کیلی فورنیا (نیوز ڈیسک) سائنسدان گزشتہ ایک صدی سے یقین رکھتے آئے ہیں کہ انسانی یادداشت اعصابی خلیوں کے جوڑ جنہیں سی نیپس بھی کہتے ہیں، ان کے اندر جمع ہوتی ہے تاہم امریکی ماہرین نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔ پرانے خیال کے مطابق جب دماغی خلیئے خاص طرح کا کیمیکل ان جوڑوں میں خارج کرتے ہیں تو انسان کو ماضی کا کوئی واقعہ یاد آتا ہے۔ جب جب ماضی کی کوئی یاد تازہ ہوتی ہے تب تب دماغی اور اعصابی خلیوں کے بیچ یہ تعلق قائم ہوتا ہے اور مضبوط ہوتا ہے۔ تقریباً ایک صدی پرانے اس خیال کو جسے دنیا بھر کی بائیولوجی کی کتابوں میں پورے اعتماد کے ساتھ جگہ بھی دی گئی ہے، لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کی ایک ٹیم نے غلط ثابت کردیا ہے۔ اگر ماہرین اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب رہے تو امید ہے کہ اس طرح نفسیاتی عارضے پی ٹی ایس ڈی کا علاج ڈھونڈنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس تکلیف میں مبتلا مریض تکلیف دہ یادوں سے بے حد پریشان رہتا ہے۔ ماہرین نے ایک دہائی قبل اس مرض کے علاج کیلئے پروپرینولول نامی دوا پر تجربے شروع کئے تھے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ دا دماغ میں یادوں کے تازہ ہونے کے عمل کو روکے گی کیونکہ اس میں ان پروٹینز کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے جو کہ طویل عرصے کیلئے کسی واقعے کو دماغ میں تازہ رکھتے ہیں۔ اس کیلئے تجربات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ بیماری کا شکار ہونے کے فوری بعد اگر اس دوا کو مریضون کو دیا جائے تب تو فرق کی توقع کی جاسکتی ہے تاہم دوسری صورت میں یہ دوا کوئی فرق پیدا نہیں کرپاتی ہے۔ بعد ازاں ماہرین کو معلوم ہوا کہ جب کوئی فرد کسی ماضی کی یاد کو دوہراتا ہے تو وہ اسے دوبارہ یاد ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس مین معمولی سی تبدیلیان بھی واقع ہوسکتی ہیں۔ اس موقع پر پروپرینیلول خواہ گولی کی شکل میں دی جائے یا انجکشن دیا جائے تو مریض میں دوبارہ یادداشت کے واپس آنے کو روکا جاسکتا ہے۔تازہ ترین تجربہ ماہرین نے لیبارٹری میں ایک ممالیہ جانور پر کیا ہے جس ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ یادداشت سیناپیز میں جمع نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ خلیہ مین ہی کہیں موجود ہوتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ماہرین نے سینپایز کو دماغ سے علیحدہ کیا تو بھی انہیں معلوم ہوا کہ خلیوں میں مالیکیولر اور کیمیائی تبدیلیاں مسلسل رونما ہوتی رہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں