اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ مفتی محمد سعید خان عالم دین اور مفتی ہیں‘ کتابوں کے عاشق ہیں‘ پرانے مری روڈ پر چھتر کے مقام پر ان کا مدرسہ اور یونیورسٹی ہے‘ انہوں نے وہاں وسیع کتب خانہ بنا رکھا ہے‘ میں نے پاکستان میں اس سے بڑی پرائیویٹ لائبریری نہیں دیکھی۔
مفتی صاحب کی لائبریری میں سو سال پرانی کتابیں بھی موجود ہیں‘ کتابوں کی کل تعداد لاکھ سے زیادہ ہے‘ آپ کو کسی بھی فقہ کی کوئی بھی کتاب چاہیے یا آپ احادیث‘تفسیر اور اسلامی تاریخ کی کوئی بھی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ چھتر چلے جائیں‘مفتی صاحب کی لائبریری جائیں اور آپ کو وہ کتاب وہاں مل جائے گی‘ پورے ملک سے لوگ ایم فل‘ پی ایچ ڈی اور سی ایس ایس کے لیے مفتی صاحب کے دارالعلوم آتے ہیں‘ مفتی صاحب انہیں رہائش بھی دیتے ہیں‘ کھانا بھی اور کپڑے بھی اور یہ لوگ اپنی ریسرچ کی تکمیل تک وہاں رہتے ہیں اور مفتی صاحب اس کے عوض کسی قسم کا معاوضہ نہیں لیتے‘ دارالعلوم کا روزانہ خرچ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے اور یہ رقم اہل خیر ادا کرتے ہیں‘ مفتی صاحب کسی طالب علم یا لائبریری سے استفادہ کرنے والوں سے کوئی پیسہ وصول نہیں کرتے‘ ان کی شخصیت میں بے تحاشا حلیمی‘ عاجزی اور صبر ہے‘ یہ فطرتاً سادہ اور شریف ہیں‘ سائیڈ پر بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں اور یہ کر بھی رہے ہیں‘ جھوٹ بالکل نہیں بولتے‘ سچ بولیں گے اور اگر سچ سے فساد کا اندیشہ ہو تو یہ خاموش رہیں گے‘ یہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں شامل ہیں‘ عمران خان سے ان کا تعلق 2005ء میں شروع ہواتھا اور یہ آہستہ آہستہ پارٹی میں شامل ہو گئے‘ مفتی صاحب نے ریحام خان اور بشریٰ بی بی کا عمران خان سے نکاح پڑھایا تھا‘ یہ دونوں نکاح دو دو بار ہوئے تھے‘ کیوں ہوئے تھے؟ یہ ایک مسٹری ہے‘
بہرحال ان نکاحوں کی وجہ سے یہ تنازع کا شکار ہوئے اور میڈیا نے انہیں تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن یہ صاحب کردار ہیں لہٰذا انہوں نے ہمیشہ عمران خان کا پردہ رکھا‘ میں نے اوپر نیچے اس موضوع پر کالم تحریر کیے‘ ان کالموں میں بار بار مفتی سعید خان کا نام آیا تھا‘ میں نے ان سے رابطہ کیا‘ یہ اپنی پوزیشن کلیئر کرنے پر رضا مند ہو گئے اور یوں میری ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی۔
مفتی سعید خان کا دعویٰ ہے ’’میں بشریٰ بی بی سے واقف نہیں تھا‘ 31 دسمبر 2017ء کو عون چودھری نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے بتایا‘ عمران خان نکاح کرنا چاہتے ہیں‘ ہم آپ کو نکاح کے لیے شہر سے باہر لے جانا چاہتے ہیں‘ میں راضی ہو گیا‘ ہم نے آبپارہ کا مقام طے کیا‘ میں اپنی گاڑی میں وہاں پہنچ گیا‘ عون چودھری ذلفی بخاری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر میرا انتظار کر رہے تھے‘
میں زندگی میں پہلی بار اس دن ذلفی بخاری سے ملا تھا‘ ہم وہاں کھڑے ہو کر عمران خان کا انتظار کرنے لگے‘ عمران خان آئے اور یہ عون چودھری اور ذلفی بخاری کے ساتھ ایک گاڑی میں لاہور روانہ ہو گئے جب کہ میں دوسری گاڑی میں ان کے پیچھے چل پڑا‘ ہم لاہور پہنچے‘ مجھے ڈیفنس میں کسی گھر لے جایا گیا‘ وہ ایک بڑا گھر تھا‘ وہاں دو تین خاندان موجود تھے‘
میری وہاں بشریٰ بی بی سے پہلی ملاقات ہوئی‘ ہم نے نکاح کا فارم پُر کرنا شروع کیا‘ بشریٰ بی بی کی بہنیں اور سہیلیاںبھی وہاں تھیں اور بچے بھی تھے (مفتی سعید بشریٰ بی بی کے بچوں کو نہیں پہچانتے تھے لہٰذا یہ نہیں جانتے یہ بی بی کے اپنے بچے تھے یا وہ کسی دوسرے خاندان سے تعلق رکھتے تھے) میں نے بشریٰ بی بی سے پوچھا‘ کیا آپ کا نام بشریٰ بی بی ہے اور آپ کے والد کا نام یہ ہے‘ خاتون نے تصدیق کر دی‘ میں نے پوچھا‘ کیا آپ نکاح کے قابل ہیں یعنی کیا آپ شریعت کے تمام تقاضے پورے کرتی ہیں‘
آپ طلاق اور عدت کے عمل سے گزر چکی ہیں‘ بی بی نے تصدیق کر دی‘ میں نے ان کی بہنوں اور سہیلیوں سے بھی تصدیق کرائی‘ انہوں نے بھی اعتراف کیا یہ طلاق یافتہ ہیں اور عدت پوری کر چکی ہیں‘‘ میں نے مفتی صاحب کو ٹوک کر پوچھا ’’کیا آپ نے بشریٰ بی بی کی طلاق کے کاغذات دیکھے تھے؟‘‘ مفتی صاحب کا جواب تھا ’’میں نے نہیں دیکھے اور نکاحوں کے دوران عموماً اس قسم کے کاغذات کا مطالبہ نہیں کیا جاتا‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘ مفتی صاحب کا جواب تھا ’’حق مہر کی بات ہوئی‘
عمران خان نے اپنا زمان پارک کا گھر اور بنی گالا کا سات کنال کا پلاٹ بشریٰ بی بی کو حق مہر میں دے دیا‘ ہم نے یہ حق مہر فارم پر تحریر کر دیا‘ اس کے بعد نکاح ہوا‘ عمران خان نے بشریٰ بی بی اور بشریٰ بی بی نے عمران خان کو قبول کر لیا‘ میں نے دعا کرائی‘ حاضرین نے آمین کہا اور عمران خان دلہن کو لے کر اس گھر سے رخصت ہو گئے‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا بشریٰ بی بی کی رخصتی آپ کے سامنے ہوئی تھی؟‘‘یہ بولے ’’جی ہاں‘ بشریٰ بی بی کی رخصتی میرے سامنے ہوئی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا نکاح نامے پر عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں نے دستخط کیے؟‘‘ مفتی سعید کا جواب تھا ’’جی ہاں یہ دستخط میرے سامنے ہوئے تھے‘ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رخصتی کے بعد میں فارم سمیت گھر سے نکلنے لگا تو عون چودھری نے وہ فارم مجھ سے لے لیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ نکاح کس تاریخ کو ہوا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یکم جنوری 2018ء کو‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو بشریٰ بی بی کی عدت کا پتا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’مجھے اس وقت پتا نہیں تھا‘ بی بی نے مجھ سے غلط بیانی کی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا عمران خان کو پتا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’میں اس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا تاہم نکاح کے چند دن بعد عمران خان اس حقیقت سے آگاہ ہو گئے تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا تھا‘ میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے‘
آپ پلیز اس کی حفاظت کیجیے گا‘ میں نے ان سے وعدہ کر لیا اور میں آخر تک یہ وعدہ نبھاتا رہا‘‘ میں نے پوچھا ’’عدت کا ایشو آپ کو کس نے بتایا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’مجھے عون چودھری اور خان صاحب کے چند دوسرے دوستوں نے بتایا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کا ری ایکشن کیا تھا؟‘‘ یہ بولے مجھے بہت برا لگا کیوں کہ یہ سیدھا سادا گناہ تھا اور بشریٰ بی بی (اورشاید عمران خان بھی) اس گناہ کی ذمہ دار تھیں لہٰذا میں نے عون چودھری اور عمران خان کو بتایا آپ کو عدت کے بعد اس نکاح کی تجدید کرنا ہو گی
