لقمان حکیم نوبی قوم کے ایک سیاہ رنگ غلام تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت و دانش سے نواز دیا تھا۔ یہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کے غلام تھے جس نے ان کو ساڑھے تین مثقال کے عوض خریدا تھا۔ یہ اس کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ یہ شخص چوسر کھیلتا تھا اور اس پر بازی لگایا کرتا تھا اور اس کے دروازہ کے قریب ایک نہر جاری تھی۔ایک دن اس شرط پر چوسر کھیلی گئی کو جو ہار جائے اس کو اس نہر کا سارا پانی پینا پڑے گا
یا اس کا فدیہ ادا کرے گا۔ لقمان کا آقا ہار گیا۔ اب جیتنے والے نے مطالبہ کیا یا تو سارا پانی پیئے یا اپنا فدیہ ادا کرے۔ اس نے پوچھا کہ فدیہ؟ اس نے کہا تیری دونوں آنکھیں جن کو میں پھوڑوں گا جو کچھ بھی تیرے ملک میں ہے وہ سب فدیہ ہو گا۔ لقمان کے آقا نے کہا مجھے آج کے دن کی مہلت دو۔ اس نے منظور کر لیا۔کہتے ہیں کہ وہ بہت غمین اور آزردہ تھا کہ لقمان لکڑیوں کا گٹھہ پشت پر اٹھائے ہوئے آ پہنچے اور آقا کو سلام کیا۔ پھر گٹھ کو رکھ کر اس کے پاس آئے۔ اور اس کی عادت تھی کہ جب وہ حضرت لقمان کو دیکھتا تھا تو ان سے دل لگی کیا کرتا تھا او ران سے کلمات حکمت سنتا اور تعجب کیا کرتا تھا۔ انہوں نے اس کے پاس بیٹھ کر کہا کہ کیا بات ہے؟ میں تم کو آزردہ اور غمگین دیکھ رہا ہوں تو اس نے ان سے اعراض کیا۔ پھر دوبارہ سوال کیا تو پھر بھی اس نے جواب سے گریز کیا۔ پھر انہوں نے تیسری مرتبہ پوچھا اس دفعہ بھی وہ خاموش ہی رہا۔ چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا آپ مجھے بتائیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میں آپ کی مشکل حل کر دوں۔اب نے پورا قصہ سنا دیا۔ لقمان نے کہا کہ غم نہ کیجئے۔ میرے پاس اس کا حل موجود ہے۔ اس نے کہا وہ کیا؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ تمہارے پاس آ کر نہر کا پانی پینے کا سوال کرے تو تم اس سے یہ پوچھنا
کہ دونوں کناروں کے درمیان کا پانی پیوں یا نہر کی لمبائی کا؟ تو وہ تم سے یقیناً کہے گا کہ دونوں کنارے کے درمیان کا۔ تو تم اس سے کہنا (کہ میں پانی پینے پر آمادہ ہوں) تو لمبائی سے پانی بہنے کو روکے رکھ۔ جب تک میں دونوں کناروں کے درمیان کا پانی نہ پی لوں اور یہ اس کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ پانی روکے رکھے۔جب صبح ہوئی تو وہ شخص آیا اور اس نے کہا میری شرط پوری کر۔ آقا نے جواب دیا
کہ بتاؤ کہ دونوں کناروں کے درمیان پانی پیوں یا لمبائی کا؟ اس نے کہا دونوں کناروں کے درمیان کا۔ اب انہوں نے کہا کہ بہت اچھا لمبائی کے پانی کو روک لو۔ اس نے کہا یہ تو ناممکن ہے اس طرح عدم ایفاء کی ذمہ داری اس پر جا پڑی اور یہ غالب آ گیا۔س نے لقمان کو آزاد کر دیا۔لقمان حکیم کی ایک وصیتلقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا جب تم کسی شخص سے بھائی چارہ کرنا چاہو تو(آزمائش کے طور پر)پہلے اس کو غصہ دلا دو، اگر اس نے بحالت غضب بھی انصاف کو قائم رکھا تو اس کو بھائی بنا لو ورنہ اس سے بچو۔