میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا ہوں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ وقت کو تھوڑی دیر کے لیے مارچ 2025ء تک واپس لے جائیں اور اس وقت کے پاکستان پر نظر دوڑائیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بن چکے تھے‘ پی ٹی آئی کو ان سے ہزاروں توقعات تھیں جب کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ وائیٹ ہائوس کو تشویش سے دیکھ رہی تھی‘ عمران خان اور ان کی جماعت سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی تھی‘ ملک پوری کوشش کے باوجود معاشی ٹیک آف نہیں کر پا رہا تھا‘ قوم منقسم اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی‘ میڈیا بھی فوج کے خلاف تھا اور یہ محتاط الفاظ میں عمران خان کی حمایت کر رہا تھا‘ ہمارے دوست ملک ہم سے اکتا چکے تھے‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر کا برادرانہ جذبہ ماند پڑ چکا تھا اور یہ ہم سے پوچھ رہے تھے ’’بیٹا اپنے پائوں پر کب کھڑے ہو گے؟‘‘ ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات تاریخی پستی کو چھو رہے تھے اور چین بھی ہم سے خفا خفا تھا‘ یہ حالات بظاہر بھارت کے لیے آئیڈیل تھے اور اسے ہم پر حملہ کر دینا چاہیے تھا اور مودی نے یہ کر دیا لیکن اگر انڈیا میں کوئی میچور قیادت ہوتی تو وہ کسی قیمت پر ان حالات کا فائدہ اٹھانے کی غلطی نہ کرتی‘ کیوں؟ کیوں کہ ماضی کے تجربات یہ ثابت کر چکے ہیں پاکستانی قوم کو اگر مشکل حالات میں کوئی انگلی دکھائے تو یہ اکٹھی ہو جاتی ہے اور پھر اس انگلی کو کاٹ کر پھینک دیتی ہے‘
اس حقیقت سے صرف دنیا واقف نہیں بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی قوم کی اس خو سے اچھی طرح آگاہ ہے چناں چہ پاکستان کی تمام بڑی جنگیں ایوب خان سے جنرل مشرف کے ادوار میں ہوئیں‘ کیوں؟ کیوں کہ تمام آمروں نے قوم کے اس ڈی این اے کا خوب فائدہ اٹھایا‘ بھارت بھی ماضی میں پاکستان کو کم زور سمجھ کر اس پر حملے کرتا رہا لیکن ہر بار پاکستانی قوم اپنے سیاسی‘ گروہی اور مذہبی اختلافات بھلا کر اکٹھی ہوئی اور اس نے نہ صرف انڈیا کے دانت توڑ دیے بلکہ یہ جنگ کے بعد معاشی طور پر بھی گرداب سے نکل آئی‘ یہ ہماری تاریخ ہے‘ کانگریس اور بی جے پی کی سمجھ دار قیادت ہماری اس خو سے اچھی طرح واقف تھی چناں چہ یہ تیس برس سے پاکستان کے مشکل حالات میں حملے کی غلطی نہیں کرتی تھی‘ یہ خاموشی سے پاکستان کو کم زور اور کم زور ہوتا دیکھتی رہتی تھی‘ پاکستان میں کارگل وار کے دور میں بھی بحران تھا‘ اٹل بہاری واجپائی اس وقت پاکستان پر بڑا حملہ کر کے ہمیں نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن انہوں نے جنگ کو کارگل سے باہر نہیں نکلنے دیاکیوں کہ وہ جانتے تھے مکمل جنگ نواز شریف اور جنرل مشرف کو متحد کر دے گی اور اس کا بھارت کو نقصان ہو گا لیکن نریندر مودی سیاسی لحاظ سے اتنے سمجھ دار نہیں ہیں‘ انہوں نے 2019ء میں بھی پاکستان کے سیاسی اختلافات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائیک کر دی اور اس کے نتیجے میں اپنے دو طیاروں اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کی قربانی دے کر جنرل باجوہ اور عمران خان کو مضبوط کر دیا۔
