چوتھے موڑ پر آدھے چاند نے بھی ساتھ چھوڑ دیا‘ وہ نیچے جھکا اور گھاٹیوں میں ڈوب گیا‘ ہم مزید اوپر آ گئے‘ اوپر شدید سردی تھی‘ اندھیرا تھا‘ رات کا سناٹا تھا اور اس سناٹے‘ اس اندھیرے میں خشک کھردرے پتھروں پر چلتے لوگوں کے قدموں کی آوازیں تھی‘ہم اس کوہ طور پر آہستہ آہستہ اوپر بڑھ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے جس کی قسم سورہ الطور اور التین میں کھائی اور اس کوہ طور کے گرد دور دور تک صحرا سینا کی مقدس ریت تھی‘ہم ساٹھ لوگ اس مقدس ریت میں سانس لے رہے تھے‘
ہمارے آگے اور پیچھے سینکڑوں لوگ تھے‘ سردی‘ تھکاوٹ اور خوف ہڈیوں میں اتر رہا تھا لیکن ہم اس کے باوجود آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے‘ طور کا تقدس اور اس تقدس کے ساتھ بندھی داستانیں ہمیں اوپر اور اوپر اور پھر اس سے بھی اوپر اس جگہ لے جا رہی تھیں جہاں حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور اس کلام کے دوران ایک رات حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے رب کو دیکھنے کی درخواست کر دی‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ موسیٰ تم مجھے دیکھنے کی تاب نہیں لا سکو گے لیکن موسیٰ ؑنے اصرار کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک تجلی پہاڑ پر گرا دی‘ پہاڑ چھوٹے چھوٹے پتھروں میں تقسیم ہو گیا اور پہاڑ کا سبزہ‘ چرند اور پرند مر گئے اور پھر یہ دوبارہ طور پر آباد نہ ہو سکے اور جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر اپنی پہلی کتاب توریت نازل فرمائی تھی اور پتھر کی دو تختیوں پر اپنے دس احکامات رقم کر کے زمین پر اتارے تھے‘ یہ دس احکامات زمین پر قانون‘ آئین اور ضابطے کی ابتدا تھے اور طور کا تقدس اور اس تقدس سے بندھی داستانیں ہمیں آہستہ آہستہ پہاڑ کی اس چوٹی کی طرف کھینچ رہی تھیں جہاں یہ سب کچھ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔صحرائے سینا اور کوہ طور یہ دونوں مصر کے ایشیائی حصے میں ہیں‘ آپ اگر زمین کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو ریڈسی (بحیرہ احمر) غلیل کی وی کی طرح دو حصوں میں بہتا نظر آئے گا‘ غلیل کی یہ وی درمیان میں مثلث بناتی ہے اور یہ مثلث سینا کہلاتی ہے‘ مثلث کی نوک پر مصر کا سیاحتی شہر شرم الشیخ آباد ہے جبکہ بیس چار ملکوں اور بحیرہ روم سے جا ٹکراتا ہے‘
وہ چار ملک سعودی عرب‘ اردن‘ اسرائیل اور مصر ہیں‘ حضرت موسیٰ ؑ دوبار ریڈسی عبور کر کے اس مثلث میں داخل ہوئے‘ آپ پہلی بار اس وقت سینا میں آئے جب آپ فرعون کے لے پالک صاحبزادے تھے‘ آپ کی پرورش محل میں ہوئی تھی‘ آپ فرعون کے وارث بن رہے تھے لیکن پھر ایک قبطی قتل ہو گیا اور آپ سزا سے بچنے کیلئے ریڈسی عبور کر کے سینا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے‘ سینا اس وقت فرعون کی سلطنت میں شامل نہیں تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ صحرا میں چلتے چلتے مدائن پہنچ گئے‘
مدائن میں حضرت شعیب ؑ اپنی دو صاحبزادیوں کے ساتھ رہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد نرینہ سے نہیں نوازا تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ دس سال حضرت شعیب ؑ کے جانور چراتے رہے‘ حضرت شعیب ؑ نے اس خدمت کے عوض اپنی صاحبزادی صفورا بی بی آپ کے عقد میں دے دی‘ یورپ میں صفورا کے نام پر پرفیوم اور کاسمیٹک کا بہت بڑا برانڈ ہے‘ یہ برانڈ یہودی تاجر ڈومنیق مندونو نے حضرت موسیٰ ؑکی اہلیہ صفورا بی بی کے نام پر 1969ء میں بنایا‘
حضرت موسیٰ ؑدس سال بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مدائن سے مصر کی طرف روانہ ہوئے‘ یہ صحرائے سینا میں کوہ طور کے قریب پہنچے تو شدید سردی کی لپیٹ میں آ گئے‘ آپ نے اپنی اہل خانہ کو میدان میں بٹھایا اور خود آگ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ پہاڑ کی جڑ میں آگ دکھائی دی‘ آپ آگ کی طرف بڑھے‘ قریب پہنچے تو جھاڑیوں میں آگ دیکھی‘ آپ اور قریب آئے تو آواز آئی‘ اے موسیٰ! تم اپنے جوتے اتار دو‘ تم اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو اور پھر یہاں سے نبوت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘
حضرت موسیٰ ؑ کو نبوت بھی مل گئی‘ آپ کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھائی حضرت ہارون ؑ کو نبی بھی بنا دیا‘ آپ کی زبان کی لکنت بھی ختم کر دی اور آپ کے عصا کو اژدھا اور ہاتھ کو چمک دار بھی بنا دیا‘ حضرت موسیٰ ؑ اللہ کے حکم پر مصر پہنچے‘ فرعون کو دعوت دی‘ فرعون کے جادوگروں اور ان کے سانپوں کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو کالی آندھی اور طاعون سے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن لیکن دلوں کے زنگ آلودہ قفل نہ کھل سکے‘
آپ نے بنی سرائیل کو ساتھ لیا‘ اپنے عصاسے ریڈ سی کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور بنی اسرائیل کے ساتھ دوبارہ صحرائے سینا میں داخل ہو گئے جبکہ فرعون اپنی فوج سمیت ریڈسی میں غرق ہو گیا‘ آپ اپنی امت کے ساتھ کوہ طور کے گرد پناہ گزین ہو گئے‘ امت وادی میں رہی اور آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات لینے طور پر جاتے رہے‘ آپ نے اس دوران طور پر چالیس دن کا اعتکاف کیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو توریت عنایت کر دی تاہم بنی اسرائیل چالیس سال تک صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کے وجود سے چار سو سال کی غلامی کے اثرات ختم ہو گئے اور وہ ایک نارمل اور آزاد انسان بن گئے‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی سن لی‘ انہیں صحرا سے نکلنے کا راستہ مل گیا‘ حضرت موسیٰ ؑ اردن میں کوہ نبو کے دامن میں انتقال فرما گئے آپ کے بعد بنی اسرائیل حضرت یوشعؑ کی قیادت میں طویل خواری کے بعد اسرائیل کے شہر جریکو پہنچ گئے‘ طور بنی اسرائیل کیلئے ہر دور میں مقدس رہا‘ یہ آج بھی مقدس ہے‘ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان تینوں طور کا احترام کرتے ہیں۔میں 80 ہم خیال لوگوں کے ساتھ مصر پہنچا‘ ہم نے تین دن قاہرہ اور سکندریہ میں گزارے اور ایک رات شرم الشیخ میں گزار کر طور آ گئے‘
طور کا قصبہ شرم الشیخ سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ یہ فوجی لحاظ سے حساس علاقہ ہے‘ پچاس سال سے یہاں جنگ چل رہی ہے‘ سینا کا ایک حصہ اسرائیل کے قبضے میں ہے‘ یہ اب پورے سینا پر قابض ہونا چاہتا ہے چنانچہ سینا میں اس وقت تین فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں‘ اسرائیلی فوج‘ مصری فوج اور اقوام متحدہ کی فوج‘ علاقے میں جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں چنانچہ سیاحتی بسیں باقاعدہ فوج اور خفیہ اداروں کی اجازت اور سیاحتی پولیس کی حفاظت میں علاقے میں پہنچتی ہیں‘
ہماری بسوں میں بھی پولیس کے مسلح جوان بیٹھے تھے اور ہمارے آگے اور پیچھے بھی پولیس کا سکواڈ تھا‘ ہم راستے میں چھ چیک پوسٹوں سے بھی گزرے اور ہر چیک پوسٹ پر ہماری بسوں کا جائزہ بھی لیا گیا‘ ہماری روانگی سے قبل ہماری بسوں کی سیکورٹی کلیئرنس بھی ہوئی‘ ہم بہرحال طویل تلاشیوں کے بعد گاؤں طور پہنچ گئے‘ یہ کوہ طور کے سائے میں چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے‘ علاقے میں سہولتوں کا فقدان ہے‘ ہوٹل بھی اچھے نہیں اور سیاحوں کو باہر نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی‘
گاؤں میں دو سیاحتی اٹریکشنز ہیں‘ سینٹ کیتھرائن کا چرچ اور کوہ طور‘ سینٹ کیتھرائن چرچ عین اس جگہ بنا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ ؑ کو مخاطب کیا تھا‘ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت ملاحظہ کیجئے حضرت موسیٰ ؑ کو جس جھاڑی میں آگ دکھائی دی تھی وہ جھاڑی تین ہزار دو سو سال گزرنے کے باوجود آج تک قائم بھی ہے اور ہری بھری بھی‘ یہ جگہ برننگ بش کہلاتی ہے‘ سینٹ کیتھرائن چرچ میں نبی اکرمؐ کے ایک خط کا نقش بھی موجود ہے‘ میں کل اس خط اور برننگ بش کے بارے میں عرض کروں گا‘
