لاہور ( این این آئی)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے31دسمبر کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار شہباز شریف ،رانا ثناء اللہ اور نامزد افسران استعفے دے کر خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کر دیں ورنہ فیصلہ کن نتائج کیلئے تیار رہیں، قوم مت سمجھے کہ تاخیر ہو رہی ہے اب ہم یہ جنگ ہارنا نہیں چاہتے ،31دسمبر کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور آخری واربے نتیجہ نہیں جائے گا ،ہم چاہتے ہیں ایسے بنچ بنیں جو ہماری سنیں
اور نہ آپ کی سنیں بلکہ جو آئین و قانون اور انصاف کی سنیں ،ہم آپ کے ریفریوں کے ساتھ میچ ہونے دیں گے اور نہ ہی اسے فکس ہونے دیں گے،نواز شریف ،شہباز شریف سن لیں انہیں معصوم شہریوں کے قتل عام کا بدلہ دینا ہوگا،اب انصاف میں تاخیر برداشت نہیں کروں گا، چند دنوں میں شہباز شریف کے جنوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی خبر تھی کہ نہیں، ٹیلیفون کالز اور ڈکٹیشن کے مطابق فیصلہ نہ آنے پر نواز شریف کی عدلیہ کے خلاف الزام تراشی اور انصاف کا خون کرنے کے طعنے ریاست اور آئین سے بغاوت ہے، یہ ملک میں بغاوت کاماحول پیدا کررہے ہیں، ان کی ہرزہ سرائی پر ادارے خاموش کیوں ہیں؟ ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے تاجر برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اجلاس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری سے گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے صدر قاری محمد زوار بہادر اور سربراہ حلقہ سیفیہ پاکستان صاحبزادہ پیر احمد یار سیفی ،جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ کے صدر پیر معصوم نقوی اور پاکستان مسلم لیگ کے سینئر رہنما اجمل وزیر نے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔رہنماؤں نے کہا کہ یہ انسانیت کے خلاف ناقابل معافی جرم ہے،
ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ان کی تحریک کے ساتھ ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تاجر برادری و سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کیلئے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 16 جون 2014 ء کی میٹنگ میں ہوم سیکرٹری ،وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کی نمائندگی کی
جہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی قتل و غارت گری کا فیصلہ ہوا،شہباز شریف گھناؤنے فیصلوں اور ان کی تعمیل سے خود کو کیسے لا تعلق قرار دے سکتے ہیں؟ شہباز شریف نے ساڑھے 9 بجے پولیس کو ہٹنے کا اگر حکم دیا تھا تو کیا رانا ثناء اللہ نے حکم نہیں مانا ؟یا ہوم سیکرٹری نے عملدرآمد کروانے سے انکارکیا؟۔ آئی جی پنجاب نے حکم ماننے سے انکار کیا یا ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار نے حکم نہیں مانا؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ حکم نہیں مانا گیا تو پھر ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔ کس کو نوکری سے ہٹایا گیا یا جیل بھیجا گیا؟ حقیقت یہ ہے
کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے حکم کے مطابق معصوم شہریوں کو قتل کرنے پر ان تمام ذمہ داروں کو تحفظ دیا جارہا ہے اور وہ پہلے سے بہتر مراعات انجوائے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کررہے ہیں،تاخیر کا مطلب فیصلہ کن ایکشن ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ نواز شریف نے غریب عوام کی تعلیم، صحت، روزگار، انصاف کا خون کیا وہ عدلیہ کو انصاف کے خون کا طعنہ دے کر عدلیہ کی حرمت کا خون کررہے ہیں۔ ان کا اختلاف ججمنٹ سے نہیں عدلیہ کے ادارے سے ہے ۔