آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس مینجمنٹ کا ایکسپرٹ تھا‘ وہ امریکی سیکرٹری آف اکنامکس کا اسسٹنٹ بھی رہا اور اکنامک وار فیئر کا چیف بھی‘ وہ 1960ء میں ایشیا فائونڈیشن میں شامل ہوا اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا اکنامک ایڈوائزر بن گیا‘ ظاہر شاہ نے افغانستان پر چالیس سال (1933ء سے1973ئ) حکومت کی ‘ وہ 1973ء میں آنکھوں کے آپریشن کے لیے روم گیا اور اس کی غیرموجودگی میں اس کے کزن محمد دائود خان نے اس کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد افغانستان میں وہ خونی کھیل شروع ہوا جو آج 52 سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ آرتھر پائول نے ظاہر شاہ کو آزاد معیشت کا ماڈل بنا کر دیا ‘ اس کے مشورے پر بادشاہ نے خواتین کو حقوق دیے‘
یونیورسٹیاں اور زنانہ کالج بنائے اور معاشرے کو مزید لبرل کیا‘ آرتھر پائول کی وجہ سے افغانستان کا تخت روس سے دور اور امریکا کے قریب ہونے لگا‘ یہ دوستی روس کو پسند نہیں آئی چناںچہ اس نے بادشاہ کے کزن دائود خان سے ساز باز کر کے بادشاہ کا تخت الٹا دیا‘ دائود خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اور افغانستان کا پہلا صدر بن گیا‘اقتدار کی تبدیلی کے بعد کش مکش شروع ہوئی اور یہ 1978ء اس وقت تک جاری رہی جب تک سوویت یونین نے عملی طور پر افغانستان میں داخل ہو کر دائود خان کو قتل نہیں کر دیا‘ یہ بہرحال بعد کی باتیں ہیں‘ آرتھر پائول ان حادثوں سے کہیں پہلے کابل آیا اور بادشاہ ظاہر شاہ کا مشیر بن گیا‘ بادشاہ کی قربت کی وجہ سے اس کی افغان آرکائیو تک رسائی ہو گئی‘ وہ روز کسی نہ کسی تاریخی دستاویز کی تصویر یا فلم بناتا تھا یا اہم معلومات اپنے پاس لکھ لیتا تھا اور پھر خود یا کسی نہ کسی ذریعے سے اسے پاکستان بھجوا دیتا اور یہ کراچی کے راستے پی آئی اے کے ذریعے امریکا پہنچ جاتی تھی‘ وہ روز ڈائری بھی لکھتا تھا جس میں وہ افغانستان کے اپنے سفر‘ قبائل کی عادتوں‘ محل کی اندرونی صورتحال‘ روسیوں کی مداخلت اور افغان معاشرے میں پلنے والی بے چینی کی روداد لکھتا تھا‘ اس نے افغانستان میں رہ کر محسوس کیا افغان معاشرے میں استاد کی بہت عزت ہے‘
افغان سماجی طور پر کٹڑ مذہبی اور تاجر لوگ ہیں‘ یہ سرمائے اور مذہب دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں چناں چہ اس کا خیال تھا اگر کسی نے افغانستان کو قابو کرنا ہو تو اس کے پاس تین کارڈز ہونے چاہییں‘ مذہب کا کارڈ‘ اساتذہ کا کارڈ اور دولت کا کارڈ اور پورا افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا‘ آرتھر پائول پانچ سال افغانستان میں رہا‘ ان برسوں میں اس نے افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا‘ اس نے پوراافغان آرکائیو بھی کاپی کر لیا‘ وہ 1965ء میں کابل سے امریکا واپس آ گیالیکن اس وقت تک اس کے پاس افغانستان کی 20 ہزاردستاویز جمع ہو چکی تھیں‘ یہ افغانوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا‘ آرتھر پائول نے اس خزانے کی مدد سے1965ء میں سی آئی اے کو بتا دیا تھا روسی ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیں گے جس کے بعد افغانستان میں خون کا کھیل شروع ہو جائے گا اور یہ پورے سنٹرل ایشیا کو اپنے نرغے میں لے لے گا‘ اس کا کہنا تھا