افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں گے اور چند منٹوں میں ہر چیز تہس نہس کر دیں گے‘ آپ تاریخ دیکھ لیں‘ افغانوں نے انڈیا کے ساتھ کیا کیا‘ یہ آتے تھے‘ شہروں کو لوٹتے تھے‘ مکانوں اور کھیتوں کو آگ لگاتے تھے‘ انسانوں کو قتل کرتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے‘ جنگی زبان میں اسے چھاپہ مار کارروائی کہتے ہیں‘ یہ اس کے ایکسپرٹ ہیں‘ دوسرا یہ اپنے مفاد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں‘ان پر حملہ ہو یا انہیںکسی ملک میں مفاد نظر آئے گا تو یہ قبائلی عصبیت اور نظریاتی اختلافات بھلا کر فوراً اکٹھے ہو جائیں گے لیکن جوں ہی مفاد ختم ہو گا یہ دوبارہ ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے‘
ان دو خوبیوں کے علاوہ ان میں خامیاں ہی خامیاں ہیں‘ یہ ڈسپلنڈ نہیں ہیں‘ افغانستان تاریخ کے کسی بھی دور میں آزاد اور مکمل ملک نہیں رہا‘ یہ مختلف علاقوںاور قبائل میں منقسم رہا لہٰذا افغانوں کے ڈی این اے میں ڈسپلن‘ قانون کی پابندی‘ ملک سے محبت‘ رواداری اور انسانی حقوق پیدا نہیں ہوئے‘ ان کی نظر میں انسانی جان‘ وعدے کی پابندی‘ خواتین کا احترام اوراحسان مندی کی اہمیت نہیں‘ لڑنا‘ مرنا اور مارنا ان کی خو ہے‘ یہ آپس میں لڑتے اور مرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا آ جائے تو یہ غول کی شکل میں اس سے لڑ پڑتے ہیں‘ وہ تنگ آ کر واپس چلا جاتا ہے تویہ پھر ایک دوسرے کا سر اتارنا شروع کر دیتے ہیں‘ سوویت یونین کے معاملے میں بھی یہی ہوا ‘ یہ سب روس سے لڑ رہے تھے لیکن جوں ہی روسی ٹینک واپس جانے شروع ہوئے یہ آپس میں لڑ پڑے اور اس لڑائی سے انہیں افغان وار سے دس گنا نقصان ہوا‘ طالبان کا ظہور اسی خانہ جنگی کا نتیجہ تھا‘ طالبان آئے تو افغانستان میں امن ہو گیا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے بعد طالبان نے وہ گل کھلائے کہ امریکا ان پر حملے کے لیے مجبور ہوگیا اور اس کے بعد افغانوں نے ایک بار پھر افغانوں کے ساتھ وہ کیا جسے سن کر انسانیت کانپ جاتی ہے‘ آپ خانہ جنگی کے واقعات پڑھ لیں آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ یہ لوگ اپنے بھائیوں کو کنٹینروں میں بند کر کے صحرا میں چھوڑ دیتے تھے اور لوگ کنٹینر میں بھوک‘ پیاس اور گرمی سے مر جاتے تھے‘ لاشوں سے بھرے یہ کنٹینر برسوں صحرائوں میں کھڑے رہے‘ اب سوال یہ ہے یہ لوگ اگر اتنے ہی جاہل‘ سنگ دل‘ مطلبی اور احسان فراموش ہیں تو پھر ہم انہیں دہائیوں تک آئیڈیل کیوں سمجھتے رہے اور ہم نے اپنے میزائلوں کے نام غوری‘ غزنوی‘ بابر اور ابدالی کیوں رکھے؟ یہ داستان بھی کم دل چسپ نہیں۔
ہندوستان ماضی میں دوا کثریتوں میں تقسیم رہا‘ ہندو اور مسلمان‘ ہندو تعداد میں زیادہ تھے لیکن یہ فطرتاً بزدل ہیں‘ مسلمان بہادر اور جنگ جو ہیں اور ان کی اکثریت سنٹرل ایشیا سے آئی تھی‘ یہ افغان‘ ایرانی‘ ازبک‘ تاتاری‘ ترک اور عرب تھے اور یہ ہزاروں سال سے جنگ جو ہیں‘ ہندوستان پر پانچ ہزار سال سے سنٹرل ایشیا سے حملے ہوتے رہے‘ غزنویوں‘ غوریوں‘ ازبکوں اور ابدالیوں نے ماضی میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی لہٰذا یہ ان کے ناموں اور تذکروں سے بھی ڈرتے تھے‘ پاکستان بنا تو مسلمان آبادی سنٹرل ایشیا کی سرحد پر اکٹھی ہو گئی‘ ان کی سنٹرل ایشین ملکوں کے ساتھ جنیاتی‘ روایاتی اور مذہبی روٹس ملتی تھیں‘ افغان وار کی وجہ سے1980ء میں امریکا پاکستان آ گیا اور اس نے شروع ہی میں دو حقیقتیں بھانپ لیں‘ ایک پنجاب پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اور پنجابی دل سے افغانوں سے نفرت کرتے ہیں‘ اس کی بڑی وجہ افغانوں کی لوٹ مار تھی‘ افغانوں کو دہلی‘ گجرات اور بنگال دور پڑتا تھا‘ پنجاب ان کے راستے میں تھا لہٰذا یہ درہ خیبر پار کرتے ہی پنجابیوں کو لوٹنا شروع کرتے تھے اور مارتے دھاڑتے ہوئے پانی پت پہنچ جاتے تھے‘ یہ اگر وہاں کام یاب ہو جاتے تو دہلی کو لوٹ کر واپس چلے جاتے تھے ورنہ دوسری صورت میں پنجاب بھی ان کی لوٹ مار کے لیے کافی تھا‘ پنجاب ہر سال ان کے ہاتھوں تاراج ہوتا تھا چناں چہ پنجابی انہیں پسند نہیں کرتے تھے‘ یہ انہیں خرکار‘ اغواء کار اور لٹیرے سمجھتے ہیں‘ دو افغانستان تاریخ کے ہر دور میں عالمی طاقتوں کی گزرگاہ رہا‘
سکندر اعظم سے لے کر سوویت یونین تک ہر بڑی طاقت اسے روند کر یہاں سے گزری لہٰذا افغان جنیاتی طور پر بڑی اور لمبی جنگ نہیں لڑ سکتے تھے‘ امریکا نے یہ حقیقتیں دیکھ کر دو کام کیے‘ اس زمانے میں یونیورسٹی آف نبراسکا کا شعبہ ’’سنٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل سٹڈیز‘‘پورے امریکا میں تگڑا تھا‘ سی آئی اے نے اسے ٹاسک دیا اور اس نے تین کام کیے‘ اول اس نے پنجابیوں کے لیے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا سلیبس بنایا اور اس میں افغانوں کو عظیم فاتح‘ کمانڈر اور عالم اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا‘ اسلامیات میں جہاد سے متعلق آیات‘ احادیث اور واقعات اکٹھے کر دیے گئے اور ان دونوں مضامین کو پاکستانی سکولوں اور کالجوں کے لیے لازمی قرار دے دیاگیا‘ دوم امریکا نے پاک افغان سرحد پرسینکڑوں مدارس بنوائے‘ ان کے لیے نئے علماء کرام اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا‘ مدارس کے سلیبس سے بھی انسانیت‘ رواداری اور برداشت نکال کر جہاد‘ کفر سے مقابلہ اور توہین مذہب ڈال دیا گیا‘ امریکا نے اس زمانے میں پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا سوویت یونین میں لادین اور کافر بستے ہیں‘
یہ مسجدوں میں گھوڑے باندھتے ہیں اور قرآن مجید کو (نعوذباللہ) بستر کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ گستاخ رسول بھی ہیں‘ امریکی سپانسرڈ مدارس میں افغانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی بھی پڑھتے تھے یوں ان مدارس سے ایک نئی اور شدت پسند نسل نے جنم لے لیا اور سوم امریکا نے افغانوں اور پاکستانیوں دونوں کو یقین دلا دیا افغانستان ناقابل تسخیر ہے‘ یہ تاریخ کے کسی دور میں کسی قوم کے تابع نہیں رہا‘ افغان مر جاتے ہیں لیکن دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے‘ افغانوں کو یہ بھی یقین دلا دیا گیا تم سچے مسلمان ہو اور باقی دنیا کافر ہے اور جو تمہیں نہ مانے یا تمہارا ساتھ نہ دے وہ کافر ہے اور اس کی جان لینا تم پر فرض ہے‘ یہ سلسلہ 30 سال چلا اور اس نے افغانوں اور پاکستانیوں دونوں کا ذہن بدل دیا اور یہ یونیورسٹی آف نبراسکا کا کمال تھا‘ اس دوران پاکستان نیو کلیئر پاور بن گیا اور اس نے میزائل بھی بنانا شروع کر دیے‘ میزائل سازی میں ان لوگوں کا زیادہ ہاتھ تھا جن کے آبائو اجداد افغان کمانڈرز کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اوریہاں بس گئے تھے چناں چہ انہوں نے میزائلوں کے نام غزنوی‘ غوری‘ ابدالی اور بابر رکھ دیے‘ ان ناموں سے انڈین گھبراتے اور چڑتے تھے اور جس چیز سے انڈین کو مرچیں لگتی ہیں ہم من حیث القوم اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں‘ ہمارا بس نہیں چلتا تھا ہم اپنی ہاکی اور