ایک روایت یہ ہے کہ سیاحت کے دوران میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے حضرت بوعلی شاہ قلندر ؒسے بھی ملاقات کی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ ہی نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ سندھ میں سیوستان (سہون) میں سکونت اختیارفرمائیں۔ ملتان کے لوگوں کی خواہش تھی کہ آپ واپس جاکر ملتان میں ہی قیام کریں لیکن آپ نے
سیہون جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور سندھ کا رْخ کیا۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ649ہجری میں سندھ تشریف لائے۔سیہون میں اس وقت ہندو راجہ جیسر جی(جو عرف عام میں راجاچوپٹ کہلاتا تھا) کی حکومت تھی۔ راجہ چوپٹ ایک عیاش طبع آدمی تھا۔ راجہ رعایا کے حال سے بے خبر رہتا۔ لاقانونیت اور ظلم و تشدد ہر طرف عام تھا کسی کی کوئی فریاد نہیں سنی جاتی تھی۔ اسی وقت کا یہ مقولہ بھی مشہور ہے‘‘اندھیر نگری چوپٹ راج’’۔لوگوں کو بے بس اور لاچار دیکھ کر ایک مجذوب جس کا نام سکندر بودلہ تھا وہ اکثر ایک نعرہ مستانہ لگایا کرتاتھا۔’’میرا مرشد آنے والا ہے، ظلم کا زوال ہونے والا ہے‘‘۔سکندر بودلہ سیوستان کی پہاڑیوں میں عبادت و ریاضت کرتے تھے۔ ایک رات بزرگ نے خواب میں آوازِ غیبی سْنی کہ ‘‘ایک مرد قلندر آرہا ہے جو ظلمت کو نور میں تبدیل کردے گا’’ پھر اکثر اْن بزرگ کی زبان پر یہ ورد رہتا کہ ‘‘میرا مرشد سائیں آرہا ہے‘‘اس نعرے کو سن کر شہر کے لوگوں کے دلوں سے دعا اْٹھتی کہ خدا کرے ہمارا نجات دہندہ جلد آئےاور ہمیں راجہ کے ظلم سے بچائے۔مجذوب کی آواز میں ایسی کڑک تھی کہ راجہ کے قلعے کی دیوار کو چیرتی ہوئی اندر آجاتی تھی۔ رات کے اندھیرے اور سناٹے میں یہ پر سوز آواز اہل قلعہ کی نیندیں اڑادیتی تھی۔ شروع شروع میں تو راجہ اور قلعہ کے لوگوں نے نعروں کو سن کر نظرانداز کردیا تھا۔ جب نعروں میں شدت آگئی تو وہ بھی بوکھلا اٹھے۔
ان فلک شگاف نعروں نے نجانے کیوں راجہ جیسرکونہ صرف مشتعل کرتا بلکہ خوفزدہ کردیا تھا ، بالآخر راجا کے سپاہی گئے اور اس مجذوب کو گرفتار کرکے راجہ کے پاس لے آئے۔راجہ کے سامنے بھی سکندر بودلہ کی زبان پر یہی الفاظ تھے ’’میرا مرشد آنے والا ہے، ظلم کا زوال ہونے والا ہے‘‘ تو راجہ غضبناک ہوگیا اور اْس نے سکندر بودلہ کو قید کروادیا،
لیکن قید خانے میں بھی اس کے فلک شگاف نعرے بند نہ ہوئے۔راجہ رات بھر اذیت کی آگ میں جلتا رہا۔ صبح ہوئی تو اس نے وزیروں کو طلب کیا۔ وزیروں نے کہا کہ اس شخص کی کھال ادھیڑی جائے آپ ہی دماغ ٹھکانے آجائے گا۔راجا نے اجازت دے دی۔ سکندر بودلہ پر تازیانوں کی بارش کردی گئی لیکن وہ یہی کہتے رہے’’میرا مرشد آنے والا ہے۔‘‘
سکندر بودلہ پر وحشیانہ تشدد جاری رہا۔ تقریباً روزانہ ان پر تازیانوں کی بارش کی جاتی تھی لیکن آپ کے ہونٹوں پر ایک ہی نعرہ جاری رہتا تھا۔سندھ کا علاقہ حضرت شہباز قلندر کے لیے انجان تھا۔ آپ یہاں کی زبان اور ثقافت سے واقف نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپ سرزمین سندھ کی طرف تشریف لے آئے۔ حالات کا مشاہدہ کرکے آپ نے کسی ایک جگہ
مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ترک کرکے پہلے ارد گرد علاقوں میں تبلیغی دوروں کاآغاز کیا۔آپ نے ٹھٹھے کے قریب ‘‘آرائی’’ کے مقام پر ایک بزرگ پیر پیٹھ سے ملاقات کی۔یہ بزرگ ایک پہاڑی کے غار میں مصروف عبادت رہتے تھے۔ حضرت لعل شہباز قلندر نے اسی غار میں آپ سے ملاقات کی اور کامرانی کی دعائیں لے کر رخصت ہوئے۔
آپ نے سندھ کے ایک گاؤں ‘‘ریحان’’ میں بھی کچھ دن قیام فرمایا تھا۔ بعد میں یہی گاؤں حضرت رکن الدین ملتانی کی نسبت سے رکن پور کہلایا۔ جب حضرت لعل شہباز قلندر اس گاؤں میں تشریف لے گئے تو اس کی زمین بنجر تھی۔ پھر اللہ نے آپ کی برکت سے اس زمین کی سرشت بدل ڈالی۔ علاقہ آباد ہوگیا۔ سرسبزوشادابی کی وجہ سے
بنجر زمین بھی خزانے اگلنے لگی۔کراچی کے قریب منگھوپیر کا مزار ہے۔ بعض روایات کے مطابق صاحب مزار حضرت فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ ہیں۔ اسی پہاڑ پر لعل شہباز قلندر کے نام سے ایک بستی آباد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت لعل شہباز قلندر یہاں تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کیا۔
آپ کی ایک چلہ گاہ حیدرآباد کے نزدیک
گنجہ ٹکر کے نزدیک ٹنڈو غلام حسین میں بھی موجود ہے۔ مشہور ہے کہ آپ یہاں چلہ کش ہوئے تھے آپ نے حیدرآباد کے اطراف میں بھی کئی تبلیغی دورے کیے تھے۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ دوران سیاحت قلندرپاک نے ‘‘پاٹ’’ شہر میں حاجی اسماعیل منوہر سے بھی ملاقات کی تھی۔‘‘پاٹ’’ دراصل سندھ کا ایک قدیمی شہر تھا۔
بہت سے علمائے کرام دور دراز کی مسافت طے کرکے اس شہر میں آتے تھے۔ قدیم تذکروں میں اس شہر کو اسی وجہ سے ‘‘قبتہ الاسلام’’ کہا گیا ہے۔ دریا کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں باغات کی کثرت تھی جس میں انار بہت کثرت سے ہوتے تھے۔سیہون شریف کے ریلوے اسٹیشن کے جنوب میں ایک بلند پہاڑ ہے جس کے اندر ایک قدیم غار موجود ہے۔
روایت ہے کہ اس غار میں حضرت لعل شہباز قلندر نے چلہ کشی کی تھی۔سیہون کے ر یلوے اسٹیشن کے قریب آپ کے نام سے منسوب ایک ‘‘لال باغ’’ بھی ہے ۔روایات کے مطابق اس باغ کے قریب ایک پہاڑی پر بھی آپ نے چلی کشی کی تھی۔مقامی لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر کی آمد سے قبل نہ یہ باغ تھا اور نہ یہ چشمہ۔
لوگ اس مقام پر چشمے کی موجودگی کو شہباز قلندر کی کرامت سمجھتے ہیں۔یہ چند نشانات جو تاریخ میں محفوظ رہ گئے ہیں، صاف بتاتے ہیں کہ آپ نے سندھ کے دور دراز علاقوں کے دورے کیے۔ اس دور کے سفر آج کی طرح باسہولت نہیں تھے۔ دین کی تبلیغ کے لیے ہمیں آپ کے عزم اور حوصلوں سے رہنمائی اور ترغیب لینی ہوگی۔آپ کی بہت سی