روس افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا‘ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں جب کہ پاکستان کی آرمی اور لوکیشن دونوں آئیڈیل ہیں اگر یہ دونوں ملک روس کے ہاتھ آ گئے تو پھر یہ عربوں کو بھی نگل جائے گا اور یورپ کو بھی تین سائیڈز سے گھیر لے گا جس کے بعد یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہو گا‘ اس کا کہنا تھا ہمیں فوراً افغانستان‘ ایران اور پاکستان پر توجہ دینی ہو گی‘خوش قسمتی سے ان تینوں ملکوں کے درمیان شیعہ اور سنی اختلافات موجود ہیں‘ ہمیں اختلافات کی یہ لکیر گہری کرنی ہو گی تاکہ اگر ان ملکوں میں انقلاب بھی آ جائے تو بھی یہ مخالف فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست وبازو نہ بن سکیں‘ اس کا یہ بھی کہنا تھا ہمیں افغانستان کے اساتذہ کو ہاتھ میں لینا چاہیے‘ یہ مستقبل میں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔
آرتھر پائول 1976 میں فوت ہو گیا لیکن وہ 1970ء کے شروع میں 20 ہزار کولیکشنز پر مشتمل اپنا سارا خزانہ یونیورسٹی آف نبراسکا کے حوالے کر گیا اور یونیورسٹی نے سی آئی اے کی مدد سے 1972ء میں اپنے کیمپس میں ’’سنٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل سٹڈیز‘‘ کے نام سے افغانستان پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی سنٹر بنا دیا‘ یہ سنٹر آج تک قائم ہے اور اس میں افغانستان کی تمام خفیہ اور ظاہری دستاویز محفوظ ہیں‘ ان میں کابل کے 1842ء کے دربار‘ لارڈ لائیٹن (Lytton) کی 1879ء کی افغان وار‘ لارڈ کرزن کی 1883ء کی افغان جنگ میں برٹش سپاہیوں کی قربانیاں‘ 1895ء کا کابل دربار‘ پٹھان بارڈر لینڈ‘ 1921ء میں چترال سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے حالات‘ ہرات سے لے کر خیوا‘ خوارم شاہ کا دربار‘ خیوا پر روس کا قبضہ‘ غزنی سے کابل تک کی سیر‘ دوست محمد کا دربار‘ راجہ رنجیت سنگھ کے افغانستان سے متعلق نوٹس اور روس کی خیوا پر 1840ء کی مہم تک شامل ہیں‘ آرتھر پائول کی تحقیق اس حد تک سالڈ تھی کہ اس نے 1965ء میں لکھ دیا تھا افغان 39 کے ہندسے کو پسند نہیں کرتے‘ ان کے خیال میں یہ ماضی میں طوائفوں کے بیج کا نمبر ہوتا تھا چناں چہ اگربدقسمتی سے آپ کی پراپرٹی یا گاڑی کے نمبر میں 39 آگیا تو پھر یہ افغانستان میں نہیں بکے گی‘ بہرحال قصہ مزید مختصر آرتھر پائول کی دستاویز پر مشتمل سنٹر نے آنے والے دنوں میں افغانستان پر امریکی اثرونفوذ میں بڑا ہم کردار ادا کیا‘ آرتھر کی تحقیق کی روشنی میں امریکا کی ہدایت پر ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے 16 اساتذہ کا انتخاب کیا‘ انہیں پاکستان بلایا اورانہیں جہاد کی ٹریننگ دینا شروع کر دی‘آپ کے لیے شاید یہ معلومات انکشاف ہوں افغان جہاد کے بانی جنرل ضیاء الحق کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو تھے‘‘ میجر جنرل نصیر اللہ بابر ابتدائی مجاہدین کے ٹرینر تھے‘ یہ 16 اساتذہ بعدازاں افغانستان میں امریکا کے کمانڈرز ثابت ہوئے اور انہوں نے وہاں ایسی آگ لگا ئی جو آج تک بجھ نہیں سکی‘ میجر جنرل نصیر اللہ بابر پکے امریکا نواز تھے‘ یہ بھٹو صاحب کے دور میں کے پی میں گورنر اور بے نظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ رہے‘