کرکٹ ٹیم کو بھی اسی طرح غوری‘ غزنوی اور ابدالی کا نام دے دیتے جس طرح ہم نے چھ اور سات کے ہندسے اور جہاز کو انڈیا کی چھیڑ بنا دیا ہے بہرحال قصہ مختصر پروپیگنڈا اور جعلی سلیبسوں کا یہ نتیجہ نکلا ہم نے افغانوں کے لیے اپنے معاشرے اور معیشت دونوں کا بیڑہ غرق کر لیا اور افغانوں کو ناقابل تسخیر ہونے کا یقین دلا دیا اور آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں یہ ہم پر حملے کر رہے ہیں اور ہم انہیں حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے پاس اب تین آپشن ہیں اور ہمیں ان تینوں پر بیک وقت کام کرنا پڑے گا‘ اول‘ پاکستان تاخیر سے ہی سہی لیکن اب اندر اور باہر دونوں جگہوں پر ’’ہارڈ سٹیٹ‘‘ کا تاثر دے رہا ہے‘ ہمیں یہ سختی مزید بڑھانا ہوگی‘ پاکستان کے کسی بھی بارڈر پر کوئی بھی خلاف ورزی ہو اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو ہم نے جنوری 2024ء میں ایران‘ مئی 2025ء میں انڈیا اور اکتوبر میں افغانستان کے ساتھ کیا‘ ملک کے اندر بھی کسی کو سڑک بند کرنے یا کسی شہر کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ احتجاج جمہوری حق ہے لیکن کسی کو یہ حق ٹریفک روک کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ اصول سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے اگریہ سعد رضوی کے لیے جرم ہے تو مریم نواز اورعمران خان کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے‘ اگر کوئی بھی شخص شٹر ڈائون یا پہیہ جام کی کال دے ریاست کو اسے تیر کی طرح سیدھا کر دینا چاہیے‘ حکومت احتجاج کے لیے ہر شہر میں کوئی جگہ طے کر دے‘ اس کے علاوہ کسی جگہ احتجاج کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ دوم مذہب پرائیویٹ فعل ہوناچاہیے‘
کسی کو کسی کے عقائد پر سوال اٹھانے یا اعتراض کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ جو کسی کو کافر یا بدعتی قرار دے اسے لمبی سزا ملنی چاہیے‘ عبادت کی اجازت صرف مسجد اور گھر میں ہونی چاہیے‘ سڑک‘ سرراہ یا کسی عوامی مقام پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے‘ مساجد اور مدارس کا انتظام ریاست کے پاس ہونا چاہیے‘ سلیبس بھی ریاست تیار کرے اور اساتذہ کا تعین بھی حکومت کے ہاتھ میں ہو‘ مسجدوں کو بھی ریاست ڈیزائن کرے اور یہی بنائے‘ حکومت اس کے لیے علماء کرام کا بورڈ بھی بنا سکتی ہے اور مسجدوں کا انتظام اس کے سپرد کر سکتی ہے اور سوم ملک کو نارمل بنائیں‘ جنگی ترانے بجانا بند کر دیں‘ قوم کو پلیز ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘ سے باہر نکالیں‘ ان ترانوں نے پوری قوم کو مجاہد بنا دیا ہے‘ قوم کو مجاہدوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ الیکٹریشن اور پلمبر بھی چاہیے ہوتے ہیں اگر ترانہ اتنا ضروری ہے تو مہربانی فرما کر اسے ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘ اب وقت مشقت ہے آیا‘‘ میں تبدیل کر دیں‘ عوام کو لڑائی سے ہٹا کر کتابوں‘ فلموں‘ موسیقی‘ مصوری‘ سپورٹس اور ڈیبیٹ پر لگائیں‘ بسنت جیسے تہواروں سے پابندی اٹھائیں اور شہروں میں جم اور جاگنگ ٹریکس بنائیں تاکہ لوگ کڑاہی گوشت اور مرنے مارنے سے نکل سکیں اگر یونیورسٹی آف نبراسکا نے سلیبس کے ذریعے ہمیں ابنارمل سوسائٹی بنا دیا تو ہمیں اب پنجاب یونیورسٹی یا سندھ یونیورسٹی کی مدد سے نارمل سوسائٹی کا سفر طے کرنا چاہیے ورنہ ڈھلوانوں کا یہ سفر ہمیں مزید پستی میں لے جائے گا اور اس کے اوپر کسی نہ کسی مذہبی جماعت کا جھنڈا لہرارہا ہو گا۔