ بنا دیا گیا تھا اور اسے اس سلسلے میں بار بار عدالت میں پیش کیا جاتا تھا‘ وہ 2004ء کی اس دوپہر بھی اسی سلسلے میں ججوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور جج کی مہربانی سے اسے کپڑے دھونے کا سامان اور سگریٹ کی اجازت مل گئی لیکن نہیں یہاں رکیے‘ صدام حسین کو عدالت کے حکم پر کپڑوں کا نیا جوڑا اور جوتا بھی دے دیا گیا تھا یوں اس کے پاس دو جوڑے کپڑے اور دو جوتے ہو گئے تھے‘ صدام حسین نے اجازت کے دوسرے دن اپنے سیل کی دیوار کے سائے میں بیٹھ کر اپنے کپڑے خود دھوئے تھے‘ کسی امریکی فوجی نے اس کی تصویر کھینچی‘ وہ تصویر لیک ہوئی اور اسے پھر پوری دنیا نے دیکھا (میں وہ تصویر آپ کی یادداشت کے لیے اس کالم کے آخر میں دوبارہ شائع کر رہا ہوں)۔
آپ صدام حسین کی کپڑے دھونے کی تصویر دیکھیں اور اس کے بعد ذرا تصور کریں یہ شخص سات آٹھ ماہ پہلے تک کیا؟ صدام حسین 2003ء تک دنیا کا طاقتور ترین‘ امیر ترین اور بااثر ترین حکمران تھا‘ عراق میں اس کے تین سو محل‘ ولاز‘ فارم ہاوسز اور پینٹ ہائوسز تھے اور یہ تمام ایک سے بڑھ کر ایک تھے‘ دنیا کے مہنگے ترین ڈریس ڈیزائنر اس کے لیے خصوصی کپڑے سے خصوصی سوٹ سیتے تھے چناں چہ اس کی الماریوں میں ہزاروں سوٹس تھے اور اس نے کس وقت کون سا سوٹ پہننا تھا یہ فیصلہ ایک سپیشل ٹیم کرتی تھی اور یہ لوگ ڈریسنگ کے سپیشلسٹ تھے‘ اس کے کمروں‘ واش رومز اور ڈریسنگ ٹیبل پر ہزاروں قسم کے پرفیومز تھے‘ اس کے لیے خصوصی خوشبویات بھی بنائی جاتی تھیں اور یہ انہیں اپنے مہمانوں میں تقسیم کرتا جاتا تھا‘ گاڑیوں کا کوئی شمار قطار نہیں تھا‘ صرف بغداد کے محل میں اس کی اڑھائی سو ذاتی گاڑیاں اور دو ہزار گاڑیوں کی پارکنگ تھی‘ بغداد میں اس کے کپڑوں کی ڈرائی کلیننگ کے لیے رائل واشنگ سنٹر تھا جس کے سربراہ کو اس نے اعزازی کرنل بنا دیا تھا۔ اس کے سگار کیوبا سے براہ راست بغدادآتے تھے اور یہ اپنی خوشبو کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھے‘ اس نے موچھوں اور بالوں کے لیے گیارہ ایکسپرٹ رکھے ہوئے تھے‘ وہ اس کی موچھوں کو تیل اور کیمیکل لگاتے تھے‘ اس کے لیے پینے کا پانی فرانس سے آتا تھا اور جب امریکی فوجی اس کے بغداد کے محل میں اترے تھے تووہ ڈالرز کی دیواریں دیکھ کرسکتے میں چلے گئے تھے‘ بغدادکے محل سے چار بلین ڈالر کیش برآمد ہوئی تھی‘ اس کے دونوں بیٹوں اور بیٹیوں کی عیاشیوں کی داستانیں آج تک بیان کی جاتی ہیں اور ان پر باقاعدہ فلمیں بنیں لیکن پھر وہ صدام حسین ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آ گیا اور اسے خود اپنے ہاتھ سے کپڑے دھونے کے لیے بھی ان ججوں سے درخواست کرنا پڑ گئی جو سال پہلے تک اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سارا سارا دن دھوپ میں کھڑے رہتے تھے‘ یہ تھا صدام حسین اور اس کا انجام لیکن انجام سے پہلے میں آپ کو صدام حسین کے بارے میں مزید تفصیلات بھی بتاتا چلوں۔
صدام حسین 1937ء میں عراق کے شہر تکریت کے علاقے العوجہ میں پیدا ہوا‘ بعث پارٹی میں شامل ہوا‘ 1968ء میں عراق کا نائب صدر بنا‘ 1970ء میں بعث پارٹی کے عسکری ونگ کا کنٹرول سنبھالا اور 1976ء میں خود کو جنرل ڈکلیئر کر دیا‘ یہ دنیا کے چند ایسے انسانوں میں شمار ہوتا تھا جو ریگولر آرمی میں بھرتی نہ ہونے کے باوجود جنرل بلکہ فیلڈ مارشل بن گئے‘ صدام حسین نے 1976ء میں خود کو جنرل ڈکلیئر کیا اور یہ جب 1979ء میں عراق کا صدر بنا تو اس نے خود کو فیلڈ مارشل کا ٹائٹل بھی دے دیا تاکہ اسے پوری زندگی یونیفارم نہ اتارنی پڑے‘ یہ کبھی ریٹائر نہ ہو‘ یہ 1979ء سے 2003ء تک صدر رہا‘ 1979ء سے 1991ء اور پھر 1994ء سے 