اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار محمد بلال غور ی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔میں مشرقی معاشرے کا ایک غیرت مند اور بااختیار مرد ہوں، مجھے ہر وہ خاتون دو ٹکے کی عورت محسوس ہوتی ہے جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے، میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ کوئی عورت میرے روبرو کسی موضوع پر بحث کرتے ہوئے اختلاف کرنے کی جسارت کرے۔ اگر اُلجھنے والی خاتون اچھی ڈیل ڈول
اور خوبصورت چہرے کی حامل ہو تو میں اس سے تکرار کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا اور اس کی باتوں پر غور کرنے کے بجائے اس کی آنکھوں اور زُلفوں کو تکتا رہتا ہوں اور زیر لب مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ بالفرض محال اگر تو تو میں میں کی نوبت آبھی جائے تو کوئی اور موضوع چھیڑ کر بات بدل دیتا ہوں، اگر خاتون میرے معیار پر پورا نہ اُترتی ہو اور اس کی طرح اس کی باتیں بھی نیزے کی طرح چبھتی ہوں تو میں اس کے دلائل کو رَد کرنے کے بجائے چیخنے چِلانے لگتا ہوں، اس کی ذات پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیتا ہوں۔ اس کے لباس اور انداز و اطوار پر تنقید کرتا ہوں، اس کے جسمانی خدوخال کو طنز و استہزا کا نشانہ بناتا ہوں، ذو معنی جملوں سے اسے ستانے کی کوشش کرتا ہوں، بازاری عورت یا دو ٹکے کی عورت کہہ کر رُلانے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے کردار پر کیچڑ اچھال کر دق کرتا ہوں اور یوں میرے مقابل کھڑے ہونے کی گستاخی کرنے والی عورت نشان عبرت بن کر گھر بیٹھ جاتی ہے۔میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ یہ عورتیں مارچ کرتی پھریں، مارچ تو فوجیں کرتی ہیں، ان خواتین کا مارچ کرنا چہ معنی دارد؟ اور پھر یہ نعروں کی بیہودگی، توبہ توبہ، میرا جسم میری مرضی، بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ جب کوئی عورت اس طرح کا واہیات جملہ منہ سے نکالتی ہے کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور غیرت کی باسی کڑھی میں اُبال آ جاتا ہے۔
یوں تو میں بذعم خود ایک مہذب، باوقار، شائستہ اور پڑھا لکھا مرد ہوں مگر یہ بات سن کر آپے سے باہر ہو جاتا ہوں اور اول فول بکنے لگتا ہوں، جب آزاد خیال خواتین اس طرح کی بات کرتی ہیں تو میں غیرت کی بندوق ایک طرف رکھ کر اسلام کی توپ اُٹھا لاتا ہوں اور خبردار کرتا ہوں کہ یہ اسلام سے کھلم کھلا بغاوت ہے، جسم تمہارا ضرور ہے مگر اس پر مرضی اللہ کی چلے گی۔ اب اللہ کی مرضی کیا ہے،
یہ تو میرے قبیلے کے غیرت مند مرد ہی طے کریں گے نا، اس لئے میری اس بات کا حقیقی مطلب و مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ’’تمہارا جسم، میری مرضی‘‘۔ ویسے کبھی کبھی تو یہ واہیات نعرہ مجھے اچھا بھی لگتا ہے، جب کوئی لڑکی کالج، دفتر یا بازار جانے کے لئے گھر سے نکلتی ہے، کسی بس اسٹینڈ پر، بس، گاڑی یا رکشے میں بیٹھی خواتین کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتا ہوں تو تب یہ نعرہ مجھے
بہت اچھا لگتا ہے اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ’’میری آنکھیں، میری مرضی‘‘۔ جب کسی بس یا وین میں کسی لڑکی کے پیچھے والی نشست پر بیٹھے ہوئے اپنا پاؤں آگے والی سیٹ پر رکھنےکی کوشش کرتا ہوں یا پھر دست درازی کرتا ہوں تب بھی میرا جسم میری مرضی والی بات مجھے اچھی لگتی ہے، جب میں کسی خاتون کو گالیاں دیتے ہوئے اپنی ذہنی غلاظت زبان پر لاتا ہوں تو تب یہ نعرہ مجھے بہت بھاتا ہے
اور میں کھی کھی کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ’’میری زبان میری مرضی‘‘۔ اسی طرح جب کسی بس اسٹاپ پر مجھے پکی عمر کا کوئی شخص موٹر سائیکل پر لفٹ دیتا ہے، میں اس کے پیچھے بیٹھتا ہوں اور وہ پیچھے سرکتا ہی چلا آتا ہے تو تب بھی مجھے یہ نعرہ بہت بھلا محسوس ہوتا ہے کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ تکلف برطرف، مجھے اعتراض اس نعرے پر نہیں، نعرے لگانے والیوں پر ہے۔ یہ نعرہ تو اپنی جگہ درست ہے
کہ جس کا جسم ہے اس پر اسی کی مرضی چلے گی، اس نعرے کی مخالفت کا مطلب تو یہ ہوگا کہ آپ اپنے جسم پر کسی اور کی اجارہ داری تسلیم کر لیں، جہاں تک اللہ کی مرضی کا تعلق ہے تو مرد و زن میں سے کوئی بھی اس سے انحراف کرتا ہے تو اس کا حساب کتاب روزِ قیامت ہوگا مگر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے پر اسلام کو بیچ میں اس لئے لایا جاتا ہے کہ نگوڑی عورت کو کیا حق کہ وہ اپنی مرضی چلائے؟
اسے اتنا حق کافی نہیں کہ وہ یہ طے کرے آج گھر میں کیا پکے گا؟ باقی اس نے کیا پہننا ہے؟ کہاں جانا ہے؟ کہاں تک تعلیم حاصل کرنی ہے؟ ملازمت کرنی ہے یا نہیں کرنی؟ اس کی شادی کب اور کہاں کرنی ہے؟ وراثت میں حصہ دینا ہے یا محض جہیز دیکر رخصت کر دینا ہے؟ یہ سب فیصلے کرنا اس کی کفالت کرنے والے مردوں کا استحقاق ہے اور عورت کو اپنی مرضی یا خواہش ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں۔
ویسے حقوق نسواں کی تحریک چلانے والی یہ خواتین کس قدر احمق اور بیوقوف ہیں، جس معاشرے میں شادی کے موقع پر کھانا مردوں کے پنڈال میں پہلے جاتا ہے اور پھر عورتوں کی باری آتی ہے، میں تو سر عام ان خواتین کو دو ٹکے کی عورت کہتا ہوں جو میری برابری کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے ’’دوٹکے کا مرد‘‘ کہہ کر دکھائے۔ کسی نے میرے منہ لگنے کی
کوشش کی تو خیبر سے کراچی اور بولان سے ملتان تک سب غیرت مند مردوں کا ضمیر جاگ جائے گا اور وہ یک زبان ہو کر مجھے اسلام اور پاکستان کا ہیرو بنا دیں گے۔ میں بدزبان اور منہ پھٹ ہوں تو کیا ہوا، معاشرے کے بیشتر مرد میرے ساتھ ہیں کیونکہ جو گالیاں وہ دل ہی دل میں دیتے ہیں میں بلاجھجک زبان پر لے آتا ہوں،یہی وجہ ہے کہ جب میں ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہوں تو یہ خاموش اکثریت میرے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