اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک فنکشن تھا‘ یہ شادی کرنل ریٹائرڈ مشاق کے صاحب زادے کی تھی‘ کرنل صاحب جنرل پرویز مشرف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے پرانے کولیگ تھے‘ ان کے بچے بہت لائق نکلے‘ انہوں نے روٹس کے نام سے تعلیمی ادارے بنائے اور کمال کر دیا‘ جنرل کیانی کے بچے بھی روٹس سکول میں پڑھتے رہے تھے چناں چہ 2008ء میں جب کرنل مشتاق کے صاحب زادے ولید مشتاق کی شادی تھی تو صدر جنرل پرویز مشرف بھی اپنی بیگم کے ساتھ شریک ہوئے اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی‘ فوج کی کمانڈ 28 نومبر2007ء کو تبدیل ہوئی تھی‘ جنرل پرویز مشرف یونیفارم میں صدر تھے‘ امریکا کو نائین الیون کے بعد ان کی ضرورت تھی چناں چہ دنیا نے انہیں یونیفارم میں صدر تسلیم کر لیا تھا‘ یہ اس دور کے واحد ڈکٹیٹر تھے جنہیں وائیٹ ہائوس میں ریڈ کارپٹ ریسیپشن دیا جاتا تھا‘ جنرل مشرف نے 2005ء میں امریکی کانگریس سے بھی خطاب کیا تھا‘
امریکا بنیادی طور پر سسیلین مافیا کی طرح کام کرتا ہے اسے جب ضرورت پڑتی ہے تو یہ چور کو بھی پوپ مان لیتا ہے لیکن جب ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو امریکا پوپ کو بھی کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے‘ جنرل پرویز مشرف بھی 2007ء تک امریکا کے لیے غیر ضروری ہو گئے تھے چناں چہ امریکا نے انہیں شیلف میں رکھ دیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو میدان میں لے آیا‘ محترمہ اگر شہید نہ ہوتیں تو وہ یقینا تیسری مرتبہ وزیراعظم ہوتیں اور انہیں امریکا کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی‘ بہرحال قصہ مختصر 2007ء کے آخر میں بڑی تبدیلیاں آئیں‘ پہلی بڑی تبدیلی جنرل مشرف کے وردی کے زمانے کا خاتمہ تھا‘ جنرل کیانی اس سے قبل ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ امریکا نے افغانستان سے طالبان حکومت ختم کی تھی اور یہ باقاعدہ کابل میں آ کر بیٹھ گیا تھا‘ اس سارے کام میں ہمارے خفیہ اداروں کا بہت عمل دخل تھا‘ جنرل کیانی سی آئی اے اور پینٹا گان کے ساتھ کام کرتے رہے تھے‘ امریکا جنرل کیانی کی ذہانت اور کارکردگی سے متاثر ہو گیا اور اس نے جنرل مشرف کو یونیفارم اتارنے اور فوج کی کمان جنرل کیانی کے حوالے کرنے پر رضامند کر لیا جس کے بعد جنرل کیانی پاک فوج کے چیف بن گئے‘ یہ چیف بننے سے قبل جنرل مشرف کے بہت قریب تھے‘ صدر انہیں کیانی کہہ کر مخاطب ہوتے تھے اور کتاب بینی اور کثرت سگریٹ نوشی کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے رہتے تھے‘ جنرل کیانی بھی وفاداری اور تابعداری میں اکثر اوقات جنرل ضیاء الحق کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے‘ بہرحال کمانڈ تبدیل ہو گئی‘ جنرل مشرف کی یونیفارم اتر گئی اور طاقت کی چھڑی جنرل کیانی کے ہاتھ میں آ گئی‘ ان حالات میں روٹس فیملی کی شادی کا وقت آ گیا اور جنرل مشرف اور جنرل کیانی دونوں نے کرنل مشتاق کا دعوت نامہ قبول کر لیا۔
جنرل کیانی جنرل پرویز مشرف سے پہلے ہال میں پہنچ گئے اور میزبان کرنل مشتاق کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ ان کے پرانے کورس میٹس اور کولیگز بھی آئے اور ساتھ گپ شپ شروع کر دی‘ آرمی چیف ان کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پیتے رہے‘ صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی بیگم اس دوران ہال میں داخل ہو گئے‘ میزبان صدر کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے جب کہ جنرل کیانی خاموشی سے اپنی جگہ کھڑے ہو کر سگریٹ پیتے رہے‘ جنرل مشرف ہال میں داخل ہوتے ہی سیدھے جنرل کیانی کی طرف آئے‘ دونوں کی ملاقات ہوئی‘ حال احوال پوچھا گیا اور اس کے بعد جنرل مشرف نے جنرل کیانی کو اکٹھے سٹیج پر چلنے کی دعوت دے دی لیکن جنرل کیانی نے مسکرا کر معذرت کر لی‘ ان کا کہنا تھا ’’سر آپ سٹیج پر جائیں‘ تصویریں وغیرہ بنوائیں‘ میں اپنے دوستوں کی کمپنی انجوائے کرنا چاہتا ہوں‘‘ جنرل مشرف اس جواب کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور وہ مڑ کر سیدھے سٹیج پر چلے گئے‘ اس کے بعد کی تین روایتیں ہیں‘ پہلی روایت میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری اور ملک کے نامور بیوروکریٹ سعید مہدی سے منسوب ہے‘
یہ اس وقت وہاں موجود تھے‘ ان کے بقول جنرل مشرف نے سٹیج پر چند تصویریں بنوائیں اور پھر میزبان کے روکنے کے باوجود ہال سے نکل گئے‘ وہ جنرل کیانی کے رویے سے دل برداشتہ تھے‘ سعید مہدی نے یہ واقعہ مجھے خود سنایا تھا اور یہ ان کی کتاب میں بھی موجود ہے (سعید مہدی صاحب کی کتاب عن قریب لانچ ہو رہی ہے) دوسری روایت وہاں موجود ایک اہم شخصیت کی ہے‘ اس کے بقول جنرل کیانی نے سگریٹ مکمل کیا‘ سٹیج پر دولہے کے ساتھ بیٹھے صدر کو دیکھا‘ مسکرائے اور ہال سے نکل گئے‘ جنرل مشرف انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے‘ ان کا خیال تھا جنرل کیانی کم از کم ان سے مل کر جائیں گے لیکن آرمی چیف انہیں ملے بغیر نکل گئے اور تیسری روایت پچھلی دونوں روایات سے زیادہ افسوس ناک ہے‘ اس کے مطابق جنرل مشرف کے سٹاف کو جنرل کیانی کے سٹاف نے بتایا آرمی چیف کی اہم میٹنگ ہے‘ آپ صدر کو سٹیج سے اتار لیں تاکہ چیف دولہے سے مل کر واپس جا سکیں‘ سٹاف نے جنرل مشرف کے کان میں سرگوشی کی‘ صدر ڈسٹرب ہو گئے‘ وہ سٹیج سے اترے اور فوری طور پر ہال سے نکل گئے‘ انہوں نے جاتے وقت جنرل کیانی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس زمانے میں جب یہ خبر شائع ہوئی تو ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا پروٹوکول کے مطابق ملک کی دو مقتدرہ شخصیات ایک وقت میں کسی ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتیں‘ جنرل مشرف اور آرمی چیف دونوں اکٹھے شادی کی تقریب میں پہنچ گئے تھے لہٰذا ان میں سے کسی ایک کو وہاں سے ہٹانا ضروری تھا اور یہ بندوبست اس وجہ سے کیا گیا تھا‘ صدر آرمی چیف کے باس ہیں‘ یہ تمام آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر ہوتے ہیں لہٰذا آرمی چیف ان سے گستاخی کیسے کر سکتے ہیں‘ ذرائع کا استدلال درست ہو سکتا تھا لیکن عینی شاہدین نے کوئی اور منظر دیکھا تھا اور وہ منظر ان کے دل میں بیٹھ گیا تھا‘ بقول سعید مہدی صاحب ’’یہ ہوتا ہے آرمی چیف‘‘۔
ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں اس میں طاقت کا اصل محور آرمی چیف ہوتا ہے‘ یہ اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ یہ اکثر اوقات اپنے باسز کا فیصلہ بھی خود کرتا ہے اور آخر میں باسز سے جان بھی یہی چھڑاتا ہے‘ میں اس سلسلے میں تین مثالیں پیش کروں گا‘ 1971ء کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم بن کر ابھرے‘ 1973ء کا آئین بھی انہوں نے اپنی منشاء کے مطابق تخلیق کیا تھا‘ وہ پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک کے آخری کمانڈر انچیف جنرل گل حسن اور ائیرفورس چیف عبدالرحیم خان دونوں کو بیک وقت گورنر ہائوس لاہور میں محبوس کر کے نوکری سے برطرف کیا اور پھر انہیں سفیر بنا کر زبردستی باہر بھجوا دیا‘ میاں نواز شریف پوری زندگی ذوالفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کرتے رہے‘ یہ اس کوشش میں تین مرتبہ حکومت سے فارغ ہوئے لیکن کام یاب نہیں ہو سکے‘ اس ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو سنیارٹی لسٹ میں آٹھویں نمبر سے اٹھا کر آرمی چیف بنا دیا تھا‘ بھٹو صاحب نے یہ فیصلہ ملتان میں کیا تھا‘ جنرل ضیاء الحق اس وقت کور کمانڈر ملتان تھے‘ بھٹو صاحب ملتان کے دورے پر آئے اور نواب صادق قریشی کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے‘ جنرل ضیاء الحق نے کور کمانڈر کی حیثیت سے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ نواب صادق کی کوٹھی تک گئے‘ بھٹو صاحب جلسے کے لیے نکل رہے تھے‘ انہوں نے جاتے جاتے جنرل ضیاء الحق سے کہا‘ جنرل آپ فلاں وقت پر آ جائیں میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں‘
