بدھ‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

datetime 27  ‬‮نومبر‬‮  2025 |

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا‘ جنرل باجوہ اس وقت آرمی چیف تھے‘ جنرل باجوہ میں درجن بھر خوبیاں ہیں لیکن ایک خامی بھی تھی‘ یہ نرم دل ہیں‘ یہ خوف ناک فیصلہ لینے کے بعد اسے ’’ان ڈو‘‘ ضرور کرتے تھے مثلاً انہوں نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کیا لیکن پھر شریف فیملی کو رعایتیں بھی دیں‘ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو رگڑا لگایا لیکن پھر انہیں اقتدار میں بھی آنے دیا‘ یہ اگر نہ چاہتے تو اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت جاتی اور نہ پی ڈی ایم کی گورنمنٹ بنتی اور یہ جنرل باجوہ کی وہ خامی تھی جس کی وجہ سے ان سے اپنے اور پرائے دونوں ناراض ہو جاتے تھے‘ جنرل باجوہ نے عمران خان کی توقع کے برعکس ان کی حکومت نہیں بچائی‘ خان کو اس کا دکھ تھا اور اس نے کھلے عام انہیں میر جعفر اور میر صادق کہنا شروع کر دیا‘ اس پروپیگنڈے کے پیچھے جنرل فیض حمید تھے‘ یہ جانتے تھے جنرل باجوہ اور فوج اپنے امیج کے بارے میں بہت حساس ہیں‘ عمران خان اگر اسی طرح سڑکوں پر خطاب کرتے رہے اور ان کا سوشل میڈیا بریگیڈ پروپیگنڈا کرتا رہا تو جنرل باجوہ ’’ری تھنک‘‘ کریں گے اور اس کا جنرل فیض کو فائدہ ہوگا‘ عمران خان جنرل فیض کی سکیم کے مطابق سوشل میڈیا اور سڑکوں پر دبائو ڈالتے رہے اور جنرل باجوہ پر اس کا اثر ہوا اور انہوں نے جنرل ندیم انجم کے ذریعے میاں نواز شریف کو الیکشن کا آپشن دے دیا‘

میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا جائوں‘ میاں نواز شریف سے ساری ڈیل جنرل ندیم انجم نے کی تھی‘ 2024ء کے الیکشن اور فارم 47 حکومت کے ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ بھی یہی تھے‘ میاں نواز شریف کے ساتھ لندن پلان بھی انہوں نے بنایا تھا‘ میاں صاحب انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنانا چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ سوٹ نہیں کرتے تھے لہٰذا میاں نواز شریف کے فیصلے سے قبل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا اضافی عہدہ دے دیا گیا۔ میں جنرل فیض حمید کی طرف واپس آتا ہوں‘ جنرل باجوہ نے مئی 2022ء میں میاں صاحب کو شہباز شریف کے استعفے اور نئے الیکشن کے لیے راضی کر لیا تھا‘ عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں تیار ہو گئے‘ تاریخ طے ہو گئی‘ میاں شہباز شریف کے استعفے کی تقریر بھی تیار ہو گئی لیکن 22 مئی کو اچانک عمران خان نے 25 مئی کے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ یہ اعلان غیر متوقع تھا‘ تحقیقات کرائی گئیں تو پتا چلا یہ فیصلہ بشریٰ بی بی کا تھا‘ ان کا خیال تھا اگر اگست یا ستمبر میں الیکشن ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی کو زیادہ سیٹیں نہیں ملیں گی‘ بی بی کا خیال تھا عمران خان کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو گا لہٰذا ہمیں فوری طور پر الیکشن میں نہیں جانا چاہیے‘ میں نے اس زمانے میں جب جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کیں تو ان میں انہوں نے تسلیم کیا تھا بشریٰ بی کی زیادہ تر پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں‘ انہوں نے عمران خان کو کہا تھا آپ اپنی حکومت کو کسی نہ کسی طرح مارچ تک گھسیٹ لیں‘ مارچ کے بعد ان کے عروج کے ستارے طلوع ہو جائیں گے اور یہ ہوا‘ جنرل باجوہ نے یہ بھی تسلیم کیا ہمیں بشریٰ بی بی کے جادو کا شک تھا‘ ہم یہ سمجھتے تھے عمران خان بشریٰ بی بی کے جادو کے تابع ہیں‘ یہ ان کے علاوہ کسی کی بات پر عمل اور یقین نہیں کرتے‘ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا مجھے بھی ایک وقت میں یہ شک ہوا تھا خاتون نے مجھ پر جادو کر رکھا ہے‘ میرے دوستوں نے ایک عامل بھی میرے پاس بھجوایا تھا‘ اس نے کنفرم کیا آپ پر بڑا خوف ناک جادو ہے‘ وہ کچھ دن عمل بھی کرتا رہا‘ میں جنرل فیض حمید کی طرف دوبارہ واپس آتا ہوں۔