کرامات لوگوں میں مقبول ہیں۔روایات ہیں کہ جب کبھی آپ کے پاس کوئی لاعلاج مریض آتا تو آپ اس پر گہری نظر ڈالتے اور فرماتے۔‘‘اے بیماری! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ تو اسے چھوڑے دے‘‘۔لعل شہباز قلندر کا یہ جملہ مریض میں تندرستی کے آثار پید ا کردیتا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات پانی پر دم کرکے بھی مریض کو دیتے اور
فرماتے یہ پانی بیمار کو پلاؤ اور آنکھوں کو لگاؤ آپ کی ہدایت پر عمل کرکے بیمار صحتیاب ہوجاتے تھے۔ایک مرتبہ سندھ اور اس کے قرب وجوار میں اتنا شدید قحط پڑا کہ مخلوقِ خدا سخت پریشان ہوئی۔ اس قحط سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے قلندر سے عرض کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اس قحط سے نجات دیدے۔
حضرت لعل شہباز قلندر نے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی، ابھی دعا میں مصروف ہی تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کے تمام خشک کھیت پانی سے بھر گئے۔ ندی نالے پُر ہوگئے۔ اور مخلوقِ خدا نے سکون کاسانس لیا۔وادی مہران سندھ کے مختلف علاقوں کو فیضیاب کرنے کے بعد حضرت لعل شہباز قلندر’’سیوستان‘‘ یعنی سیہون میں مقیم ہوئے
جہاں آپ کو بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور آپ کے حسن اخلاق کی بہت دور دور تک شہرت ہوگئی۔لعل شہباز قلندر اور ان کے ساتھیوں نے جس میدان میں پڑاؤ ڈالا تھا، اس کے قریب ایک بستی میں شراب و شباب کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ درویش کے پڑاؤ کی وجہ سے اس بستی کے مکینوں نے خوف محسوس کیا اور راجہ کے پاس جاکر ان کی شکایت کی۔
ان لوگوں کی دروغ گوئی سن کر راجہ غصہ سے تلملا اْٹھا۔ اس نے بہت مغرور لہجے میں اپنے کوتوال کو حکم دیا کہ ان مسلمان فقیروں کوبے عزت کرکے اس کی ریاست سے نکال دیا جائے۔راجہ جیر جی کے سپاہی گدڑی پوشوں کے خیمے میں داخل ہوئے اور انہیں حاکم سیوستان (سیہون) کا حکم سنایا۔ گدڑی پوشوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے مرشد
کے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔اگر تمہیں کچھ کہنا ہے تو ان سے کہو۔راجا جیر جی کے سپاہی اسی حالت غضب میں قلندر شہباز کے خیمے کی طرف بڑھے مگر اندر داخل نہیں ہوسکے۔ سپاہیوں کو ایسا محسوس ہوا جسے ان کے پیروں کی طاقت سلب ہوچکی ہے اور وہ اپنے جسم کو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔ پھر جب سپاہیوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو
ان کی ساری طاقت بحال ہوگئی۔ سپاہیوں نے دوبارہ خیمے میں جانے کی کوشش کی اس بار بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مجبوراً سپاہی کچھ کیے بنا واپس چلے گئے۔راجا جیر جی اپنے سپاہیوں کی مجبوریوں کا قصہ سن کر چراغ پا ہوگیا۔ اس نے فوری طور پر اپنے وزیروں، مشیروں اور درباری نجومیوں کو طلب کرلیا۔تمام واقعات سن کر حاکم
سیہون کی طرح اراکین سلطنت اور ستاروں کا علم جاننے والے بھی حیران وپریشان تھے۔پھر درباری نجومیوں نے ستاروں کی چال اور زائچے وغیرہ بنائے تو یکا یک ان کے چہروں پر خوف کے گہرے سائے لرزنے لگے۔نجومیوں نے راجا جیر جی سے عرض کیا۔ ‘‘زائچے بتاتے ہیں کہ ایک شخض حدود سلطنت میں داخل ہوگا اور پھر وہی شخص
