عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا چاہتے تھے‘ جنرل باجوہ اور فیض حمید کو مشورے کے لیے بلایاگیا‘ جنرل فیض حمید خاموش بیٹھے رہے تاہم جنرل باجوہ نے مشورہ دیا ’’یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے اگر میاں نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو گیا تو یہ دوسرے بھٹو بن جائیں گے‘ آپ اگر یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں تو بے شک انکار کر دیں‘‘ یہ معاملہ بعدازاں کابینہ میں ڈسکس ہوا‘ فیصل واوڈا اور مراد سعید نے کھل کر مخالفت کی‘ فیصل واوڈا کا کہنا تھا ’’اگر یہ جیل میں مرتا ہے تو مرنے دیں‘‘ مراد سعید نے بھی لمبی چوڑی تقریر جھاڑ دی تاہم عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان کو بلایا اور معاملہ ان پر چھوڑ دیا‘ جنرل فیض ڈر گئے‘ ان کا خدشہ تھا ڈاکٹر فیصل کہیں دوبارہ میڈیکل رپورٹس کا حکم نہ دے دیں‘ جنرل فیض جادوگر تھے‘ یہ ناممکن کو ممکن بنانے کے ایکسپرٹ تھے‘ انہوں نے اپنے دو آفیسرز لگائے‘ یہ ڈاکٹر فیصل سے ملے اور انہیں مشورہ دیا آپ جو بھی فیصلہ کریں میاں نواز شریف کی موجودہ میڈیکل رپورٹس کے معائنے کے بعد کریں‘
آپ نے اگر نئے ٹیسٹ کر لیے یا سیمپلز شوکت خانم کی لیب بھجوائے اور کل اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو آپ اور شوکت خانم لیب پر کیس بن جائے گا اور اسے بھگتنا آسان نہیں ہو گا‘ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کیس کی مثال بھی دی گئی‘ انہیں بتایا گیا 27 دسمبر 2007ء کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ ہوا تو انہیں سنٹرل ہسپتال راولپنڈی لے جایا گیا تھا جن ڈاکٹرز نے اس وقت ان کا مشاہدہ کیا تھا وہ مدت تک کیس اور انکوائریاں بھگتتے رہے‘ ان کی جان بھی ہم نے چھڑائی تھی ورنہ ان کے خلاف غفلت یا قتل کا مقدمہ بھی بن سکتا تھا‘ آپ اگر سستی کریں گے تو کل کلاں میاں نواز شریف کی موت آپ کے گلے پڑ جائے گی‘ فیصلہ بہر حال آپ نے کرنا ہے تاہم ہمارا مشورہ ہے آپ پراسیس کو لمبا نہ کریں‘ میاں صاحب کا مشاہدہ کریں‘ رپورٹس دیکھیں اور فیصلہ کریں‘ ڈاکٹر فیصل سمجھ دار ہیں‘یہ سمجھ گئے‘ انہوں نے رپورٹس کا مطالعہ کیا اور عمران خان کو بتا دیا اس کنڈیشن میں اگر مریض چل جائے تو اسے برسوں کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر طبیعت بگڑ جائے تو یہ ہسپتال بھی نہیں پہنچ سکتا‘ اس دوران جنرل فیض حمید بشریٰ بی بی کو بھی قائل کر چکے تھے‘ عمران خان نے مرشد سے مشورہ کیا اور مرشد نے مراقبے کے بعد نواز شریف کو باہر بھجوانے کی اجازت دے دی اور یوں 19 نومبر 2019ء کو میاں نواز شریف صاحب علاج کے لیے لندن چلے گئے اور پھر9اپریل 2022ء کو عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد واپس آئے‘ میاں صاحب کا جانا ڈیل کا نتیجہ تھا اور یہ ڈیل جج ارشد ملک کی دوسری ٹیپس کے بدلے ہوئی تھی‘ جج شروع میں احساس ندامت اور بعدازاں بدنامی اور نوکری سے بے دخلی کی وجہ سے شدید مایوسی اور ڈپریشن میں چلاگیا اور4دسمبر 2020ء کو دل کے دورے کی وجہ سے انتقال کر گیا لیکن اس کی موت کو کورونا کے کھاتے میں ڈال دیا گیا جب کہ اصل ’’کاز آف ڈیتھ‘‘ شرمندگی‘ بے عزتی ‘ دھوکا اور وہ غیراخلاقی کلپ تھا جو جنرل فیض حمید کے دفتر میں اسے دکھایا گیا تھا۔