آپ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری سے پہلے اور پھر بعد کے پاکستان کو بھی دیکھ لیں‘ آپ کو اس میں بھی واضح فرق نظر آئے گا‘ پاکستان نے 27 فروری 2019ء کو ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار اور بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا تھا‘ نریندر مودی کی یہ مہربانی جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی ایکسٹینشن اور عمران خان کو سیاسی مضبوطی دے گئی‘ متحارب اپوزیشن اس کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئی اور اسٹیبلشمنٹ کا حکومت پر ہولڈ مزید مضبوط ہو گیا‘ اپریل اور مئی 2025ء میں نریندر مودی نے دوسری مرتبہ پاکستان پر مہربانی کر دی‘ 22اپریل 2025ء کو پہلگام کا واقعہ پیش آیا‘ اس سے قبل 11 مارچ 2025ء کو بلوچستان میں جعفرایکسپریس کو اغواء کر لیا گیا ‘ یہ کارروائی بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے) نے کی تھی اور اس میں اس نے پاک فوج کے 26 جوانوں کو شہید کر دیا تھا‘ یہ لوگ چھٹی پر جعفر ایکسپریس کے ذریعے گھر جا رہے تھے‘ اس واقعے کے 42دن بعد پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آ گیا‘ اتفاق سے پہلگام میں بھی سانحہ جعفر ایکسپریس کی طرح 26 لوگ مارے گئے اور ان میں اکثریت فوجی اہلکاروں اور افسروں کی تھی‘ جعفر ایکسپریس میں بھی کسی خاتون کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا اور پہلگام میں بھی کوئی عورت نشانہ نہیں بنی‘ جعفر ایکسپریس کے ذمہ دار بھی نہیں پکڑے گئے اور پہلگام کے ملزم بھی تاحال لاپتہ ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر نریندر مودی نے پہلگام کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ کر دیا اور یہ حملہ پاکستان کے لیے خوش قسمت اور بھارت کے لیے بدقسمتی ثابت ہوا‘ پاکستانی فوج نے مئی میں ایسا کمال کیا جس نے امریکا اور یورپ سمیت پوری فرسٹ ورلڈ کو فیلڈ مارشل اور ائیرچیف کا فین بنا دیا‘ رہی سہی کسر 18جون 2025ء کو وائیٹ ہائوس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات نے پوری کر دی‘ ڈونلڈ ٹرمپ اگر اس وقت پوری دنیا میں کسی کا سب سے بڑا فین ہے تو وہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں۔
اس جنگ کی برکت سے جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل بن گئے‘ عرب ممالک دوبارہ پاکستان کے گہرے دوست اور اتحادی ہو گئے‘ مسلم امہ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور چین اور امریکا دونوں پاکستان کے ترجمان بن گئے جب کہ نریندر مودی اور بھارت کا جنازہ نکل گیا‘ نریندر مودی اب کسی انٹرنیشنل ایونٹ میں نظر نہیں آتا‘ پاکستان کے اندر اور باہر پی ٹی آئی کی طاقت بھی ختم ہو گئی‘ آپ دیکھ لیں وزیراعظم اور فیڈ مارشل آج دنیا بھر کے دورے کرتے ہیں اور انہیں اب کسی ملک میں پی ٹی آئی کے مظاہروں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا‘ عمران خان کے مظاہرین اب سوشل میڈیا کے علاوہ تمام مقامات سے غائب ہو چکے ہیں‘ یہ سب نریندر مودی اور انڈیا کی مہربانی ہے‘ یہ اگر مئی میں پاکستان پر حملے کی غلطی نہ کرتا تو شاید آج حالات بالکل مختلف ہوتے‘ شاید آج حکومت عمران خان کو رہا کرنے پر مجبور ہو چکی ہوتی۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ بھی اسی جنگ کا نتیجہ ہے‘ وہ منصوبہ جو حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوا تھا اسے بالآخر نومبر 2025ء کو 27ویں ترمیم کے ذریعے عملی شکل دے دی گئی اور چار دسمبر کو صدر زرداری کے نوٹی فکیشن کے بعد فیلڈ مارشل کو مزید پانچ سال کے لیے آرمی چیف اور سی ڈی ایف بنا دیا گیا یوں یہ پاکستان کے مضبوط ترین جنرل بن گئے‘ یہ اب ایٹمی فیصلوں میں بھی خود مختار ہیں‘ سٹریٹجک کمانڈ بھی اب ان کے ماتحت ہو گی اور انہیں کسی بھی فیصلے کے لیے کسی سے منظوری کی ضرورت نہیں ہو گی‘ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ نوٹی فکیشن جو 26 نومبر کوجاری ہو نا تھا وہ چار دسمبر تک زیرالتواء کیوں رہا؟ اس کی پانچ وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ حکومت کی نالائقی ہے‘ حکومت نے 27 ویں ترمیم کے ذریعے ملک کا پورا عسکری سسٹم بدل دیا لیکن اس نے اس کے قواعد وضوابط پر توجہ نہیں دی‘ حکومت کا خیال تھا یہ کام جی ایچ کیو کرے گا جب کہ جی ایچ کیو کا خیال تھا وزارت قانون اور انصاف اور وزارت دفاع وفاقی حکومت کے پاس ہیں‘ یہ کام ان کا ہے اور اگر انہوں نے یہ کام بھی نہیں کرنا تو پھر ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ چناں چہ 27ویں ترمیم کے بعد ’’تم کرو‘ تم کرو‘‘ کی وجہ سے 22دن ضائع ہو گئے تاہم یہ حقیقت ہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا‘ حکومت اختلاف افورڈ ہی نہیں کر سکتی‘ حکومتی وزراء اچھی طرح جانتے ہیں یہ ستر ستر ہزار ووٹوں سے ہارے ہوئے ہیں چناں چہ یہ اختلاف کی جرات کہاں سے لائیں گے؟ دوسری وجہ‘ پاکستان میں وزیراعظم کوئی بھی ہو‘ یہ صرف ایک مہینے کا وزیراعظم ہوتا ہے‘ یہ صرف اسی مہینے مکمل اور طاقتور وزیراعظم ہوتا ہے اور وہ مہینہ پانچ سال میں صرف ایک بار یعنی 15 نومبر سے 15 دسمبر تک آتا ہے اور وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا وقت ہوتا ہے‘
یہ وقت عموماً ستمبر میں سٹارٹ ہوجاتا ہے‘ وزیراعظم ستمبر کا مہینہ چڑھتے ہی طاقتور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور نومبر میں پہنچ کر یہ مکمل طور پر وزیراعظم بن جاتا ہے اور پورا سسٹم اپنی نظریں اس پر جما کر بیٹھ جاتا ہے‘ 15 نومبر سے 27 نومبر کے درمیان نئے آرمی چیف کا اعلان ہوتا ہے‘ 29 نومبر کو چینج آف کمانڈ ہوتی ہے‘ نئے آرمی چیف اگلے دس پندرہ دن بریفنگ لیتے ہیں‘ اپنی فیلڈنگ لگا تے ہیں اور یوں 15دسمبر کے بعد یہ دن بہ دن مضبوط اور وزیراعظم کم زور ہوتے چلے جاتے ہیں‘ میاں نواز شریف نے اپنی 35 سالہ سیاسی زندگی میں پانچ مرتبہ ان مہینوں کو انجوائے کیا‘ یہ موقع میاں شہباز شریف کی زندگی میں پہلی مرتبہ آیا تھا لہٰذا عین ممکن ہے وزیراعظم اپنے وزیراعظم کے سٹیٹس کو انجوائے کرنے کے لیے عین وقت پر لندن چلے گئے اور سسٹم ٹخنے جوڑ کر ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگا‘ یہ میاں شہباز شریف کی زندگی کے پہلے چار دن تھے جب پورا سسٹم ان کی راہ دیکھ رہا تھا‘ چھوٹے میاں صاحب نے یقینا اسے انجوائے کیا ہو گا‘ تیسری وجہ 27 ویں ترمیم جلد بازی میں کی گئی چناں چہ اس میں ایک خامی رہ گئی‘ فیلڈ مارشل عاصم منیر ملک کے پہلے سی ڈی ایف بن گئے لیکن سوال یہ ہے اگلے سی ڈی ایف کا فیصلہ کون کرے گا؟ دوسراکیا پانچ سال بعد جب نیا آرمی چیف تعینات ہو گا تو کیا وہ بھی سی ڈی ایف ہو گا‘ تیسرا کیا یہ عہدہ صرف آرمی کے پاس رہے گا یا اس پر ائیرفورس اور نیوی کے چیفس بھی تعینات ہو سکیں گے؟ 27 ویں ترمیم میں یہ سوال جواب کے بغیر چھوڑ دیے گئے ہیں‘
یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف اس نقطے پر غور کر رہے ہیں بالخصوص میاں نواز شریف اس پر زیادہ متفکر ہیں اور ان کا خیال تھا حکومت کو فوری طور پر یہ ایشوز بھی طے کر دینے چاہییں خواہ اس کے لیے جوائنٹ سیشن بلا کر 27 ویں ترمیم میں مزید ترمیم کیوں نہ کرنی پڑے‘ حکومت نے دوسمبرکو جوائنٹ سیشن بلایا لیکن یہ 27ویں ترمیم کے اس پورشن کو نہیں چھیڑ سکی‘ چوتھی وجہ دفاعی اداروں میں افسروں کا ایک ایک گھنٹہ اور ایک ایک دن اہم ہوتا ہے‘ تقرری کا پہلا خط اور رینکس لگنے کا وقت چیف بننے کا فیصلہ کر دیتا ہے لہٰذا اگر یہ نوٹی فکیشن 27 نومبر کو ہو جاتا تو 27 نومبر 2030ء کو سینئر جنرلز کا ایک پینل سامنے آتا اور یہ نوٹی فکیشن اب کیوں کہ 4 دسمبر 2025ء کو جاری ہوا لہٰذا 2030ء تک سنیارٹی کا پورا سسٹم بدل جائے گا‘ آج کے بہت سے آفیسر 2030ء سے قبل ریٹائر ہو جائیں گے اور بے شمار آفیسرز اگلے آرمی چیف کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے لہٰذا یہ تاخیر مستقبل کے آفیسرز کو سامنے رکھ کر کی گئی اور آخری وجہ جنرل فیض حمید کی زیادتی ہے‘ جنرل عاصم منیر کو چار دسمبر 2019ء کو لیفٹیننٹ جنرل کے رینکس لگے تھے‘جنرل باجوہ کی مدت 29 نومبر 2022ء کو ختم ہو رہی تھی‘ جنرل عاصم نئے آرمی چیف کی فہرست میں سینئر ترین جنرل تھے لیکن جنرل فیض نے ساز باز کر کے ان کی ریٹائرمنٹ ایج 27 نومبر کر دی تاکہ یہ آرمی چیف نہ بن سکیں‘ جنرل عاصم منیر کی خواہش پر صدر نے سی ڈی ایف کا نوٹی فکیشن چار دسمبر کو جاری کر کے اس زیادتی کا ازالہ کر دیا۔
ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے ان پانچ وجوہات میں سے کون سی وجہ درست ہے یا یہ سب صرف افواہیں یا چائے کی پیالی کا طوفان ہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا اور ہم انسانوں کو بہرحال وقت کو وقت دینا پڑتا ہے‘ سردست صرف ایک حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان کے پہلے سی ڈی ایف بن چکے ہیں اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تمام بددعائیں ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکیں۔















