اقتدار کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔ شاید وہی شخص ہے جس کے ایک مجذوب شاگرد کو آپ نے قید میں ڈال دیا ہے۔’’نئی چال سوچی گئی، وزیروں کے کہنے پر ہیرے جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہوا خوان لے کر شہباز قلندر کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ اسے قبول فرمائیں اور کسی دوسرے جگہ قیام فرمالیں۔
آپ نے حکم دیا کہ ان جواہرات کو آگ میں ڈال دو، خدمت گار نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق خوان اٹھا کر آگ میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک شعلہ سا بھڑکا، اور واقعی تمام ہیرے جواہرات اور سونے کے ٹکڑے کوئلے اور لکڑی کی طرح آگ میں جل کر خاک ہوگئے۔حاکم سیہون کا نمائندہ کچھ دیر تک پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ یہ ناقابل یقین منظر دیکھتا رہا۔
وہ سونا جو تپتی ہوئی بھٹی میں بہت دیر کے بعد پگھلتا ہے، اسے معمولی آگ کے شعلوں نے چند لمحوں میں جلا کر خاک کر ڈالا تھا۔ مسلمان درویش کی یہ کرامت دیکھ کر وزیر نے قدموں پر سر رکھ دیا اور گداگرانہ لہجے میں عرض کرنے لگا۔ پھر جب وزیر کانپتے قدموں کے ساتھ واپس جانے لگا تو آپ نے نہایت پر جلال لہجے میں فرمایا۔’’اپنے راجا سے کہہ دینا
کہ ہم یہاں سے واپس جانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اگر حاکم سیہون اپنی سلامتی چاہتا ہے تو خود یہاں سے چلا جائے‘‘۔وزیر دوبارہ حاکم سیہون کی خدمت میں پہنچا اور اس نے لعل و جواہر کے راکھ ہوجانے کا پورا واقعہ سنایا تو راجا جیر جی اور زیادہ غضبناک ہوگیا اور کہنے لگاتو بزدل ہے کہ ایک معمولی سی بات سے ڈر گیا۔ میں نے
اس سے بھی بڑی شعبدہ بازیاں دیکھی ہیں۔میری سلطنت میں ایسے ایسے کامل جادوگر موجود ہیں جو مسلمان سنیاسی کے طلسم کو پارہ پارہ کردیں گے۔’’
عشاء کی نماز میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حضرت شہباز قلندر نے خدمت گاروں کی موجودگی میں قلعہ کی جانب رخ کرتے ہوئے فرمایا ’’بودلہ! اب تم ہمارے پاس چلے آؤ‘‘خدمت گار حیران تھے کہ
مرشد کسے پکار رہے ہیں؟سکندر بودلہ جو راجہ جیر جی کی قید میں تھے اور کئی مہینے سے درد ناک سزائیں برداشت کررہے تھے۔ ادھر آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا ہوئے اور ادھر بودلہ کا جسم اچانک زنجیروں سے آزاد ہوگیا۔ بودلہ ابھی اسی حیرانی میں تھے کہ یکایک زنداں کا دروازہ کھل گیا۔ بودلہ کو اپنے مرشد کی آواز سنائی دی،
بودلہ سمجھ گئے کہ یہ مدد کے سواء کچھ نہیں۔ اس نے بے اختیار نعرہ لگایا۔‘‘میرا مرشد آگیا، میرا مرشد آگیا۔’’شدید زخمی ہونے کے سبب بودلہ تیزی سے اْٹھے اور قید خانے سے باہر کی جانب دوڑنے لگے۔ آخر اس میدان میں پہنچ گئے جہاں لعل شہباز قلندر اور ان کے ساتھیوں نے قیام کیا ہوا تھا۔بودلہ سے مل کر لعل شہباز قلندر نے اپنے
