کل ایک واقعہ نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے، بظاہر بہت معمولی سا واقعہ ہے لیکن سوچنے والوں کے لیے عبرت ہے: میرے گھر میں کچھ روز پہلے ایک بلی، بچے دے گئی۔ مجھے بلی کے بچے بہت پسند ہیں، میں ان کو پیار کرنا چاہتا تھا لیکن بلی مجھے ان کے قریب
بھی نہیں آنے دیتی تھی۔ بلکہ اگر میں ان بچوں کی طرف تھوڑا بھی بڑھتا تھا تو وہ غرانے لگتی تھی۔ پرسوں میں نے دیکھا کہ بلی اِدھر اُدھر ٹہل رہی ہے وہ بھوکی لگ رہی تھی۔ میں نے اسے دودھ دیا، وہ ابھی بھی مجھ سے ڈر رہی تھی۔ بڑی دیر بعد بھوک سے مجبور ہو کر میرے قریب آئی اور دودھ پینے لگی۔ اسی دن رات میں میں نے اسے پھر دودھ دیا۔ اگلے دن صبح جب میں دروازے کے قریب آیا تو بلی اپنے بچوں کو لیکر آئی اور میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہونے لگی۔ میرا ذہن جکڑ کر رہ گیا۔ میں نے صرف دو دفعہ اس بلی کو دودھ پینے کے لیے دیا تو میری اتنی ممنون و مشکور ہوگئی کہ میرے قدموں میں لوٹنے لگی۔ میرا اللہ مجھے اتنے سال سے کھلا رہا ہے، پلا رہا ہے، سُلا رہا ہے، اُٹھا رہا ہے، بِٹھا رہا ہے، دنیا کی ہر نعمت دے رہا ہے لیکن ہم کیوں اس کے قدموں میں اپنا آپ نذر نہیں کر دیتے؟ ہم کیوں اس کے در پر جا کر اس کے ممنون و مشکور نہیں بن جاتے؟ اسی لیئے تو اللہ پاک نے فرمایا تھا: ’’اور اللہ کی ذات وہ ہے جس نے بنائے تمہارے لئے کان، آنکھیں اور دل، لیکن تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔‘‘ سورہ مومنون آیۃ۔78