بے نظیر بھٹو ان کے بیک گرائونڈ سے واقف تھیں چناں چہ وہ انتہائی اہم معلومات ان سے خفیہ رکھتی تھیں‘ مجھے جنرل حمید گل مرحوم نے ایک بار بتایا تھا میں وزیراعظم کی گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ نصیر اللہ بابر اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ تھے‘ میں محترمہ کو افغانستان کے بارے میں کچھ بتانے لگا تو بی بی نے اگلی سیٹ کی طرف اشارہ کر کے مجھے روک دیا‘ میں سمجھ گیا محترمہ اپنے وزیر داخلہ کی وفاداری سے مطمئن نہیں ہیں‘اس کی تصدیق بعدازاں میجر عامر نے بھی کی‘ یہ ماشاء اللہ حیات ہیں‘ آپ ان سے بھی پوچھ سکتے ہیں‘ بہرحال قصہ مزید مختصر 1978ء میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہو گیا‘ امریکی روس سے براہ راست جنگ نہیں چاہتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انہیں بھی دوسرے آمروں کی طرح ایک بڑی جنگ چاہیے تھی چناں چہ انہوں نے بھٹو صاحب کے ٹرینڈ شدہ 16 اساتذہ گل بدین حکمت یار‘ برہان الدین ربانی‘ احمد شاہ مسعود‘ عبدالرشید دوستم اور عبدالرسول سیاف کی مدد سے افغان وار شروع کر دی‘ بعدازاں سینیٹر چارلی ولسن کی وجہ سے امریکا اور عرب بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے‘ امریکی آج بھی چارلی ولسن کی وجہ سے افغان جنگ کو چارلی ولسن وار کہتے ہیں‘
وقت نے بہرحال یہ ثابت کر دیا افغان جہاد کوئی اسلامی جہاد نہیں تھا‘ یہ روس اور امریکا کے مفادات کی جنگ تھی جس میں نبراسکا یونیورسٹی کے ’’ سنٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل سٹڈی‘‘ اور آرتھر پائول کی دستاویز کے ذریعے اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا‘ امریکی مفادات کی کاشت کاری میں مصر‘ سعودی عرب اورکینیا کے جذباتی مسلمان نوجوانوں کو بطور کھاد استعمال کیا گیا‘ یہ کھیل سوویت یونین کی واپسی تک جاری رہا‘ روس کی واپسی کے بعد افغانستان کے نام نہاد ’’مجاہدین‘‘ آپس میں لڑ پڑے اور انہوں نے امریکی اسلحہ کی مدد سے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ افغانستان میں اتنا خون بہاکہ اس کے چھینٹے امریکا تک پہنچنے لگے‘ بے نظیر بھٹو اور جنرل نصیر اللہ بابر کو دوسری بار اقتدار میں لایاگیا اور ان کے ذریعے آرتھر پائول کا دوسرا کارڈ کھیلا گیا اور وہ ’’مذہب کا کارڈ‘‘ تھا‘ پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو اکٹھا کیا گیا اور انہیں افغانستان میں دھکیل دیا گیا‘ انہیں یہ بتایاگیا تھا امام مہدی کا ظہور قریب ہے‘ یہ خراسان میں تشریف لائیں گے‘ آپ نے ان کی آمد کے لیے فضا ہموار کرنی ہے‘ یہ اسے حکم ربی سمجھ کر چل پڑے‘ افغان وار لارڈز اس وقت تک لڑ لڑ کر تھک چکے تھے‘ طالبان آئے تو یہ چپ چاپ پیچھے ہٹنے لگے اور یوں 1996ء تک پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گیاجس کے بعد امریکا اور پاکستان نے سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سکھ بعدازاں عارضی ثابت ہوا‘ طالبان اپنے انقلاب کو واقعی حقیقت سمجھ بیٹھے تھے‘ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے ہمیں قدرت نے پوری دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے اور یہاں سے نیا تنازع شروع ہو گیا‘ وہ کیا تھا یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