مریدوں کو بتایا کہ ‘‘یہی تمہارا بھائی بودلہ ہے۔ اسے حاکم سیہون نے ناحق ستایا ہے۔ انشاء اللہ ! وہ بہت جلد اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گا۔’’شدید مخالفتوں کے باوجود آپ نے سیہون شریف میں رہ کر اسلام کا نور پھیلایا ہزاروں لوگوں کو راہِ ہدایت دکھائی، لاتعداد بھٹکے ہوئے افراد کا رشتہ خدا سے جوڑا، لوگوں کو اخلاق او ر محبت کی تعلیم دی۔
سچائی اور نیکی کی لگن انسانوں کے دلوں میں اجاگر کی۔ آپ کی تعلیمات اور حسن سلوک سے سیہون کی ایسی کا یا پلٹی کہ بہت بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا آپ نے لاتعداد بھٹکے ہوئے افراد کا رشتہ خدا سے جوڑا، لوگوں کو اخلاق کی تعلیم دی، سچائی اور نیکی کی لگن انسانوں کے دلوں میں پیداکی۔لعل شہباز قلندر کی وجہ سے راجہ کو
اپنا اقتدار خطرے میں نظر آرہا تھا۔راجہ جیر جی کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں۔ سیہون میں ایک مسلمان درویش کی موجودگی اس کے لیے مستقل عذاب بن کر رہ گئی تھی۔ راجہ جیر جی کئی مرتبہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرچکا تھا مگر ہر مرتبہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ آخر حاکم سہون نے اپنے علاقے کے کچھ جادوگروں کو طلب کرکے ان سے
مسلمان درویش سے مقابلے کا کہا، لیکن سیہون کے ساحروں نے مقابلے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی تھی کہ انہیں ہرانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ البتہ جادوگروں نے راجہ کو مشورہ دیا کہ اگر کسی طرح مسلمان درویش کے شکم میں حرام غذا داخل کردی جائے تو اس کی ساری روحانی قوت زائل ہوجائے گی اور پھر ہمارے جادو کی طاقت اس پر
غالب آجائیگی۔راجہ نے ایک روز کسی حرام جانور کا گوشت پکوایا اور کئی خوان سجا کر مسلمان درویش کی خدمت میں بھیج.دیے۔جب یہ خوان حضرت شہباز قلندر کی خدمت میں پیش ہوا تو کھانا دیکھتے ہی شیخ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے یہ کہہ کر کھانے سے بھرا ہوا خوان الٹ دیا۔’’ہمارا خیال تھا کہ وہ کافر اتنی نشانیاں دیکھنے کے بعد
ایمان لے آئے گا مگر جس کی تقدیر میں ہلاکت و بربادی لکھی جا چکی ہو، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا‘‘۔مرشد کے اس عمل سے خدام پر لرزہ طاری ہوگیا۔ پھر دوسرے ہی لمحے زمین بھی لرزنے لگی۔ سہون شدید زلزلے کی لپیٹ میں تھا۔ زمین نے دو تین کروٹیں لیں اور طاقت و اقتدار کا سارا کھیل ختم ہوگیا۔ ادھر شیخ کے سامنے خوان الٹا پڑا تھا
راجہ جیر جی کے قلعے کی بنیادیں الٹی ہوگئی تھیں۔حضرت لعل شہباز قلندر ناصرف صوفی باعمل بزرگ تھے بلکہ آپ نے علم کی ترویج کے لئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ حضرت لعل شہباز قلندر صرف ونحو کے بھی ماہر تھے۔ایک مغربی مورخ سررچرڈ برٹن کی تحقیق کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر ایک عظیم ماہر لسانیات بھی تھے
