اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی نے وزارت اطلاعات و نشریات کے دس ارب سات کروڑ سے زائد کے تین مطالبات زر منظور کر تے ہوئے اپوزیشن کی کٹوتی کی 107 تحاریک مستردکر دیں۔ پیر کو قومی اسمبلی نے وزارت اطلاعات و نشریات کے دس ارب 7 کروڑ روپے کے تین مطالبات زر کی منظور ی دیدی تاہم مطالبات زر
پر اپوزیشن کی کٹوتی کی 107 تحاریک مسترد کر دی گئیں قبل ازیں کٹوتی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مریم اور نگزیب نے کہاکہ یہ پہلے وزیر اطلاعات جب بنے تھے صحافی سڑکوں پر تھے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی وی پارلیمنٹ کا مقصد پارلیمنٹ کی کارروائی عوام تک پہنچانا تھا لیکن 2018 سے 2021 تک پارلیمنٹ حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی وی کا مسئلہ ڈیجیٹل نہیں پروڈکشن ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی وی میں 121 پروڈیوسر کام کر رہے ہین، اگر انھوں نے 21 پروڈکشن بھی دی تو میں استعفیٰ دے دوں۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نے بڑی پاکستانیت کی بات کی،مسلم لیگ (ن)نے کلچر فلم پالیسی کا کام کیا تھا،ہم نے آرٹسٹ فنڈ لایا تھا، وہ آرٹسٹ فنڈ بجٹ میں نظر نہیں آ رہا۔مریم اور نگزیب نے کہاکہ صحافیوں کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے،صحافیوں کو پارکس میں گولیاں ماری جا رہی ہیں ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک سال میں 140 حراسگی کیس آئے،صحافیوں کی سنسر شپ جان کا مسئلہ ہے،وزارت صحافیوں کی سیکورٹی کے حوالے سے جلدی قانون سازی کری۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اظہار رائے کء آزادی پر حملے کے مترادف ہے،ایسا قانون نہ لائیں جو اظہار رائے کء آزادی کا قتل عام کرے،پی آئی ڈی صرف اپوزیشن کو گالیاں دینے
استعمال ہوئی ہے،۔آج بھی ہمارے بچے کسی بھی معلومات کے کیے غیر ملکی مواد پر انحصار کر رہے ہیں،آپ کو صحافیوں کو تحفظ دینا ہو گا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے شازیہ مری نے کہا ہحکومت کی نیت اور ارادہ ہی نہیں کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرے،حکومت صحافیوں پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی
ہے،صحافیوں کے خلاف غداری کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں،الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی آڑ میں صحافیوں کو دبایا جا رہا ہے،صحافیوں کے مقدمات لڑنے والے وکلاء کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ صحافیوں کی سیکورٹی کی حوالے سے پاکستان میں خوش خبری نہیں،اگر کوئی خوش خبری دیکھانا چاہتا ہے وہ گوبلز ہی ہو
سکتا ہے،حکومت کی صحافیوں کو سیکورٹی دینے کی نیت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو نے انسانی حقوق کمیٹی اجلاس میں صحافیوں کو بلایا،مطیع اللہ جان نے بتایا کہ انکے کیس میں کوئی پیش رفت نہیں، انھیں سی سی ٹی وی فوٹیج آج تک نہیں دی گئی،اسد طور پر حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں تو شکل بھی واضح ہے،اسد طور کے
وکلاء نے انکشاف کیا کہ انھیں لوگ فالو کر رہے ہیں، انھیں کیس کی پیروی سے روک رہے ہیں،ہمارے تحفظات تھے کہ پیکا کا قانون لوگوں کو حراساں کرنے استعمال ہو گا،آج جو لوگ اپ کو اچھے نہیں لگتے تو آپ ان پر PECA کے تحت مقدمہ قائم کر دیتے ہیں،غداری کا مقدمہ قائم کر دیتے ہیں،کوئی اصل حقائق بیان کر رہا ہے تو وہ
غدار نہیں،پہلے ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ کس نے حملہ کیا ہے،اب صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں،اسد طور نے حملے میں ایک ایجنسی کا نام لیا،اگر کوئی ہے تو وہ ایجنسی کو بدنام کر رہا ہے،اگر ایسا درست نہیں تو ہم اسد طور کو غلط ثابت کریں کہ ایجنسی ملوث نہیں۔رومینہ خورشید نے کہاکہ اشتہارات کی پالیسی بننا تھی
