اسلام آباد(نیوز ڈیسک )کتوں کی جینیات سے متعلق اب تک کیے جانے والے سب سے جامع سروے سے پتہ چلا ہے کہ دورِ حاضر کے کتوں کی نسل وسطی ایشیا سے شروع ہوئی تھی۔
کتا زمین پر پائے جانے والا سب سے متنوع جانور ہے، اور انسان ہزاروں برسوں سے ان کی افزائشِ نسل کرتا چلا آیا ہے۔
کتے دم کیوں ہلاتے ہیں؟
کتا دراصل بھیڑیوں کی نسل سے ہے، جنھیں انسانوں نے رفتہ رفتہ سدھایا۔ یہ کام سب سے پہلے نیپال یا منگولیا کے قریب ہوا۔
یہ نتائج ہزاروں کتوں کے ڈی این کے مشاہدے سے سامنے آئے ہیں، انھیں پی این اے ایس نامی سائنسی جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔
کورنیل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایڈم بوئکو اور ان کے ساتھیوں نے4676 خالص النسل کتوں اور انسانی بستیوں میں گھومنے والے 549 آوارہ کتوں کے ڈی این اے کا مشاہدہ کیا۔
کتوں کو پالتو بنانے کا عمل دنیا کے مختلف حصوں میں ہو سکتا تھا لیکن دورِ جدید کے کتوں کے ڈی این اے سے اس خیال کی تصدیق نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر بوئکو کا کہنا ہے کہ ’ہم نے خاص طور پر اس معاملے میں غور کیا ہے کہ آیا کہیں ایک سے زیادہ مقامات پر کتوں کو پالتو بنانے کے واقعات کے شواہد ملیں لیکن ہمیں اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملے۔تحقیق کہتی ہے کہ دورِ حاضر کے کتے درحقیقت بھیڑیوں کی نسل سے ہیں
’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کتوں کا ماخذ ایک ہی جگہ پر ہوا۔ تاہم بعض معاملات میں کتوں کو پالتو بنانے کے بعد کے عرصے میں بھی کتوں اور بھیڑیوں کے جینز میں وقتاً فوقتاً اخطاط ہوتا رہا ہے۔‘
سائنس دانوں نے کتوں کے ڈی این اے میں ان جینز کا مطالعہ کیا جو کروموسومز پر ایک دوسرے کے قریب قریب واقع تھے۔
ان جینز کے پیٹرن کے تقابلی جائزے سے سائنس دانوں کی ٹیم کو معلوم ہوا کہ کتوں کو پالتو بنانے کا عمل سب سے پہلے وسطی ایشیا میں ہوا تھا۔
اس سے پہلے کی جانے والی تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ کتوں کا ماخذ وسطی ایشیا، مشرقی ایشیا یا پھر یورپ تھا۔
حالیہ نتائج سے یہ بحث ختم تو نہیں ہوتی لیکن ڈاکٹر بوئکو کا کہنا ہے کہ کتوں کے ماخذ کو محدود کرنے سے مزید تحقیق میں مدد ملے گی۔
زیادہ تر محققین کا کہنا ہے کہ کتے 15 ہزار سال سے انسانوں کے قریب ہیں۔ لیکن ان کی ابتدا اب بھی مبہم ہے۔
ڈاکٹر بوئکو کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں یہ انسانوں کے گرد رہتے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ انسانی زندگی میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ یہ سوال یہ ہے کہ ایسا ہونے کے لیے پہلا قدم کیا اٹھایا گیا۔‘
جانئے ،کتوں کی نسل وسطی ایشیا سے کہاں چلی؟
21
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں