اتوار‬‮ ، 17 اگست‬‮ 2025 

’’بابا یہ گولیاں کیوں چل رہی ہیں، یہ لوگ بچوں کو کیوں مار رہے ہیں‘‘ اے پی ایس میں داخلے کیلئے جانیوالی ننھی خولہ جب باپ کی آغوش میں گولیوں سے بھون دی گئی

datetime 16  دسمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سانحہ اے پی ایس میں سکول میں داخلے کی غرض سے جانے والی ننھی خولہ اپنے سکول کے پہلے ہی دن دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئی تھی۔ خولہ کے والد پروفیسر الطاف اے پی ایس پشاور میں ہی تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے ۔ پروفیسر الطاف بتاتے ہیں کہ سانحہ کے روز معمول کے مطابق میں سکول جانے کی تیاری میں مـصروف تھا جبکہ میرا بیٹا

یونیفارم پہن کر سکول کیلئے تیار ہو رہا تھا اسی دوران میری اکلوتی بیٹی خولہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ سکول جانے کی ضد کرتی ہے۔ بیٹی کے اصرار پر میں حامی بھر لیتا ہوں، راستے میں خولہ مجھے کہتی ہے کہ آج میں اپنے بھائی کے ساتھ سکول جاتے ہوئے بہت خوش محسوس کر رہی ہوں۔ پروفیسر الطاف جب سکول پہنچے تو ننھی خولہ کو پرنسپل کے کمرے میں لے گئے جہاں پرنسپل سے مختصر تعارف کے بعد بچی کو سکول میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے پرنسپل کے آفس سے نکل کر وہ کلاسز لینے چلے گئے اور خولہ سےکہا کہ بیٹا پرنسپل سے بات ہو گئی ہے آپ کل سے باقاعدہ یونیفارم میں آکراپنی کلاس جوائن کر لوگ گی یہی باتیں کرتے وہ کلاس روم پہنچے اور کچھ ہی لمحوں کے بعد ایک زور دار دھماکہ کی آواز آتی ہے جب وہ بالکنی سے جھانکتے ہیں تو انہیں مسلح افراد اوپر آتے نظر آتے ہیں جس پر پروفیسر الطاف کلاس روم کا دروازہ بند کرتے ہوئے بچوں کو زمین پر لیٹ جانے کیلئے کہتے ہیں جبکہ اپنی بچی خولی کو بھی اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ دہشتگرد کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ پروفیسر الطاف پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں جن میں تین گولیاں ان کے جسم کو چیرتی ہوئی ان کی بچی کے جسم میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ پروفیسر الطاف کو ہوش آتا ہےتو وہ خود کو ہسپتال میں پاتے ہیں ۔ ہوش میں آتے ہی ان کی زبان پر بے ساختہ ننھی

خولہ کا نام آتا ہے وہ بدحواس ہو کر اپنی بچی کیلئے اٹھنے کی کوشش کرتے ان کا جسم زخموں سے چور چور ہوتا ہے ، ان کی پسلیاں کٹ چکی ہوتی ہیں، گھر والے انہیں بتاتے ہیں کہ خولہ شہید ہو چکی ہے، ہسپتال میں صحت یاب ہو کر انہیں آبائی گھر لایا جاتا ہے، عزیز و اقارب انہیں بالاکوٹ میں کوئی چھوٹا موتے کاروبار کا مشورہ دیتے ہیں۔ پروفیسر الطاف دوبارہ پشاور جانے پر بضد ہوتے ہیں ۔

صحت یابی کے بعد وہ اپنی کٹی پسلیوں کے ساتھ ایک بار پھر اپنے بلند اداروں اور ایک نئے عزم کے ساتھ آرمی پبلک سکول جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر واپس پشاور آجاتے ہیں۔ بیٹی کی شہادت اور جسمانی طور پر معذوری ان کے پہاڑ جیسے عزم کے سامنے چیونٹی کی طرح ثابت ہوئی ہے۔انہیں آج تک یاد ہے جب اے پی ایس میں آغوش میں لی ہوئی خولہ ان سے

پوچھ رہی تھی ’’بابا یہ ’’گولیاں کیوںچل رہی ہیں،یہ کون لوگ ہیں، یہ بچوں کو کیوں مار رہے ہیں۔‘‘ان سوا لوں کے جواب کی منتظر خولہ باپ کی توجہ اس کے گولیوں سے چھلنی سینے کی جانب دلاتےہوئے کہتی ہے کہ بابا آپ کا ’’خون ‘‘نکل رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس ننھی پھول جیسی بچی کی آواز ہمیشہ کیلئے بند ہو جاتی ہے۔

موضوعات:



کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…