عمران خان نے بشریٰ بی بی کے مشورے پر 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ اسٹیبلشمنٹ اس وقت ملک میں کسی قسم کا بحران نہیں چاہتی تھی‘ یہ سارا رائتہ کیوں کہ جنرل فیض حمید نے پھیلایا تھا لہٰذا آرمی چیف نے انہیں ہی اسے سمیٹنے کا حکم دیا‘ یہ اس وقت کور کمانڈر پشاور تھے‘ یہ عمران خان کے پاس گئے لیکن عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے عمران خان پر پورا زور نہیں لگایا چناں چہ خان صاحب نے لانگ مارچ کی کال واپس لینے سے انکار کر دیا‘ دوسری طرف میاں نوز شریف بھی ڈٹ گئے‘ یہ شہباز شریف کے استعفے سے پیچھے ہٹ گئے یوں بحران میں اضافہ ہو گیا‘ 25مئی 2022ء کے لانگ مارچ سے قبل تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم لوگوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے جی ایچ کیو لایا گیا‘ ان میں پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی‘ پیپلز پارٹی سے راجہ پرویز اشرف اور ن لیگ سے احسن اقبال شامل تھے‘ جنرل باجوہ نے انہیں غصے سے پیغام دیا اگر اس لانگ مارچ میں کوئی لاش گری تو فوج سارے سسٹم کو پیک کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دے گی‘ یہ لوگ ڈر گئے‘ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو سمجھایا اور یوں یہ مارچ ایک دن جاری رہا اور خان صاحب نے رات کے وقت اسے کال آف کر دیا لیکن اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یہ سمجھ چکی تھی جنرل فیض حمید جب تک پشاور میں موجود ہیں اس وقت تک ملک میں امن نہیں آ سکے گا لہٰذا جنرل فیض حمید کو 8اگست 2022ء کو پشاور سے بہاولپور ٹرانسفر کر دیا گیا لیکن وہاں جا کر انہوں نے میجر عبدالرحمن کا بم پھاڑ دیا‘ پتا چلا یہ پورے سسٹم کو یرغمال بنا چکے ہیں‘ تمام شعبوں میں ان کے لوگ موجود ہیں اور یہ حکومت کو ہلنے نہیں دے رہے‘ یہ معاملہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے قریب پہنچ کر مزید بگڑ گیا‘ جنرل فیض حمید بہت مضبوط امیدوار تھے‘ یہ میاں نواز شریف تک پہنچ گئے‘ ان سے ماضی کی غلطیوں پر معافی مانگی اور انہیں وفاداری کا یقین دلانا شروع کر دیا لیکن میاں صاحب خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کے لیے تیار نہیں تھے‘

ان کی نظر میں جنرل عاصم منیر سب سے بہترین امیدوار تھے‘ اس کی درجن بھر دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ مزید دو وجوہات بھی تھیں‘ پہلی وجہ عمران خان نے انہیں 16جون 2019ء کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا تھا اور اس کی وجہ بشریٰ بی بی‘ فرح گوگی اور عثمان بزدار کی کرپشن کی مثلث تھی لہٰذا میاں نواز شریف کو اعتماد تھا یہ عمران خان کے دبائو میں نہیں آئیں گے اور دوسری وجہ جنرل فیض حمید تھے‘ جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی کے ذریعے جنرل عاصم منیر کو ہٹوایا تھا چناں چہ یہ عمران خان کے حق میں لگائی گئی ساری فیلڈنگ اکھاڑ سکتے تھے بہرحال قصہ مختصر جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن گئے اور جنرل فیض حمید نے نومبر 2022ء میں ریٹائرمنٹ لے لی‘ یہ دوڑ سے باہر ہو گئے‘ یہ کھیل یہاں پر ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن جنرل فیض انتقام کی آگ میں جلنے لگے‘ یہ شریف فیملی اور آصف علی زرداری کو اقتدار اور جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف کے دفتر میں برداشت نہیں کر پا رہے تھے‘ یہ مسلسل عمران خان کے ساتھ رابطے میں تھے بلکہ یہ ان کے چیف ایڈوائزر بن چکے تھے‘ انہوں نے عمران خان کو یہ مشورہ تک دے دیا آپ سپریم کورٹ میں جنرل عاصم منیر کی تقرری کو چیلنج کر دیں‘ ان کا دعویٰ تھا عمران خان اگر یہ قدم اٹھائیں گے تو جج ان کو سپورٹ کریں گے‘ یہ آرمی چیف کی تقرری کو غلط قرار دے دیں گے لیکن عمران خان کے ساتھیوں نے یہ مشورہ نہ مانا‘ ان کی لیگل ٹیم بھی اڑ گئی‘

