بدھ‬‮ ، 03 دسمبر‬‮ 2025 

چیف آف ڈیفنس فورسز

datetime 4  دسمبر‬‮  2025 |

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا تھا‘ حمود الرحمن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا‘ وہ بنگالی تھے اور اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان تھے‘ بھٹو صاحب کے پاس کمیشن کے لیے دو آپشن تھے‘ یہ سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے کمیشن بناتے یا پھر فوج کی شکست کو موضوع بناتے‘ بھٹو صاحب نے دوسرا آپشن لیا اور انہوں نے حمود الرحمن کمیشن کو ’’فوج نے ڈھاکہ میں سرینڈر کیوں کیا‘‘ تک محدود کر دیا‘ کمیشن نے پانچ ماہ اور12دنوں کی تحقیقات کے بعد جن وجوہات کا تعین کیا ان میں ایک وجہ فوج کے مختلف حصوں کے درمیان کمیونی کیشن گیپ اور کوآرڈی نیشن کی کمی تھا مثلاً کمیشن کو نیول چیف ایڈمرل مظفرحسن نے بتایا‘ مجھے جنگ کی اطلاع ریڈیو پاکستان سے ملی تھی‘ مجھے کسی نے جنگ کے بارے میں اعتماد میں ہی نہیں لیا تھا‘ ائیرفورس کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی تھی لہٰذا بری فوج اکیلی لڑتی رہی اور یہ ہار گئی‘ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس رپورٹ کے مطالعے کے بعد افواج پاکستان کے لیے ایک ایسا ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا جو فوج کے مختلف حصوں کے درمیان کمیونی کیشن اور کوآرڈی نیشن کر سکے اور جنگ کی صورت میں تمام افواج کی کمانڈ بھی کرے‘ اس زمانے میں جنرل ٹکا خان آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل محمد شریف آرمی کے سینئر ترین جنرل تھے‘

بھٹو صاحب نے جنرل شریف کو نئے ادارے کے قوانین اور ضابطے بنانے کی ذمہ داری دے دی‘ جنرل محمد شریف مستقبل کے ممکنہ آرمی چیف تھے‘ بھٹو صاحب نے انہیں ’’لارا‘‘ بھی دے رکھا تھا چناں چہ انہوں نے سوچا میں نے اگر آرمی چیف کی زیادہ تر پاورز نئے ادارے کو دے دیں تو کل کلاں میں خود کم زور اور بے بس ہو جائوں گا چناں چہ انہوں نے ایک ڈھیلا ڈھالا اور نمائشی عہدے کا فارمولہ بنا کر وزیراعظم کے حوالے کر دیا اور بھٹو صاحب نے اس کی منظوری دے دی اور یوں فوج میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا نیا عہدہ تخلیق ہو گیا‘ یہ فور سٹار جنرل تھا‘ امریکا میں بھی اس سے ملتا جلتا عہدہ موجود ہے لیکن یہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہے اور یہ تمام فورسز سے تگڑا عہدہ ہے اور اس کے پاس بے انتہا اختیارات ہیں جب کہ پاکستان میں جنرل شریف کی مہربانی سے اس عہدے کے ساتھ کمیٹی کا لفظ لگ گیا یوں یہ صرف کمیٹی بن گئی اور اس کے پاس اجلاس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہا‘ یہ عہدہ تخلیق ہونے کے بعد بھٹو صاحب نے سنیارٹی میں ساتویں نمبر پر موجود جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف اور جنرل شریف کو توقع کے برعکس چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا اور یوں جنرل شریف اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر گئے‘

وہ پاکستان کے پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تھے‘وہ روز دفتر آتے تھے‘ کافی اور چائے پیتے تھے اور شام کے وقت گالف کھیلنے چلے جاتے تھے اور یوں وہ تین سال ہاتھوں کی مٹی جھاڑے بغیر ریٹائر ہو گئے‘ وہ پوری زندگی اپنی حماقت پر شرمندہ ہوتے رہے جب کہ دوسری طرف جنرل ضیاء الحق 5 جولائی 1977ء کو بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر ملک کے مختار کل بن گئے اور چیئرمین صاحب انہیں روک سکے اور نہ ان سے مارشل لاء کی وجہ پوچھ سکے۔ یہ عہدہ اس کے بعد سینئر جرنیلوں کی پارکنگ لاٹ بن گیا‘ وزیراعظم تین چار سینئر جرنیلوں میں سے اپنی مرضی کا آرمی چیف چن لیتا تھا اورپھر سینئر ترین جنرل کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے دفتر میں پارک کر دیتا تھا‘ یہ سلسلہ 27 نومبر 2025ء تک چلتا رہا‘ اس دوران تین جنگیں ہو ئیں‘ جنرل پرویز مشرف نے مئی 1999ء میں کارگل وار چھیڑ دی‘ اس جنگ کی نیوی اور ائیرفورس کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اوربعدازاں نیوی اور ائیرفورس دونوں کے چیفس نے اس پر شدید احتجاج کیا‘ فروری 2019ء میں بھارت کی ائیرسٹرائیکس کے بعد آپریشن ’’سوفٹ ری ٹارٹ‘‘ کا فیصلہ ہوا‘ یہ فیصلہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کیا اور یہ سارا پلان جی ایچ کیو میں بنا اور مئی 2025ء میں بھی صورت حال اس سے ملتی جلتی تھی‘ بھارت سے جنگ کی ساری ذمہ داری آرمی چیف کے کندھوں پر آگئی ‘ اللہ تعالیٰ نے خاص کرم کیا اور معرکہ حق میں پاکستان کی عزت بچ گئی‘ ان واقعات کے دوران ایک ایسا عہدہ ناگزیر ہو گیاتھا جو تمام فورسز کے درمیان کوآرڈی نیشن کر سکے اور جنگ کی حالت میں تمام افواج یعنی ائیرفورس‘ نیوی اور بری فوج کی کمانڈ بھی کر سکے اور جوہری اثاثے بھی اس کے کنٹرول میں ہونے چاہییں۔