اور یوں یہ لوگ عدت پوری ہونے کا انتظار کرنے لگے‘‘ میں نے پوچھا ’’دوسرا نکاح کب ہوا؟‘‘ یہ بولے ’’دوسرا نکاح 18 فروری 2018ء کو ہوا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اس نکاح کے گواہ بھی عون چودھری اور ذلفی بخاری تھے اور کیا اس میں بھی فارم مکمل کیا گیا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’جی ہاں وہ ساری ڈرل دوبارہ ہوئی تھی‘ ذلفی بخاری اور عون چودھری نے گواہی دی تھی‘
حق مہر کا دوبارہ ذکر ہوا تھا‘ ایجاب و قبول دوبارہ ہوا تھا اور فارم پر دستخط اور انگوٹھے کے نشان بھی دوبارہ ہوئے تھے اور اس سارے عمل کی تصویریں اور ویڈیوز بھی بنائی گئی تھیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ہماری معلومات کے مطابق بشریٰ بی بی کی طلاق 14 نومبر 2017ء کو ہوئی تھی‘ عدت کی مدت 14 فروری 2018ء کو پوری ہو رہی تھی لیکن نکاح اور رخصتی یکم جنوری 2018ء کو یعنی طلاق کے صرف 47 دن بعد ہو گئی‘ دوسرا نکاح پہلے نکاح کے 49 دن بعد ہوا اور ان دونوں نکاحوں کے درمیان 48 دن ہیں‘
شریعت میں ان48 دنوں کی کیا حیثیت ہے؟‘‘ یہ بولے ’’یہ دن گناہ ہیں او ربشریٰ بی بی گناہ گار ہیں کیوں کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنی عدت چھپائی‘ یہ اس لحاظ سے بھی زیادہ برا تھا کہ بی بی دین دار‘ پرہیز گار اور اسلامی شریعت سے واقف بھی تھیں لہٰذا انہیں توبہ بھی کرنی چاہیے اور کلمہ بھی دوبارہ پڑھنا چاہیے‘ یہ دائرہ اسلام سے باہر ہو چکی تھیں (یا ہیں)‘‘ میں نے پوچھا ’’اور عمران خان؟‘‘
یہ بولے ’’اگر عمران خان عدت سے واقف تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو یہ بھی کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں بھی تجدید ایمان کرنی چاہیے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ عمران خان کو اس ضمن میں بے گناہ سمجھتے ہیں‘‘ یہ بولے ’’یہ اللہ اور عمران خان کا معاملہ ہے‘ خان صاحب نے اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا تو یہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں اور اگر یہ عدت سے واقف نہیں تھے
تو پھر ساری ذمہ داری بشریٰ بی بی پر عائدہوتی ہے‘‘ مفتی صاحب کا کہنا تھا ’’اس معاملے میں بہرحال بشریٰ بی بی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ میں نے آخر میں پوچھا ’’کیا آپ خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں؟‘‘ یہ بولے ’’آپ بتائیے کیا میں ذمہ دار ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا
’’میں عالم یا مفتی نہیں ہوں لیکن میں اتنا جانتا ہوں نکاح ایک حلال فعل ہے اور بطور عالم دین اور مفتی آپ سے جوبھی نکاح پڑھانے کا کہے گا آپ پر فرض ہے آپ یہ فریضہ انجام دیں اور آپ نے اپنا فرض اداکیا لیکن اگر آپ کو عدت کا پتا تھا اور آپ نے اس کے باوجود نکاح پڑھایا تو پھر آپ بھی ذمہ دار ہیں‘‘ یہ سنجیدگی سے بولے ’’باخدا میں بشریٰ بی بی کی عدت سے واقف نہیں تھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’پھر آپ بے قصور ہیں‘ اب صرف عمران خان اور بشریٰ بی بی ذمہ دار ہیں‘‘۔