ان کا خیال تھا ہم اس طرح اپنی جنگ بڑھا لیں گے‘ ان کا یہ خیال بھی تھا ججز یہ بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے‘ صدر عارف علوی بھی اس تجویز کے مخالف تھے‘ ان کا خیال تھا ہمیں فوج کی نئی قیادت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور تعلقات بہتر بنا کر آگے بڑھنا چاہیے‘ آخر میں بشریٰ بی بی نے بھی اس مشورے کی مخالفت کر دی اور یوں یہ آپشن ختم ہو گیا تاہم جنرل فیض حمید عمران خان کو احتجاج کے نئے نئے طریقے بتاتے رہے‘ آئی ایم ایف پر دبائو ڈالنے کا مشورہ بھی جنرل فیض حمید کی ذہانت کا کمال تھا‘ آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مشورہ بھی انہوں نے دیا تھا‘ یہ مختلف بزنس مینوں سے پارٹی کے لیے فنڈنگ بھی کراتے تھے‘ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کے بعد جنرل باجوہ نے دونوں کے درمیان صلح کرا دی تھی‘ ان کا کہنا تھا فوج میں شامل ہونے والا ہر آفیسر آرمی چیف بننا چاہتا ہے‘ جنرل فیض بھی خواہش مند تھا‘ اس نے کوشش کی لیکن یہ ناکام ہو گیا لیکن اب کیوں کہ فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا تلخیاں ختم ہو جانی چاہییں‘ میرے ذرائع کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کھلے دل سے جنرل فیض کو معاف کر دیا تھا‘ جنرل فیض نے ان کی تقرری روکنے کے لیے ان کے خلاف فرقے تک کا پروپیگنڈا کیا تھا‘ سعودی سفارت خانے کو بھی گمراہ کیا گیا تھا‘ جنرل عاصم نے یہ زیادتی بھی معاف کر دی لیکن جنرل فیض باز نہ آیا‘ یہ مسلسل غلطیاں کرتا چلا گیا۔

فوج میں ایجوٹینٹ جنرل (اے جی) کا ادارہ بہت مضبوط ہوتا ہے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات اور پنشن بھی اسی ادارے سے ریلیز ہوتی ہے‘ اس کا سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے‘ آج کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اس زمانے میں اے جی تھے‘ ان کے دور میں بھی جنرل فیض حمید کو بلا کر سمجھایا گیا لیکن یہ باز نہیں آئے‘ یہ مسلسل عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ رابطے میں رہے‘ پی ٹی آئی کی قیادت آج تسلیم کرتی ہے 9 مئی کے اصل آرکی ٹیکٹ جنرل فیض حمید تھے‘ یہ جانتے تھے فوج کا کون سا دفتر کس جگہ ہے‘ لاہور کینٹ میں ایک اہم بریگیڈیئر ہیڈکوارٹر ہے‘ یہ بی آر بی نہر اور لاہور کے مضافات کی حفاظت کرتا ہے‘ جنرل باجوہ اس کے کمانڈر رہے ہیں‘ فوج کی روایت ہے اگر کسی بریگیڈ کا کمانڈر بعدازاں آرمی چیف بن جائے تو اس کی کرسی بریگیڈ ہیڈکوارٹر میں رکھ دی جاتی ہے‘ جنرل باجوہ کی کرسی اس ہیڈکوارٹر میں رکھی تھی‘ یہ حقیقت فوج کے اندر بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن 9مئی کے دن احتجاجی اس بریگیڈ ہیڈکوارٹر پہنچے اور جنرل باجوہ کی وہ کرسی بھی توڑدی‘ آپ یہاں یہ بھی نوٹ کیجیے گا کور کمانڈر ہائوس لاہور اور اس بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے درمیان نصف درجن یونٹس اور ہیڈکوارٹرز تھے‘ احتجاجی ان کے سامنے سے گزر کر وہاں پہنچے اور صرف اسی پر حملہ کیا‘ درمیان میں کسی گیٹ پر حملہ نہیں کیا گیا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ صرف اسی ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے۔
عمران خان نے 9مئی کے دوران فیض حمید کا نام اعظم سواتی رکھا ہوا تھا‘ یہ جب بھی اعظم سواتی کہتے تھے تو اس کا مطلب جنرل فیض ہوتا تھا (جاری ہے)۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)


عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…