فوج کو اس ادارے کی ضرورت آج محسوس نہیں ہوئی بلکہ اس کا احساس جنرل مشرف کے دور میں ہو گیا تھا‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس پر کام بھی کروایا تھا‘ 2012ء میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نے سی ڈی ایف کا پورا پلان بھی بنا لیا تھا‘ پلان کے تحت آرمی چیف کی مدت چار سال ہونی تھی اور اس کے بعد آرمی چیف نے چیف آف ڈیفنس فورسز بن جانا تھا‘ 2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت بن گئی‘ میری اطلاعات کے مطابق جنرل کیانی میاں نواز شریف کو سی ڈی ایف کے لیے اقتدار میں لے کر آئے تھے‘ ان کا خیال تھا میاں صاحب آئیں گے‘ آئین میں ترمیم کریں گے‘ سی ڈی ایف کا عہدہ تخلیق ہو گا‘ انہیں اس پر تعینات کیا جائے گا اور یوں انہیں یونیفارم میں مزید تین چار سال مل جائیں گے‘ میاں نواز شریف ایکسٹینشن کے خلاف تھے (یہ ماضی میں پکے مخالف تھے لیکن یہ اب زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں) چناں چہ انہوں نے جنرل کیانی کے پروپوزل پر خاموشی اختیار کر لی‘ اس دوران فوج نے بھی فیصلہ کر لیا ’’جنرل کیانی کے جانے کا وقت آ گیا ہے‘‘ لہٰذانومبر2013ء میں جنرل کیانی ریٹائر ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی سی ڈی ایف کا عہدہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا لیکن پھر 2019ء اور 2025ء کے واقعات نے اس تصور میں دوبارہ جان ڈال دی‘ اس کی بے شمار وجوہات میں سے دو اہم ترین ہیں‘

پہلی وجہ بھارت تھا‘ انڈیا نے دسمبر2019ء میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ تخلیق کیا اور جنرل بپن راوت کو آرمی چیف سے انڈیا کا پہلا سی ڈی ایف بنا دیا‘ اس کا مطلب تھا بھارت ایک ایسے ادارے اور عہدے کی ضرورت کو سمجھ گیا تھا جس کے ہاتھ میں کوآرڈی نیشن اور کمانڈ دونوں ہوں چناں چہ پاکستان کے پاس بھی اب کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا تھا‘ دوسری وجہ 2025ء کی جنگ تھی‘ اس جنگ کے بعد جب بھارت کی شکست کی وجوہات کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا بھارت نے دفاعی آلات میں کوآرڈی نیشن کی کمی کی وجہ سے مار کھائی مثلاً ان کے پاس امریکن‘ جرمن‘ روسی‘ فرانسیسی اور اسرائیلی آلات تھے‘یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ سنکرونائز نہیں ہوسکے تھے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان ائیرفورس نے اپنے تمام آلات کو آپس میں جوڑ لیا تھا‘ بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی اس سٹرنتھ سے واقف ہو گیا چناں چہ اس نے اپنی فوجی مشینوں کے درمیان ربط پیدا کرنا شروع کر دیا‘ یہ اپنی مختلف افواج کے درمیان کمیونی کیشن بھی بہتر بنارہا ہے اور یہ جس دن یہ کام مکمل کر لے گا یہ اس دن پاکستان پر حملہ کر دے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے لیکن اس کے باوجود میں اپنی صحافتی اور سیاسی حس کے ذریعے یہ درخواست کر سکتا ہوں بھارت بہرحال پاکستان پر حملہ کرے گا‘ مئی 2025ء میں اس کی بہت بے عزتی ہوئی ہے‘ یہ اس کا بدلہ لے کر رہے گا چناں چہ ہماری تیاری مکمل اور پوری ہونی چاہیے ورنہ ہم اس فائنل حملے سے بچ نہیں سکیں گے‘ میرا ذاتی خیال ہے یہ حملہ2027ء میں ہو گا‘ کیوں؟ کیوں کہ 2027ء میں بھارتی ستارہ شناسوں کے مطابق ستارے بھارت کی حمایت میں ہوں گے‘ دوسری وجہ خالصتاً فوجی ہے‘ بھارت کو اپنی افواج اور عسکری آلات میں کوآرڈی نیشن کے لیے ڈیڑھ سال چاہیے‘ یہ مئی کے بعد دن رات اس پر کام کر رہا ہے‘ یہ کام جوں مکمل ہو گا اس کے بعد دہلی کی پارلیمنٹ‘ ممبئی کے ریلوے سٹیشن‘ چنائی کے بازار اور گجرات کے مندروں پر حملے ہوں گے اور بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر ہو گی۔

