کراچی (این این آئی) مفت تعلیم 5 سے 16 برس تک کے بچوں کا آئینی حق ہے۔ ٹیکس وصولیابی درست کرلی جائے تو مالی خسارے پر قابو پانے کیلئے یومیہ 6 ارب روپے نہ چھاپنے پڑیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار نہ صرف خود نادہندہ ہے بلکہ ٹیکس اچک کر خزانے تک ارسال نہیں کرتا۔ یہ باتیں عام لوگ اتحاد
کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے وکلا برادری کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہیں۔ اس موقع پر پارٹی چیئرمین رحمت اللہ خان وزیر، وائس چیئرمین ڈاکٹر ضیخم، سیکریٹری جنرل اعجاز حسین عثمانی، سندھ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر امجد اور دیگر موجود تھے۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مملکت کیلئے سب سے اہم ذمہ داری امن و امان قائم کرنے کی ہے۔ اور اس میں وکلا برادری کا کلیدی کردار ہے، جیسا کہ 2007 سے لیکر 2009 تک وکلا تحریک میں ہم نے دیکھا۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل میدان تعلیم کا ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی اور بڑھ جاتی ہے کہ تقریباً 60 فیصد پاکستان کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نجی تعلیم بہت مہنگی ہے اور وہاں بھی کامیاب ادارے بہت کم ہیں، جہاں پر داخلہ بھی مشکل سے ملتا ہے۔ آئین کی شق 25A میں یہ یقینی بنایا گیا ہے اور یہ ایک بنیادی حق ہے کہ 5 سے 16 سال کی عمر تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ لیکن اس میں ہمارے قانون ساز بھائیوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ وہ متعلقہ قانون کے ماتحت ہوں گی۔ تاہم ملک میں کسی بھی صوبائی حکومت نے اس طرح کا قانون وضع نہیں کیا ہے۔ عالم لوگ اتحاد کے منشور میں آرٹیکل 25A پر عملدرآمد کرانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عموماً ترقیاتی ممالک
اور خصوصاً شمالی امریکہ اور شمالی یورپ میں ملازمت نہ ہونے کی صورت میں وظائف عوام الناس تک پہنچانا سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے ماتحت تقریباً 6 ارب روپیہ روزانہ چھاپا جاتا ہے۔ اور یہ تمام پیسہ صرف اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ مالیاتی خسارہ کسی طریقے سے پورا کردیا جائے۔ اگر پاکستان کی
کوئی حکومت حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے اور اسے غریب شہریوں کی فکر ہے تو بے روزگار افراد کو کم از کم بنیادی ضروریات زندگی کے مطابق ایک وظیفہ ادا کرنا ایک افضل ترین ترجیحات میں ہونا چاہیئے، جو نہیں ہے۔ عام لوگ اتحاد کی حکومت آئی تو ایسا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ دراصل نوٹ چھاپنے کی کوئی ضرورت نہیں
ہے، کیونکہ پاکستان میں معیشت بہت وسیع ہے۔ دو قسم کی معیشتیں ہوتی ہیں، ایک فارم اور دوسری اِن فارمل۔ فارمل معیشت اصل معیشت کا تقریباً ۵/۱ حصہ ہوتی ہے۔ بڑی معیشت اِن فارمل ہے۔ اس کو دستاویزی کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ فارمل معیشت میں بھی لوگ یا تو ٹیکس دیتے نہیں ہیں اور اگر دیتے ہیں تو اس میں بھی چوری
چکاری کا عنصر غالب آتا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امکانی طور پر پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ لوگ قابل محصول آبادی کا حصہ ہیں۔ ماسوائے تنخواہ دار کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کا جو معاملہ چلا اور وہ پانامہ لیکس کے شکار ہوئے، اس طرح کے تقریباً 400 یا 500 افراد اور بھی تھے لیکن ان
کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ نواز شریف تو حصہ دار ٹھہرے۔ پیپلز پارٹی کو بھی حصہ دار ہی سمجھ لیجئے۔ مگر پی ٹی آئی والے جو کرپشن کو روکنے کی ببانگ دہل باتیں کیا کرتے تھے انہوں نے ان 400 یا 500 افراد کا کیا کیا۔ اور انہوں نے نوٹ چھاپنے پر کیوں اکتفا کیا۔ اس قوم کا بچہ اگر ٹافی بھی کھاتا ہے تو اس پر بھی