جو آج تک نہیں بنی تو کس پالیسی کے لیے بجٹ مانگ رہے ہیں،حکومت ایک یو ٹرن کی وزارت متعارف کروا دے،اشتہار لگا کر جو تشہیر کرتے ہیں، یہ اپنے جھنڈوں کو لگا کر تشہیر کرتے ہیں،نواز شریف کی تصویر پر اپ کو تکلیف تھی، جھنڈوں پر نہیں ہے،عمران خان کہتے تھے پی ٹی وی کو بی بی سی کے پیٹرن پر بنائیں گے، وہ تو
ابھی ہمیں نظر آ رہا ہے،حکومت اپنی ورکرز کو نواز رہے ہیں اور ڈیجیٹل شعبوں میں انھیں شامل کر رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے کہاکہ ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان رہا ہے،بیس سال ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے،بین الاقوامی میڈیا پر
ہمارا بیانیہ نہیں آتا،ہمارا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کا بجٹ صرف چار کروڑ،بھارت کا اربوں کا ہے،انفولیب پکڑی گئی جس میں پاکستان کے خلاف سینکڑوں ویب سائٹ لانچ کی گئیں،بلوچستان میں شورش کو ہوا دی گئی، ٹی ایل پی کے حق میں ٹویٹس کئے گئے،اصل لڑائی“ وار آف اوپینین”ہے۔ وزیر اطلاعا تنے کہاکہ پچھلی حکومتوں نے انفارمیشن
منسٹری کے اداروں کو صرف ووٹروں کو نوکری دینے تک محدود رکھا،پچھلے ادوار میں پی ٹی وی میں بائیس سو لوگ بھرتی کئے گئے جنہیں بتیس کروڑ تنخواہیں دیتے ہیں اور کام پانچ فیصد نہیں کرتے،اس کے نتیجے میں اے پی پی، پی ٹی وی، ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز بٹھادی گئی،ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ انفارمیشن منسٹری کو سابقہ حکومتوں نے حکمران جماعتوں کا ترجمان بنادیا ہم نے انہیں ریاست کے ترجمان بنایا ہے،اگست میں پی ٹی وی مکمل ایچ ڈی ہوجائے گا،اے پی پی کو ہم اے ایف ہی اور فائٹرز کی سطح پر لے جارہے ہیں،ریڈیو پاکستان کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں۔ انہوں نے کاہکہ پاکستان کی صحافتی
تاریخ میں صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئے، پی پی پی کے دور میں انتالیس حملوں میں بتیس صحافی قتل ہوئے، مسلم لیگ ن کے دور میں اٹھارہ حملوں میں چودہ صحافی قتل ہوئے،ہمارے دور میں آٹھ واقعات ہوئے، دو صحافی سندھ میں قتل ہوئے،فیک نیوز آتی ہیں جن کو افغانستان سے ہوا دی جاتی ہے جس کا
حصہ ہمارے دوست بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک خاتون پروفیسر لندن میں بیٹھی ہیں پاکستان کے خلاف مہم چلارہی ہیں،یہ خاتون پاکستان ہائی کمیشن کے سامنے مظاھرہ کرتی ہیں جس کوْپورا میڈیا جگہ دیتا ہے،انٹرنیشنل میں ہمارے خلاف جو چھپتا ہے اس پر ہمارے مخالفین کی طرف سے پیسہ دیا جاتا ہے، آج امر صالح جو بیان دیتا
ہے ویسی ہی بات یہاں سے جو کرتا ہے اس کو شرم آنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات پاکستان کے بیانیہ کو آگے بڑھائے گی۔ انہوں نے کہاکہ پی ایم ڈی اے اور جرنلسٹ پروٹیکشن بل میں صحافیوں کو بھرپور حقوق دینے جارہے ہیں،کامیاب جوان پروگرام میں پاکستانی صحافیوں کو شامل کیا ہے،جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ ہیومن
رائٹس کمیٹی میں بلاول بھٹو زرداری لے کر بیٹھے ہیں اسے آگے بھیجا جائے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان سے جو پاکستان مخالف boast ملتا ہے، ہمارے نادان دوست اسکا حصہ بنتے ہیں،ریاستی میڈیا کی آپ کو کیا ضرورت ہے جب بین الاقوامی میڈیا آپ کے پیچھے کھڑا ہے،ایک بندی لندن میں موجود ہیں، لندن ایمبسی کے سامنے مظاہرے
کرتی ہیں اور انکی گفتگو لندن کے ٹاپ میڈیا میں جگہ دی جاتی ہے،افغانستان سے پاکستان کے خلاف تحریک کیا مفت میں ہو رہی ہے،امریکہ کے اخبار میں ارٹیکل مفت میں لکھے جا رہے ہیں؟،ہر لفظ کی قیمت دی جاتی ہے،چھوٹے چھوٹے مفاد کے لیے بین الاقومی اسٹیبشلنٹ کے لیے استعمال ہو جاتے ہیں۔