اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک، آن لائن )پاکستان کا پاور سیکٹر گزشتہ 14 سال کے عرصے میں سبسڈیز اور دیوالیہ ہو نے سے بچانے کے لئے 35 کھرب روپے نگل چکا ہے ۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق گردشی قرضے کا مسئلہ مالی سال 2007 سے لے کر 2020 تک محیط ہے ۔ان سبسڈیز کے لئے قرضوں پرسود 8 فیصد کے تناسب
سے 20 کھرب روپے ہے ۔اب حکومت کے لئے سبسڈیز دینے کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے ۔ 18 جون سے 21 مارچ تک 500 ارب روپے کی سبسڈیز دئے جا نے کے باوجود گردشی قرضے کا حجم دگنا ہو کر 23 کھرب 70 ارب روپے تک پہنچ گیا ۔اقتصادی مشاورتی کونسل نے حکومت کے لئے ان سفارشات کی منظوری دی ہے کہ برطانیہ کی طرز پر بجلی کی مد میں ٹیکسوں کا بوجھ کم کر کے گردشی قرضے سے چھٹکارا پایا جائے۔دوسری جانب ملک بھر میں بجلی کی مجموعی پیداوار19 ہزارمیگاواٹ اورطلب 24 ہزارمیگاواٹ ہو گئی ۔ ملک بھر میں بحلی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے اور مجموعی شارٹ فال 5000 میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے اور متعدد علاقوں میں غیر اعلانیہلوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں، تاہم وزارت توانائی دعوے کررہی ہے کہ شارٹ فال 1500 میگا واٹ ہے اور لوڈشیڈنگ بھی کم ہورہی ہے۔پاور ڈویژن ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت بجلی کی مجموعی
پیداوار 19 ہزارمیگاواٹ اور طلب 24 ہزار میگاواٹ ہے اور ملک بھرمیں 8 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کا سسٹم اوورلوڈڈ ہے، 80 فیصد ٹرانسفارمراوورلوڈڈ ہیں، طلب بڑھنے کے باعث فیڈرزٹرپ کررہے ہیں۔دوسری جانب ترجمان وزارت توانائی کا کہنا ہے کہ کم پانی کے اخراج کی وجہ سے تربیلااورمنگلا
سے اس وقت 3300 میگاواٹ کی کم بجلی پیدا ہو رہی ہے، ملک کی کل بجلی کی ڈیمانڈ 24100 میگاواٹ جب کہ سسٹم میں موجود پیداوار 22600 میگاواٹ ہے، تقسیم کار کمپنیوں کو نظام بہتر بنانے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں، بجلی کی پیداوار آنے والے دنوں میں بڑھ جائے گی، بجلی صارفین سے عارضی طور پر لوڈ مینجمنٹ پرمعذرت خواہ ہیں اور گزارش کرتے ہیں بجلی استعمال میں اعتدال اپنائیں۔