سیلز ٹیکس ہے۔ اگر ایک عام آدمی اپنی موٹر سائیکل کی سروس کراتا ہے تو اس پر بھی سروس سیلز ٹیکس ہے۔ ٹیشو پیپر کے باکس پر بھی آپ 16 فیصد سیلز ٹیکس کا اندراج پائیں گے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا تقریباً ہر شخص ٹیکس دے رہا ہے لیکن اس کا ٹیکس ایف بی آر تک نہیں پہنچتا اور ملک کے مفاد میں استعمال نہیں ہوتا۔ اس
اکیسویں صدی میں جبکہ وصولیابی کے ساتھ ساتھ (جب رسید کا اجرا کیا جاتا ہے) ٹیکس کو الیکٹرونکلی ایف بی آر میں چلا جانا چاہیئے۔ لیکن کاروباری حضرات کو تین چار ماہ دیئے جاتے ہیں کہ اس میں اپنے ریٹرنز بنائیں اور اسے فائل کریں۔ نتیجتاً جو ٹیکس وہ وصول کرتے ہیں اس کا دسواں حصہ بھی ملک و قوم کے استعمال میں نہیں آتا
بلکہ ان کے منافع کی نظر ہوجاتا ہے۔ یہی ٹیکس اگر اکٹھا ہونے لگے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 20 کھرب روپے سالانہ وصول ہوں گے۔ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کیلئے نوٹ چھاپنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور ملک کی بہبود کے کام ہوسکیں گے، جو یہ کرنے والے نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نام نہاد عوامی اداروں
میں عوامی نمائندگان نہیں ہیں۔ یہاں زر اور زمین کے نمائندے ہیں اور وہ بھی صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی حد تک ہیں۔ جہاں تک بلدیاتی حکومتوں کا تعلق ہے تو سارے ملک سے ان کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں موجودہ سیاسی پارٹیاں فیل ہوچکی ہیں۔ عام لوگ اتحاد کے منشور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ ان تمام
اداروں میں جہاں انتخابی عمل بروئے کار لایا جاتا ہے 80 نمائندگی عام لوگوں کو دی جائے گی۔ اور صرف 20 فیصد دیگر لوگوں کیلئے رکھی جائے گی۔ اس پر عمل ہوگیا تو اسمبلیوں میں عام لوگ نظر آئیں گے اور ظاہر ہے وہ عام لوگوں کا خیال بھی کریں گے۔ جسٹس وجیہ کے مطابق کسی بھی معیشت کی اہم ترین ضرورت ہوا اور پانی ہیں۔
برطانیہ میں 51 فیصد الیکٹرک توانائی ونڈ پاور سے حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی تھرپار کاریڈور میں تقریباً 50 ہزار میگاواٹ کی صلاحیت موجود ہے۔ اور بہت ہی محدود انداز سے وہ استعمال ہو رہا ہے۔ ہائیڈرل پاور کی بھی بڑی اہمیت ہے لیکن وہ بہت مہنگی ہے۔ اس میں سب سے اہم پروجیکٹ سندھ بیراج کا ہے، جو کوٹری سے
نیچے تعمیر کرنے کی بات چلی ہے۔ ہر سال ہمارا تقریباً 20 بلین ڈالر مالیت کا پانی سیلاب اور دیگر مواقع پر ضائع ہوجاتا ہے، اسے سندھ ڈیم کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔ یوں اْس تمام علاقے کی آبیاری ہوسکتی۔ ڈیم کے دوسری طرف ہم مینگرو جنگل بنا سکتے ہیں جس کے الگ فوائد ہیں۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو حب الوطنی کے
جذبے سے سرشار ہوں۔ جو ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ ناکام سیاسی پارٹیوں میں خال خال بھی نظر نہیں آتے۔ لہٰذا اگر کوئی ان تمام مسائل کا جواب ہے تو وہ عام لوگ اتحاد ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ باتیں تو سب کیا کرتے ہیں لیکن باتوں کا واحد ٹیسٹ یہ ہے کہ بات کون کر رہا ہے۔ اس شخص کا ماضی کیا ہے۔ اس نے گزشتہ
ادوار میں کیا کیا۔ اگر تو اس کسوٹی پر کوئی سیاسی پارٹی یا اس کے لیڈران پورا اترتے ہیں تو یہ ہمارے قومی فرائض میں سے ایک فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سامنے لے کر آئیں۔ اور ان میں سے 80 فیصد عام لوگوں کو بااختیار کریں۔ جسٹس وجیہ نے آخر میں لیگل سسٹم اور اس کے مسائل پر بھی سحر حاصل تبصرہ کیا۔