ہم سردست کوہ طور کی طرف آتے ہیں‘ کوہ طور کی زیارت کا سفر رات بارہ بجے شروع ہوتا ہے‘ قافلے بارہ بجے پیدل روانہ ہوتے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سیکورٹی ہے‘ طور اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے‘ فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں‘ اسرائیلی فوجی دن کے وقت طور پر نقل وحرکت دیکھ کر گولی چلا دیتے ہیں‘ دوسری وجہ موسم ہے‘ یہ خشک بے آب اور بے گیاہ پہاڑ ہے‘ دن کے وقت یہ تپ کر تنور بن جاتا ہے لہٰذا اس پر سفر ناممکن ہو جاتا ہے اور آخری وجہ روایت ہے‘
حضرت موسیٰ ؑ کوہ طور پر رات کے وقت پہنچتے تھے‘ یہ رات ہی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے اور آپ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتے تھے فجر کے وقت مانگتے تھے۔ صبح کی روشنی کے ساتھ پورا پہاڑ اپنے تمام پتھروں کے ساتھ سرخ ہو جاتا ہے‘ دنیا میں اس نظارے کی کوئی نظیر نہیں ملتی چنانچہ لوگ رات کو سفر کر کے صبح صادق کے وقت چوٹی پر پہنچتے ہیں‘ فجر کا نظارہ کرتے ہیں اور سورج تپنے سے پہلے واپس آ جاتے ہیں‘ فوج نو بجے کے بعد کسی شخص کو پہاڑ پر نہیں رہنے دیتی‘
طور کی چوٹی پر ایک چھوٹی مسجد ہے‘ روایت کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ کو تورات اس مقام پر عنایت ہوئی تھی‘ مسجد کے نیچے وہ غار آج بھی موجود ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ نے تورات کیلئے اعتکاف فرمایا تھا‘ مسجد کے دائیں ہاتھ ایک قدیم چرچ ہے‘ یہ چرچ یہودی اور عیسائی دونوں عبادت کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ چوٹی کے دائیں اور بائیں جانب انبیاء کرام کے درجنوں غار اور حجرے ہیں۔کوہ طور کا سفر انتہائی مشکل اور دشوار گزار ہے‘ یہ سیدھی چڑھائی ہے‘
پتھر تراش کر اور پتھروں کے اوپر پتھر رکھ کر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں‘ رات کے وقت کھائیاں اور سیڑھیاں دکھائی نہیں دیتیں‘ سیاح دو تہائی حصہ اونٹوں پر طے کرتے ہیں اور جہاں اونٹ بھی جواب دے جاتے ہیں وہاں ٹانگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے‘ ہم جوں جوں اوپر چڑھتے گئے درجہ حرارت منفی ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ چوٹی پر ٹمپریچر منفی سات تھا‘ ہم میں سے 20 لوگ شروع میں ہمت ہار گئے‘ ساٹھ آگے بڑھے اور ان میں سے بھی چند راستے میں واپس آ گئے‘ دو شدید بیمار ہو گئے جبکہ باقی گرتے پڑتے چھ گھنٹوں میں اوپر پہنچے‘
یہ چھ گھنٹے اور یہ سفر میری زندگی کی مشکل ترین ہائیکنگ تھی‘ ٹانگیں‘ پھیپھڑے اور ہمت تینوں جواب دے گئے‘ ناک سے خون تک نکل آیا لیکن طور کی عقیدت تمام تکلیفوں پر غالب رہی اور ہم بالآخر اس چوٹی پر پہنچ گئے جس پر تورات بھی اتری تھی اور اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ سے مخاطب بھی ہوتا تھا‘ اوپر سینکڑوں عیسائی‘ یہودی اور مسلمان موجود تھے‘ یہ تینوں اکٹھے مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے‘ صبح صادق سے ذرا قبل ہمارے ایک ساتھی نے طور پر اذان دینا شروع کر دی‘
پوری وادی اللہ اکبر‘ اللہ اکبر سے گونج اٹھی‘ عیسائی اور یہودی بھی احترام سے اذان سنتے رہے‘ ہم لوگوں نے باری باری حضرت موسیٰ ؑ کے حجرے میں فجر کی نماز پڑھی اور مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے اور پھر قبولیت کا وہ وقت آ گیا‘ افق سرخ ہوا اور وہ لمحہ زمین پر اترنے لگا جب طور سرخ ہو جاتا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ ہاتھ فضا میں اٹھا کر اپنے رب سے مخاطب ہوتے تھے‘ ہم سب نے بھی ہاتھ اٹھائے اور ہچکیوں کے ساتھ اپنے رب کی بار گاہ میں کھڑے ہو گئے۔