اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل خراش واقعہ پیش آیا‘ سفیدرنگ کی لینڈ کروزر نے سکوٹی پر سوار دو نوجوان بچیاں روند دیں‘ یہ دونوں این سی اے میں پارٹ ٹائم جاب کرتی تھیں اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں‘ دونوں سہیلیاں تھیں‘ سکوٹی پر آتی اور جاتی تھیں‘ یکم دسمبرکی رات یہ گھر جا رہی تھیں اور تیز رفتار لینڈ کروزر کی زد میں آگئیں‘ دونوں وہیں انتقال کر گئیں‘ پولیس نے گاڑی چلانے والے کو گرفتار کیا تو اس کی عمر 16سال نکلی‘ وہ شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس دونوں کی عمر تک نہیں پہنچا تھا‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی اور لڑکا ڈرائیونگ کرتے ہوئے سنیپ چیٹ پر تھا‘ اس دوران گاڑی ’’آئوٹ آف کنٹرول‘‘ ہو کر سکوٹی پر چڑھ گئی‘ حادثہ اس قدر خوف ناک تھا کہ گاڑی کی فرنٹ سائیڈ بھی تباہ ہو گئی‘ آپ اس سے گاڑی کی سپیڈ کا اندازہ کر سکتے ہیں‘
پولیس نے جب نوجوان سے تحقیقات کیں تو پتا چلا یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا بیٹا ہے‘ یہ بھی سننے میں آیا گاڑی ’’نان کسٹم پیڈ‘‘ ہے اور جج صاحب کا بیٹا یہ اکثر چلاتا رہتا تھا بہرحال یہ معاملہ میڈیا میں ہائی لائٹ ہو گیا چناں چہ لڑکے کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے خلاف ضابطے کی کارروائی شروع ہو گئی‘ ملزم کیوں کہ جج صاحب کا صاحب زادہ تھا لہٰذا اسے حوالات میں کھانا بھی مل گیا‘ واش روم کی سہولت بھی اور ہیٹر اور موبائل فون بھی‘ یہ عملاً حوالات میں بھی نہیں رہا‘ پولیس کے پاس امیر اور تگڑے ملزموں کے لیے تھانوں میں الگ رہائش گاہیں ہوتی ہیں‘ ایک رہائش گاہ اسے بھی الاٹ کر دی گئی‘ جج صاحب دو تین دن عدالت تشریف نہیں لائے‘ اس دوران سسٹم کے اندر اور باہر موجود ان کے دوستوں نے بھاگ دوڑ کی‘ چھ دسمبر کو اس کیس کی سماعت تھی‘ حیران کن طریقے سے اس شام ایک بچی کے بھائی نے عدالت میں آ کر ملزم کی معافی کا اعلان کر دیا‘ بچی کی والدہ بیمار تھیں‘ وہ عدالت نہیں آ سکتی تھیں‘ جج صاحبہ نے اس کی معافی ویڈیو بیان سے قبول کر لی‘ دوسری بچی کا والد بھی عدالت میں پیش ہوا اور اس نے بھی ملزم کو معاف کر دیا‘ جج صاحبہ نے ان دونوں معافیوں کے بعد کیس کا فوراً فیصلہ کر دیا‘ فیصلہ اسی وقت ٹائپ ہوا‘ مچلکے تیار تھے اور جج صاحبہ کے حکم پر ملزم ابوذر ریکی کو گھر بھجوا دیا گیا یوں دو بچیوں کو غرور اور ظلم کی گاڑی تلے کچلنے والا نوجوان اپنے گھر واپس چلا گیا اور انصاف کا یہ سارا عمل ان بچیوں کا خون خشک ہونے سے پہلے پہلے مکمل ہو گیا‘ میرا خیال ہے آپ اگر آج 10دن بعد بھی جائے حادثہ کا وزٹ کریں تو آپ کو سڑک اور فٹ پاتھ دونوں پر بچیوں کے خون کے دھبے مل جائیں گے اور شاید ان بچیوں کی روحیں بھی اسی فٹ پاتھ کے کسی کونے میں بیٹھی ہوں گی اور یہ بال کھول کر انصاف کے نام پر ہونے والے اس ظلم پر ماتم کر رہی ہوں گی۔
یہ انتہائی افسوس ناک اور دل خراش واقعہ تھا‘ یہ ثابت کرتا ہے ہمارا سماج اندر اور باہر دونوں سائیڈز سے گل سڑ چکا ہے اور اگرہم نے اس پر توجہ نہ دی تو یہ کھوکھلا سماج ہمیں مزید برباد کر دے گا تاہم اس واقعے کے تین پہلو ہیں اور یہ تینوں قابل غور ہیں‘ پہلا پہلو والد ہے‘ اس واقعے میں والد ہائی کورٹ کا جج ہے‘ میں اکثر محسوس کرتا ہوں پاکستان میں سب سے بری اور تھینک لیس جاب والد ہونا ہے‘ والد پوری زندگی اپنے بچوں اور فیملی کے لیے سولی پر لٹکا رہتا ہے لیکن اس سے کوئی مطمئن نہیں ہوتا‘اس کے لیے کوئی اعزاز نہیں ہوتا‘ میں جج صاحب کو نہیں جانتا‘ میری ان سے کوئی ملاقات نہیں لیکن میں ان کی تکلیف کا اندازہ کر سکتا ہوں‘ ان پر اس وقت تین دبائو ہوں گے‘ مظلوم بچیوں کا خون‘ دنیا کا سنگ دل سے سنگ دل شخص بھی مظلوم کے خون پر ضمیر کے دروازے بند نہیں کر سکتا‘ جج صاحب بھی اس وقت ضمیر کی سولی پر لٹکے ہوں گے‘ دوسرادنیا کا کوئی والد نہیں چاہے گا اس کا جوان بیٹا گاڑی لے کر گھر سے نکل جائے‘ اوور سپیڈنگ کرے ‘ خود بھی مرے اور دوسروں کو بھی مار دے جب کہ جج صاحب کے بیٹے نے یہ سارے کارنامے سرانجام دیے‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے جج صاحب کا بیٹا ان کے کنٹرول سے باہر ہو گا یا یہ چھپ کر گاڑی لے کر نکل گیا ہو گا اور جج صاحب کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی چناں چہ جج صاحب کے لیے ضدی اور بے قابو بیٹے کو برداشت کرنا کتنا مشکل ہو گا؟ اور تیسرا باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی بچانا ہے‘ یہ ظاہر ہے ریاست مدینہ میں نہیں رہ رہے جہاں ہر مظلوم کو انصاف ملتا ہے اور ہر ظالم کا احتساب ہوتا ہے‘ یہ اس ملک میں رہ رہے ہیں جس میں جتوئی فیملی نے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود شاہ رخ جتوئی کو بچا لیا تھا چناں چہ جج صاحب نے بھی بیٹے کو بچانا تھا اور انہوں نے بچا لیا اور یہ اب پوری زندگی لوگوں کی نفرت کا سامنا کریں گے اور اس کے بعد بھی ہو سکتا ہے کل یہ بیٹا بھی اعتراض کر دے مجھے آپ کے ہوتے ہوئے تین دن حوالات میں رہنا پڑ گیا تھا‘ پاپا آپ کتنے ظالم یا کیئر لیس ہیں لہٰذا پہلا پہلو باپ کا کرب یا دکھ ہے‘
یہ اگر بیٹے کو قانون کے ہاتھوں میں رہنے دیتا ہے تو اسے پھانسی ہو جائے گی اور اگر یہ اسے بچا لیتا ہے تو اسے پوری زندگی ضمیر کی عدالت میں جواب دینا پڑے گا‘ یہ دو مظلوم بچیاں پوری زندگی انہیں چین سے سونے نہیں دیں گی۔ دوسرا پہلو ہمارے نوجوان ہیں‘ یہ اندر سے بگڑ چکے ہیں‘ یہ ٹک ٹاک بنانے کے لیے اپنی جان دے دیتے ہیں اور دوسروں کی لے لیتے ہیں‘ یہ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ڈرائیو کرتے ہوئے بھی ڈرتے اور گھبراتے نہیں ہیں‘ آپ کسی دن ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے پاکستان میں ہر سال ٹک ٹاک‘ سنیپ چیٹ اور یوٹیوب لائیو کتنے لوگوں کی جان لے لیتی ہے؟ آپ اس سے ملک کی صورت حال کا بخوبی اندازہ کر پائیں گے‘ آج کے زمانے میں موبائل فونز ہم انسانوں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ دار ہیں‘ ہم جب گاڑی میں موبائل آن کرتے ہیں تو یہ ہمیں وارننگ دیتا ہے آپ ڈرائیو کر رہے ہیں آپ موبائل آن نہیں کر سکتے لیکن ہم لوگ ’’آئی ایم ناٹ ڈرائیونگ‘‘ کا آپشن کلک کر کے موبائل اور اپنے آپ کو دھوکا دے دیتے ہیں اور یوں کسی ان ہونی کا شکار ہو جاتے ہیں‘سوشل میڈیا دنیا بھر میں ہے لیکن اس کا اتنا بھیانک استعمال بہت کم مقامات اور ملکوں میں ہوتا ہے‘ ہمیں اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا‘ اس کے لیے سماجی روایات بنانی ہوں گی ورنہ مظلوم لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے اور تیسرا پہلو ہماری سڑکیں ہیں‘ پاکستان کی ڈرائیونگ اور سڑکیں بدقسمتی سے موت کا کنواں ہیں‘ ہم آج تک ڈرائیونگ لاز کو سڑکوں پر نافذ نہیں کر سکے‘ آپ دور نہ جائیے آپ اسلام آباد کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو 20 کلومیٹر کے اس شہر میں ہیلمٹ کے بغیر اور تین تین‘ چار چار لوگ ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے مل جائیں گے‘ اشارہ توڑنا‘ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا‘ بچوں کا ڈرائیونگ کرنا اور غلط طریقے سے لائین کراس کرنا یہ اسلام آباد میں بھی معمول ہے اور کسی کو اس پر ذرا برابر شرمندگی نہیں ہوتی‘ آپ اس کے مقابلے میں کسی ماڈرن یا مڈل کلاس ملک میں سڑک پر ذرا سی مستی کر کے دکھا دیں‘
آپ کے ساتھ وہ سلوک ہو گا کہ آپ پوری زندگی یاد رکھیں گے اور اس سلوک کے دوران آپ کے والد کا جج ہونا‘ وزیراعظم ہونا یا بادشاہ ہونا بھی کام نہیں آئے گا بلکہ ہو سکتا ہے آپ کا سٹیٹس آپ کی سزا میں اضافے کا باعث بن جائے چناں چہ میری درخواست ہے آپ مہربانی کر کے پاکستان کو بے شک فرانس‘ برطانیہ اور امریکا نہ بنائیں آپ صرف سڑکوں کو محفوظ بنا دیں‘ یہ ملک خودبخود ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جائے گا اور آپ اس کا آغاز اسلام آباد سے کریں‘ ہم نے جس دن قانون کو 20 کلومیٹر کے اس شہر پر نافذ کر لیا اس دن یہ پورے ملک پر نافذ ہو جائے گا‘ آپ یہ یاد رکھیں دنیا میں ترقی سڑک سے سٹارٹ ہوتی ہے اگر سڑک پر انصاف اور قانون ہو گا تو ملک آگے بڑھ جائے گا ورنہ آپ کے پاس وسائل کے جتنے بھی انبار ہوں ملک پستی سے باہر نہیں آ سکتے‘آخر میں میرا ایک معصوم سا سوال ہے وہ کون سی طاقت تھی جس نے سولہ سال کے بچے کو لائسنس کے بغیر گاڑی سڑک پر لانے کی جرات دی‘ صرف ایک چیز یہ لڑکا جانتا تھا اسے کوئی نہیں روکے گا اور اگر کسی نے روک لیا تو والد کا نام روکنے والے کو سلیوٹ پر مجبور کر دے گا‘ اب اگلا سوال یہ ہے کیا کوئی شخص یہ حرکت دوبئی‘ چین‘ روس‘ امریکا اور یورپ میں کر سکتا تھا خواہ اس کا والد وہاں جج ہی کیوں نہ ہوتا؟ ہرگز نہیں‘ آپ کا یہ جواب اس ملک کا مقدر ہے لہٰذا خدارا سڑکوں کو محفوظ بنا دیں۔دوسرا جج صاحب نے چار دنوں میں دو مظلوم خاندانوں کو معافی پر مجبور کر لیا‘ قانونی لحاظ سے معافی ہو گئی لیکن کیا یہ آخری جج اور آخری عدالت ہیں؟ا ور کیا (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ نے اپنی طاقتیں سرینڈر کر دی ہیں؟ اگر خدا موجود ہے اور اس کی عدالت بھی سلامت ہے تو پھر یہ اس کا سامنا کیسے کریں گے؟ یہ اور ان کا ضدی بیٹا اللہ کے انصاف سے کیسے بچیں گے؟ مجھے نہیں لگتا ان دو مظلوم بچیوں کا خون جج صاحب اور ان کے بیٹے کو معاف کرے گا۔















