بھٹو صاحب یہ کہہ کر چلے گئے اور جب وہ آٹھ دس گھنٹے بعد واپس آئے تو جنرل ضیاء الحق سٹنگ روم میں عین اسی جگہ بیٹھے تھے جہاں بھٹو صاحب انہیں چھوڑ کر گئے تھے‘ بھٹو صاحب انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا ’’جنرل آپ گئے نہیں؟‘‘ جنرل ضیاء الحق نے ادب سے جواب دیا‘ سر آپ نے یہ نہیں بتایا تھا میں صبح کے پانچ بجے آئوں یا شام کے لہٰذا میں یہیں بیٹھ کر آپ کا انتظار کرتا رہا‘ بھٹو صاحب اس تابعداری سے بہت متاثر ہوئے اور وہیں کھڑے کھڑے انہیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کے اس قدر تابعدار تھے کہ یہ انہیں دیکھ کر جلتا ہوا سگریٹ پتلون کی جیب میں ڈال لیتے تھے‘ جیب جل جاتی تھی‘ اس سے دھواں نکلتا رہتا تھا لیکن وہ بھٹو صاحب کے سامنے سگریٹ بجھانے کی گستاخی نہیں کرتے تھے لیکن یہی جنرل ضیاء الحق جب آرمی چیف بن گئے تو انہوں نے نہ صرف بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا بلکہ ان پر قتل کا مقدمہ بنوایا اور انہیں پھانسی پر لٹکا دیا‘ دوسری مثال 1973ء کے آئین کے تحت وزیراعظم آرمی چیف کا تقرر کرتا ہے‘ جنرل ضیاء الحق 1985ء میں صدر کے ساتھ ساتھ آرمی چیف بھی تھے‘ انہوں نے خود کو آرمی چیف لگوانے کے لیے محمد خان جونیجو کو اپنا باس یعنی وزیراعظم بنوایالیکن جب محمد خان جونیجو نے واقعی ان کا باس بننے کی غلطی کی تو جنرل ضیاء نے بطور صدر ان کی چھٹی کر دی‘ تیسری مثال جنرل باجوہ ہیں‘ 2018ء کے الیکشن جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی قیادت میں ہوئے اور دونوں نے عمران خان کو اپنا باس منتخب کرایا اور پھریہ 2022ء تک ان کی حکومت چلاتے رہے‘ عمران خان بعدازاں جنرل باجوہ کی ناراضی کی وجہ سے فارغ ہو گئے‘ ہم اگر تاریخ میں مزید پیچھے چلے جائیں تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کو آرمی چیف بنایا اور جنرل یحییٰ خان نے بعدازاں اپنے باس صدر ایوب خان ہی کو فارغ کر دیا‘ اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کے قریب ایوب خان کا گھر ہوتا تھا‘ جنرل یحییٰ خان صدر بننے کے بعد پورے پروٹوکول کے ساتھ وہاں سے گزرتے تھے‘ یہ جب صدر ایوب خان کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو انہیں برا لگتا تھا چناں چہ انہوں نے اپنے سٹاف کے ذریعے ایوب خان کو پیغام بھجوایا آپ اسلام آباد میں اپنا وقت کیوں برباد کر رہے ہیں‘ آپ ہری پور میں اپنے گائوں جائیں اور وہاں آرام کریں‘ صدر ایوب کے لیے اشارہ کافی تھا لہٰذا وہ اسلام آباد سے ریحانہ اپنے گائوں چلے گئے۔
میں آج کل پی ٹی آئی کے لیڈرز کی گفتگو سن رہا ہوں‘ ان کے وی لاگ بھی دیکھتا ہوں‘ یہ ان میں دعویٰ کر رہے ہیں حکومت نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا لہٰذا یہ عملاً ریٹائر ہو چکے ہیں‘ آپ اگر آئین کی 26ویں اور 27 ویں ترمیم پڑھیں تو اس کے مطابق آرمی چیف کو اب نوٹی فکیشن کی ضرورت نہیں رہی‘ ان کی مدت میں خودبخود اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود دال میں بہرحال کچھ نہ کچھ کالا موجود ہے‘ صدر زرداری کا اچانک دوبئی چلے جانا‘ پھر میاں نواز شریف کا لندن جانا اور آخر میں وزیراعظم کا بھی لندن پہنچ جانا اور وہاں اپنا دورہ لمبا کر دینا یہ ’’حرکتیں‘‘ نارمل نہیں ہیں مگر اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں چیف آف ڈیفنس فورسز کا نوٹی فکیشن رک رہا ہے یا پھر اس نوٹی فکیشن کے عوض کوئی سودے بازی ہو رہی ہے‘ کچھ نہیں ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ چوں کریں یا چیں کریں نوٹی فکیشن تو بہرحال انہیں جاری کرنا ہی پڑے گا‘ یہ نہیں کریں گے تو کوئی اور کر دے گا مگر یہ ہو کر رہے گا‘ ہماری تاریخ بہرحال یہی بتاتی ہے جس نوٹی فکیشن کو فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف نہیں روک سکے اسے میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کرنہیں روک سکیں گے‘ ہوگا بہرحال وہی جو بڑی سرکار چاہے گی باقی سب ڈھکوسلا ہے۔















