جنرل فیض حمید اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود بڑے کاری گر شخص ہیں‘ یہ مذاکرات کے ایکسپرٹ ہیں‘ سامنے موجود شخص کو شیشے میں اتارنا ان پر بس ہے‘ ان کے بارے میں مشہور تھا یہ خواجہ سرا کو بھی اولاد نرینہ دے کر واپس بھجواتے ہیں‘ آپ ان سے ملتے تھے تو یہ آپ کو خوش اور پرامید کر کے بھجواتے تھے لیکن آپ کے رخصت ہوتے ہی آپ کی ساری جڑیں کٹ چکی ہوتی تھیں‘ بے انتہا محنتی اور نتیجہ دینے والے شخص تھے‘ دو تین گھنٹوں سے زیادہ سوتے نہیں تھے اور جس کام کے پیچھے لگ جاتے یا لگا دیے جاتے تھے یہ وہ کر کے رہتے تھے‘ یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ لیکن ان میں تین خوف ناک خامیاں تھیں اور یہ خامیاں ان کی تمام خوبیوں کونگل گئیں‘ ان کی پہلی خامی اوور امبیشن (Over Ambition) تھی‘ یہ ہر صورت آرمی چیف بننا چاہتے تھے اور اس کے لیے یہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے‘ ان کا منصوبہ تھا یہ بشریٰ بی بی کے ذریعے آرمی چیف بنیں‘ عمران خان کو دوسری بار وزیراعظم بنوائیں‘ ایکسٹینشن لیں‘ آئین تبدیل کر کے صدارتی نظام لے کر آئیں‘ چھ سال آرمی چیف رہنے کے بعد حکومت کا تختہ الٹیں‘ عمران خان کو شریف اور زرداری فیملی کی طرح زمین میں گاڑھ دیں اور پھر روسی صدر ولادی میر پیوٹن یا چینی صدر شی کی طرح تاحیات صدر بن جائیں‘ یہ منصوبہ بہت کلیئر تھا اوریہ اس کی تکمیل کے لیے تمام اہم پوزیشنز پر اپنے لوگ تعینات کرا چکے تھے حتیٰ کہ یہ پی ٹی آئی پر بھی عملاً قابض ہو چکے تھے‘ بشریٰ بی بی بھی ان کے مکمل قبضے میں تھیں‘ انہوں نے ان کی گفتگو بھی ریکارڈ کر رکھی تھی اور ان کے پاس ویڈیو ریکارڈنگز کا پورا خزانہ بھی موجود تھا‘ عدلیہ مکمل طور پر ان کی جیب میں تھی‘ ججزان کے اشارے کے منتظر رہتے تھے‘
یہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے غیر مطمئن تھے چناں چہ مئی 2019ء میں ان کے خلاف ریفرنس تیار کر کے اپنی طرف سے انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا تھا‘ قاضی صاحب کے خلاف ریفرنس جنرل فیض حمید نے خود ٹائپ کرایا تھا اور بشریٰ بی بی کے ذریعے اس کی منظوری بھی عمران خان سے کرائی گئی تھی‘ صدر عارف علوی ریفرنس کے خلاف تھے لیکن پھر عمران خان کا حکم آیا اور صدر نے اس پر چپ چاپ دستخط کر دیے‘ ان کی دوسری خامی مالیاتی بددیانتی تھی‘ یہ بہت جلد بزنس مینوں اور ٹھیکے داروں کے ہتھے چڑھ گئے اور مال بنانا شروع کر دیا‘ یہ کے پی اور پنجاب میں مختلف ٹھیکے داروں کو ٹھیکے لے کر دیتے تھے اور اس کا دس فیصد ان کے بھتیجے اور بھانجے وصول کرتے تھے‘ محمود خان اور عثمان بزدار کے دور کے زیادہ تر منصوبوں میں رقمیں وصول کی گئیں حتیٰ کہ عمران خان کے دور میں میانوالی میں 200 بیڈز کا مدر اینڈ چائلڈ کیئر ہسپتال اور نرسنگ کالج بناتھا‘ اس میں بھی فیض حمید کے خاندان کے ایک نوجوان نے دس فیصد وصول کیا تھا‘ چکوال میں جنرل فیض کے گھر کی تعمیر بھی ایک ہوش ربا داستان ہے‘ میں اس کی تفصیل کسی اور موقعے پر لکھوں گا سردست صرف ایک حقیقت بتاتا چلوں‘ یہ گھر جب مکمل ہوا تھا تو جنرل فیض حمید نے اپنے تمام کولیگز کو دعوت دی‘ ان میں جنرل باجوہ اور شاید جنرل عاصم منیر بھی شامل تھے‘ جنرل باجوہ نے گھر دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور صاف کہا تھا ’’فیض تمہیں یہ گھٹیا حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ ٹاپ سٹی کا ایشو بھی جنرل فیض کی اس ہوس زر کا نتیجہ تھا‘ ہائوسنگ سکیم کی زمین متنازع تھی‘ یہ کسی بیوہ عورت کی ملکیت تھی‘ اس پر کنور معیز قابض ہوگیا‘