میں سی ڈی ایف کے ایشو کی طرف واپس آتا ہوں‘ پاک فوج کا خیال ہے ہمیں اب کوئی ایسا عہدہ اور سیکرٹریٹ بنا لینا چاہیے جو تمام افواج کے درمیان کوآرڈی نیشن بھی کر سکے اور جنگ میں کمانڈ بھی‘ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی کمانڈ بھی اسی دفتر میں ہونی چاہیے تاکہ جنگی صورت حال میں ایک ہی چھت کے نیچے تمام فیصلے ہو سکیں‘ فوج کوماضی میں ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا‘ پاک فوج‘ پاک نیوی اور پاک فضائیہ دنیا جہاں سے عسکری آلات خریدتی ہیں‘ یہ اپنے آلات خود بھی بناتی ہیں‘یہ فیصلے تینوں افواج الگ الگ کرتی ہیں لہٰذا بعض اوقات مختلف مشینیں ایک دوسرے کے ساتھ ’’کوآرڈی نیٹ‘‘ نہیں کر پاتیں مثلاً فرض کریں فوج‘ ائیرفورس اور نیوی نے مختلف ملکوں سے ریڈار خرید لیے اور اگر یہ عین وقت پر بھارت کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ سنکرونائز نہیں ہوتے تو پھر کیا ہو گا؟ وہی ہو گا جو مئی میں بھارت کے ساتھ ہوا لہٰذا پھر اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل ایک ایسا دارہ ہے جو پوری فوج کے لیے آلات کی خریداری کا متفقہ فیصلہ کرے‘ ہم نے پیچ خریدنا ہویا طیارہ تو ہم پہلے یہ فیصلہ کریں یہ ہمارے سسٹم میں پورا آ سکے گا‘ کیا یہ تینوں بلکہ چاروں افواج(اگست 2025ء میں میزائل کمانڈ بھی بن چکی ہے) کے درمیان موجود ربط کو ڈسٹرب تو نہیں کرے گا لہٰذا سی ڈی ایف کا ادارہ اور عہدہ انتہائی ضروری ہے‘

میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں یہ عہدہ دنیا کے تمام بڑے اور عسکری لحاظ سے مضبوط ملکوں میں موجود ہے‘ ان ملکوں میں سینئر جرنیل اس پر تعینات ہیں مثلاً ایران میں میجر جنرل محمد باگیری 2016ء سے 2025ء تک 9 سال چیفس آف سٹاف رہے اگر اسرائیل انہیں جون 2025ء میں شہید نہ کرتا تو یہ تاحیات اس عہدے پر فائز رہتے‘‘ روس میں ویلری گراسیموو چیف آف جنرل سٹاف ہیں‘ یہ 2012ء یعنی 14سال سے اس عہدے پر فائز ہیں‘ سعودی عرب میں جنرل فیاد الروایلی سات برسوں سے چیف آف ڈیفنس ہیں اور اسرائیل میں مارچ 2025ء سے ریوالوف چیف آف جنرل سٹاف کے ساتھ ساتھ چیف آف ڈیفنس ہیں اور یہ بھی کم از کم دس سال اس عہدے پر رہیں گے‘ امریکا‘ فرانس‘ جرمنی اور چین کی صورت حال بھی اس سے ملتی جلتی ہے‘ یہ عہدے کیوں کہ انتہائی حساس ہوتے ہیں چناں چہ ان پر گرم کی بجائے ٹھنڈے خون بٹھائے جاتے ہیں تاکہ ملکوں کو بحرانوں سے بچایا جا سکے‘ یہ معاملہ اس حد تک سیدھاا اور سادہ ہے لیکن پاکستان میں اس وقت کیا ہو رہا ہے؟سی ڈی ایف کا بحران کیوں پیدا ہوا‘ نوٹی فکیشن کیوں نہیں ہو رہا اور میاں نواز شریف اس کے راستے میں کیوں رکاوٹ بن رہے ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہیں‘ میں اس کے جواب اگلے کالم میں دوں گا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



چیف آف ڈیفنس فورسز


یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…