آپ نے چار کتابیں گر امر اور لسانیات کے حوالے سے فارسی زبان میں تحریر کی تھیں۔مشہور سیاح ابن بطوطہ دنیا کا سفر کرتے ہوئے 734ھ میں جب سیہون پہنچا تو اس نے آپ کے مزار مبارک کی زیارت کی تھی اور آپ کی خانقاہ میں ٹھہرا۔مشہور محقق شیخ اکرم نے بھی اپنی کتاب موجِ کوثر میں برٹن کی ہسٹری آف سندھ کے حوالے سے
دومشہور کتابوں، میزان الصرف اور صرف صفر کا تذکرہ کیا ہے جو کہ حضرت لعل شہباز کی تحریرکردہ تھیں۔حضرت لعل شہباز قلندر ایک معروف شاعر بھی تھے۔ آپ کے کلام میں معرفتِ الٰہی اور سرکارِ مدینہ کی مدح سرائی، عشق حقیقی کے والہانہ انداز جا بجا نظر آتا ہے۔ آپ کی شاعری میں روحانی وارفتگی اور طریقت و تصوف کے
اسرار و رموز بے حد نمایاں اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں جو اکابر صوفیاء کرام کا ایک خاص طرۂ امتیاز ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر اپنے کلام میں عبدو معبود کے رشتوں کی ترجمانی اتنے حسین پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے قلوب میں گداز اور عشق و محبت کا جذبہ فروزاں ہونے لگتا ہے۔آپ کو ‘‘لعل’’ کہنے کی مختلف روایات ہیں۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ لعل شہباز قلندر کا خطاب آپ کے پیرومرشد نے عطا فرمایا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ اکثر لال رنگ کا لباس زیب تن فرماتے تھے کیونکہ یہ اہل مروند کا مخصوص لباس تھا۔جب آپ اپنی عمر کے سو سال مکمل کر چکے تھے کہ آپ کو ملتان جانے کا خیال آیا۔ آپ کے دوست حضرت بہاؤ الدین زکریا اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔
ان کے فرزند حضرت صدرالدین عارف ان کے جانشین تھے۔حضرت صدرالدین عارف کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ حضرت لعل شہباز قلندر چند خدمت گاروں کے ہمراہ ملتان آرہے ہیں تو آپ کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ اپنی خانقاہ پر لے آئے۔ اس وقت شہزادہ سلطان محمد تغلق حاکم ملتان تھا ، اس نے بھی اپنے دربار میں محفلِ سماع رکھی اور
حضرت لعل شہباز کو اپنے دربار میں مدعو کیا۔ آپ نے دعوت قبول کرلی۔ کہتے ہیں اس محفل میں دوران سماع اچانک حضرت لعل شہباز قلندر پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ حالت وجد میں اٹھے اور رقص کرنے لگے۔ آپ یہی وجدانہ رقص اس دھمال کی بنیاد بنا جو آج بھی آپ کے مزار پر دیکھا جاسکتا ہے۔سلطان نے خواہش ظاہر کی کہ آپ
ملتان میں ہی قیام فرمائیں مگر آپ نے فرمایا کہ آپ سیہون میں ہی رہیں گے۔
آپ کے ساتھ سلطان محمد تغلق کو اتنی عقیدت تھی کہ سلطان کی وفات کے بعد سلطان کی میت کو ٹھٹھہ سے سیہون لایاگیا اور آپ کی خانقاہ کے قرب وجوار میں دفن کیا گیا۔حضرت لعل شہباز قلندرنے تقریباً 103 برس (بعض تذکروں کے مطابق 112 برس )کی عمر پائی ، آسمانِ ولایت کا یہ شہباز اور سیہون اور سندھ کے گردونواح کے تاریک علاقوں کو نورِ اسلام سے منور کرنے والا یہ آفتاب 18شعبان المعظم673ھ بمطابق1275ء میں غروب ہوگیا لیکن لوگوں کے دلوں میں تاقیامت اس آفتاب کی روشنی باقی رہے گی۔