منگل‬‮ ، 24 جون‬‮ 2025 

قصور میں درندگی کا مسلسل گیارہواں واقعہ،10بچیاں قتل ہوگئیں صرف ایک ہی بچی زندہ بچی ہے ،وہ اب کس حال میں ہے؟تمام واقعات کا مجرم ایک ہی ہے،پہلا واقعہ کتنا عرصہ قبل ہواتھا؟ جاوید چودھری کے انکشافات‎

datetime 10  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پچھلے سال ایران کے شہر پارس آباد میں سات سال کی ایک بچی اتینہ زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی ‘ بچی کا والد کپڑے کا تاجر تھا‘ بچی والد کی دکان سے باہر نکلی‘ پانی پینے کیلئے والد کے ایک دوست کی دکان پر گئی اور غائب ہو گئی‘ والد بچی کی گم شدگی کو اغواء کا واقعہ سمجھتا رہا لیکن جب بازار کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکالی گئی تو بچی اسماعیل جعفر زادے کی دکان میں داخل ہوتی ہوئی نظر آئی‘ پولیس آئی‘ تفتیش ہوئی اور بچی کی لاش دکان کی پارکنگ لاٹ سے مل گئی‘

ملک میں احتجاج شروع ہو گیا‘ یہ واقعہ 19 جون کو پیش آیا‘ 20 جون کو مجرم گرفتار ہوا‘ عدالت نے اسے 11 ستمبر کو سزا سنائی اور حکومت نے 20 ستمبر کو مجرم کو ہزاروں لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی‘ سزا کا یہ سارا عمل تین ماہ میں مکمل ہوا اور مجرم کو عبرت کی نشانی بھی بنا دیا گیا‘ یہ کہانی قصور کی سات سالہ بچی زینب سے ملتی جلتی ہے‘ زینب چار جنوری کو قرآن مجید پڑھنے کیلئے خالہ کے گھر کیلئے نکلی اور راستے میں غائب ہو گئی‘ واقعے کے دوسرے دن پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج دے دی گئی‘ پولیس چار دن تک بچی تک نہ پہنچ سکی‘ کل بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی‘ بچی کو قتل سے پہلے کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا‘ بچی کے والدین عمرے کیلئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے‘ آج اس واقعے کے بعد قصور میں ہنگامے پھوٹ پڑے‘ مشتعل ہجوم نے ڈی پی او آفس پر حملہ کر دیا‘ پولیس نے گولی چلا دی‘ دو لوگ جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا‘ یہ قصور میں اس نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے‘ شہر سے اس سے قبل گیارہ بچیاں اغواء ہو چکی ہیں ‘ ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں‘ ان میں سے دس قتل ہو چکی ہیں صرف ایک بچی کائنات کی جان بچ گئی لیکن یہ بھی ذہنی طور پر معذور ہو چکی ہے‘ مرحوم بچیوں کے جسم سے ایک ہی شخص کے ڈی این اے مل رہے ہیں لیکن پولیس ڈیڑھ سال میں مجرم تک نہیں پہنچ سکی۔ ہم اگر آج کے ہنگاموں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے ہمارے لوگوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ تھانے پر حملے‘

پتھراؤ اور گاڑیوں کو آگ لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ‘ احتجاج کے اس سے بہتر طریقے بھی موجود ہیں اور پولیس کو بھی یہ اندازہ نہیں کہ ایسے حالات میں ہجوم کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے‘ یہ براہ راست گولی چلا دیتی ہے‘ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب آج عمران خان نے دیا، پولیس کیسے بہتر ہو سکتی ہے‘ زینب جیسی بچیوں کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے‘ والدین کیا کر سکتے ہیں‘ استاد اور معاشرہ کیا کر سکتا ہے اور اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو پولیس مجرم تک کیسے پہنچ سکتی ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہو گا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…