اسلام آباد (نیوز ڈیسک) آسٹریلیا میں پیش آنے والے دہشت گرد حملے کو پاکستان سے منسوب کرنے کی بھارت اور اسرائیل کی کوششیں ناکام ہو گئیں، جب کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے ساجد اکرم کے بھارت سے تعلق رکھنے کے شواہد سامنے آ گئے ہیں۔
گزشتہ روز سڈنی میں ہونے والے اس پرتشدد واقعے میں مجموعی طور پر 16 افراد جان سے گئے جبکہ تقریباً 40 افراد زخمی ہوئے۔ حملے کے دوران ایک ملزم پولیس فائرنگ سے مارا گیا، جب کہ دوسرا زخمی حالت میں گرفتار ہوا جو تاحال اسپتال میں زیر علاج ہے۔
واقعے کے فوراً بعد بھارتی اور اسرائیلی میڈیا سمیت بعض سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی مہم شروع کر دی۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے حملہ آوروں کو پاکستانی ظاہر کیا، جب کہ بھارتی خفیہ ادارے سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھی پاکستان مخالف بیانیہ پھیلانے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی سرکاری ریکارڈ میں ساجد اکرم اور نوید اکرم کے پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی حکام کا بھی کہنا ہے کہ مقامی پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے ایسی کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی۔
اب تک آسٹریلوی حکام کی کسی بریفنگ میں پاکستان کا ذکر شامل نہیں رہا۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ ساجد اکرم سیاحتی ویزے پر آسٹریلیا گیا تھا، تاہم ذرائع کے مطابق یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ساجد اکرم 1998 میں طالب علم ویزے پر آسٹریلیا پہنچا تھا، جو بعد ازاں 2001 میں ایک آسٹریلوی خاتون وارینا سے شادی کے بعد پارٹنر ویزے میں تبدیل ہو گیا۔ آسٹریلیا کے وزیر داخلہ ٹونی برک کے بیانات بھی ان معلومات کی تصدیق کرتے ہیں۔
کچھ مغربی ذرائع ابلاغ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی انٹیلیجنس نے دونوں افراد کے پاکستان سے تعلق کی تصدیق کی ہے، لیکن ذرائع اس کی تردید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ساجد اکرم گزشتہ دس برس سے آسٹریلیا کے ایک گن کلب کا رکن تھا اور اس کے پاس سے چھ لائسنس یافتہ اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
مزید یہ کہ آسٹریلوی تفتیشی اداروں کی جانب سے بھی تاحال ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا جس میں حملہ آوروں کو پاکستان سے جوڑا گیا ہو۔ نوید اکرم کے ایک ساتھی نے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ نوید اکرم کی والدہ اطالوی اور والد بھارتی نژاد ہیں۔
واضح رہے کہ بھارتی میڈیا نے ایک پاکستانی شہری شیخ نوید کی تصاویر نشر کر کے انہیں سڈنی حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا، تاہم شیخ نوید نے ویڈیو پیغام کے ذریعے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح بھارتی پروپیگنڈا ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا۔















