2003ء تک وزیراعظم کا عہدہ بھی اس کے پاس تھا‘یہ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی تھا چناں چہ ججز کی تقرری بھی یہ خود کرتا تھا اور مجرموں کی آخری اپیل بھی اس کے پاس آتی تھی‘ یہ عراق کا تاحیات یونیفارمڈ صدر تھا‘ یہ ایران سے 8سال لڑتا رہا‘ اس میں دس لاکھ لوگ مارے گئے لیکن کسی میں اس جنگ کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی‘ اس نے1990ء میں کویت پر قبضہ کر لیا اور اس نے دو مرتبہ امریکا سے جنگ چھیڑ دی مگر پورے ملک میں کوئی شخص اس سے ان جنگوں پر سوال نہیں کرسکتا تھا لیکن پھر 2003ء میں عراق پر حملہ ہوا اور دس دن میں اس کا اقتدار ختم ہو گیا‘ 22 جولائی 2003ء کو موصل میں اس کے دونوں بیٹوں اور پوتے مصطفی کو امریکی فوجیوں نے گولی مار دی اور یہ خود 13 دسمبر 2003ء کو تکریت میں اپنے فارم ہائوس کے قریب زمین کے ایک سوراخ سے ملا‘ یہ ٹنل کھود کر اس میں بیٹھا تھا‘ اس کے بال لمبے اور داڑھی طویل تھی‘ بہرحال اسے گرفتار کر کے خصوصی عدالت میں پیش کر دیا گیا‘ ایک سال کیس چلا جس کے بعد اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘ صدام حسین نے سزا قبول کر لی لیکن آخر میں اس نے عدالت سے درخواست کی مجھے پھانسی پر لٹکانے کی بجائے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دی جائے‘
جج نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’میں کمانڈر ان چیف ہوں‘ پھانسی میرے شایان شان نہیں‘‘ جج مسکرا کر بولا ’’جناب صدر ہم آپ کو آپ کی مرضی کی موت کی خوشی نہیں لینے دیں گے‘‘ اور یوں 30 دسمبر 2006ء کو جب پوری مسلم دنیا عیدالاضحی کی نماز پڑھ رہی تھی عین اس وقت صدام حسین کو جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘ کسی امریکی فوجی نے اپنے موبائل فون سے پھانسی کی فوٹیج بنائی اور یہ بعدازاں وائرل ہو گئی‘ صدام حسین کی لاش کو پھانسی سے اتارنے کے بعد چھ مختلف جگہوں سے خنجر کے ذریعے چھیدا گیا تاکہ اس کے وجود سے زندگی کے تمام آثار ختم ہو جائیں ا ور ہاں آخری بات صدام حسین کو آخری رات بھی اپنے کپڑے خود دھونے پڑے تھے‘ اس نے پھانسی کے دن بھی اپنے ہاتھ سے دھوئے ہوئے کپڑے پہنے تھے اور یہ تھا ماڈرن دور کے دنیا کے طویل ترین اور مضبوط ترین حکمران کا انجام۔ وہ1968ء سے 2003ء تک مسلسل 35سال عراق جیسے امیر ملک کا حکمران رہا تھا‘ وہ چیف جسٹس بھی تھا‘ فیلڈ مارشل بھی‘ وزیراعظم بھی‘ صدر اور عراقی عوام کا نجات دہندہ بھی لیکن آپ اس کی بے بسی دیکھیں‘ آخر میں اسے اس کی مرضی کی موت بھی نصیب نہیں ہوئی تھی‘ وہ اپنے کپڑے دھونے اور سگریٹ پینے کے لیے بھی عدالت کی اجازت کا محتاج تھا چناں چہ یہ یاد رکھیں ہم سب محض انسان ہیں بے بس‘ بے اختیار اور محتاج انسان‘ اس کائنات کا صرف ایک فیلڈ مارشل ہے اور اس کا نام ہے اللہ۔یہ ساری فیلڈ بھی اس کی ہے اور مارشل بھی‘ یہ جب چاہتا ہے کسی کو بھی اختیار‘ اقتدار اور عزت دے دیتا ہے اور جب اس کا من بدل جاتا ہے تو انسان خواہ کتنا ہی اہل یا طاقتورکیوں نہ ہو یہ اسے سیکنڈز میں ان لوگوں کا محتاج بنا دیتا ہے جن کی طرف یہ کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا‘ یہ یاد رکھیں اس کائنات میں حیات بھی اسی کی ہے اور اس حیات کو تاحیات بنانے کی طاقت بھی صرف اور صرف اسی کے پاس ہے لہٰذا اس کے اختیار میں خیانت کی کوشش نہ کریں‘ ہم انسان ہیں‘ ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن ہوتاہے اور وہ یہ ہے ہم انسان بن کر رہیں‘ خدا کی خدائی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔




















































