جب دونوں کا پیار عشق میں بدلا تو جدائی کا تصور بھی موت دکھائی دینے لگا‘ دونوں نے اپنے اپنے والدین کو آگاہ کر دیا لیکن دونوں خاندان انکاری ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ محبت امتحان لیتی ہے لہٰذادونوں کی محبت کی آزمائش شروع ہوگئی۔ دونوں نے آخر دم تک ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کر لیا۔ رُولا کے والدین کا سب سے بڑا اعتراض ہی مذہب تھا‘ ان کا کہنا تھا ایک مسلمان لڑکے سے تمہاری شادی نہیں ہو سکتی جبکہ اشرف نے گھر والوں کو یہ کہہ کر راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ رُولا کو مسلمان کرے گا اور اس کے بعد اس سے شادی کرے گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن دونوں کی بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے اشرف کے گھر والوں نے اسے واپس افغانستان بلا لیا‘ تین برس کی جدائی نے دونوں کو کندن بنا دیا اور عشق امتحان سے گزر گیا‘ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے عہد پر قائم تھے‘ بالآخر اشرف دوبارہ لبنان پہنچ گیا‘ رُولا کے خاندان سے بات کی اور دونوں کی بڑھتی ہوئی محبت کو دیکھتے ہوئے بالآخر یہ خاندان اس بات پر راضی ہو گیا ہم پہلے افغانستان جائیں گے‘ تمہارے والدین اور رشتہ داروں سے ملیں گے اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔ اشرف نے انہیں افغانستان آنے کی دعوت دے دی۔ یہ خاندان 1974ء میں افغانستان آیا تو اشرف نگاہیں فرش راہ کئے کھڑا تھا‘ سردیوں کے ابر آلود موسم میں یہ لوگ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کابل میں ٹھہرے‘ اشرف جلال آباد سے کابل آیا‘ اپنی گاڑی میں بٹھایا اور خاندان سے ملانے جلال آباد لے گیا۔ راستے میں جا بجا افغانستان کی پسماندگی اور غربت بکھری تھی‘ یہ لوگ جلال آباد پہنچے تو اشرف کا خاندان بے چینی سے ان کا انتظار کر رہا تھا‘ قیام کے دوران اشرف اور اس کے خاندان نے مہمان نوازی کے تمام تقاضے پورے کئے‘ مہمان داری کی افغان روایت نے لبنانیوں کے دل کو موم کر دیا‘ گفتگو‘ بحث و مباحثے اور دو مختلف ممالک کی دلچسپ روایات دونوں خاندانوں کے درمیان طوالت اختیار کرنے لگیں‘ دونوں خاندان ایک دوسرے کے قریب آئے اور آپس میں گھل مل گئے‘ یہاں تک کہ رُولا کے والدین نے ہاں کر دی۔ اشرف پھولا نہیں سمایا اور یوں دونوں کی شادی طے ہو گئی۔ محبت اپنے انجام کو پہنچی مگر محبت کے امتحان ابھی باقی تھے۔