وہ خاتون بے چاری مختلف ججوں اور وزیروں کے پاس دھکے کھاتی رہی آخر میں اسے جنرل فیض حمید کا بھائی نجف حمید مل گیا‘ دونوں بھائیوں کواپارچیونٹی نظر آئی چناں چہ جنرل فیض حمید کے حکم پر رینجرز نے کنور معیز کے گھر پر ریڈ کر دی‘ اس معاملے میں جنرل فیض حمید نے جنرل باجوہ سے بھی جھوٹ بولا تھا‘ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ٹاپ سٹی کے ملازم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) حامد بشیر آرمی چیف کے پاس چلے گئے‘ بریگیڈیئر حامد بشیر جنرل باجوہ کے کورس میٹ تھے‘ انہوں نے جنرل باجوہ کو حقیقت بتائی‘ آرمی چیف نے ایم آئی کے ذریعے تحقیقات کرائیںتو معاملہ کھل گیا لیکن جنرل فیض اس وقت تک سسٹم کی ضرورت بن چکے تھے لہٰذا ٹاپ سٹی سکینڈل کو دبا دیا گیا لیکن جوں ہی وقت بدلا تو یہ جنرل فیض کے گلے کا طوق بن گیا اور جنرل فیض حمید کی تیسری غلطی سیاست دانوں اور ججوں کے ساتھ بدتمیزی تھی‘ ہم ججوں اور سیاست دانوں پر لاکھ اعتراض کر سکتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود معزز لوگ ہوتے ہیں‘ آپ جب ان کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں تو کبھی نہ کبھی آپ کو اس کا خمیازہ بھگتا پڑتا ہے اور جنرل فیض حمید کے معاملے میں بھی یہی ہوا‘ نواز شریف کو13جولائی 2018ء کو لندن سے واپسی پر ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا‘8اگست 2019ء کو مریم نواز میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل گئیں‘ انہیں وہاں والد اور چھوٹی بیٹی ماہ نور صفدرکے سامنے گرفتار کیا اور یہ منظر جنرل فیض حمید نے کیمروں کے ذریعے خود دیکھا‘
مریم نواز کے جیل‘ سیل اور واش روم میں کیمرے لگے تھے اور یہ کام عمران خان اور جنرل فیض دونوں نے کیا تھا‘ عمران خان خواجہ آصف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنا چاہتا تھا‘ ایف آئی اے کے ڈی جی بشیر میمن نہیں مانے تو جنرل فیض نے انہیں نیب کے ذریعے گرفتار کرا کر جیل پھینکوا دیا‘ رانا ثناء اللہ پر 15 کلو ہیروئن ڈالنے کی ذمہ داری بھی ایف آئی اے اور پولیس کو دی گئی جب انہوں نے انکار کر دیا تو جنرل فیض نے یہ ذمہ داری قبول کی اور پھر ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عارف ملک کے ذریعے رانا ثناء اللہ کو موٹروے پر گرفتار کر لیا گیا‘ یہ غیرقانونی حکم تھا‘ اس کی وجہ سے ڈی جی اے این ایف کا کیریئر ختم ہو گیا‘ شاہد خاقان عباسی کو بھی جھوٹے الزام میں جولائی 2019ء میں موٹروے سے گرفتار کیا گیا اور جیل میں فرش پر لٹایا گیا‘ پندرہ پندرہ دن ان کی وکیل سے ملاقات نہیں کرائی جاتی تھی اور عدالت میں ان کی پیشی نہیں ہوتی تھی‘ اس کے پیچھے دو لوگوں کا ہاتھ تھا اور پہلا ہاتھ جنرل فیض تھے‘ ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو پارک میں واک کرتے ہوئے گولی مروا دی گئی جب صحافیوں نے جنرل باجوہ کے سامنے اعتراض کیا تو جنرل فیض نے اسے ’’غیرنصابی سرگرمیوں‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا جب کہ اصل ایشو اس وقت شروع ہواتھا جب ابصار عالم چیئرمین پیمرا تھے اور انہیں جنرل فیض نے دو ٹیلی ویژن چینلز کو ’’فیور‘‘ دینے کا حکم دیا تھا اور ابصار عالم نے انکار کر دیا تھا‘ جنرل فیض کو ان کی ٹویٹس پر بھی اعتراض تھا (جاری ہے)۔

















































