ہم لوگ بچے کو نفسیات دان کے پاس لے گئے۔بچہ بظاہر صحت مند تھا‘ خوبصورت اور ہشاش بشاش بھی تھا‘ وہ تمیز دار‘ مہذب اورذہین بھی دکھائی دیتا تھااور پڑھائی میں بھی اچھا تھا‘ والدین کو بس اس سے دو شکایتیں تھیں‘ وہ ڈسپلنڈ نہیں تھا‘ وعدہ پورا نہیں کرتا تھااور آج کا کام کل پر ڈال دیتا تھا اور دوسری شکایت‘ وہ ڈھیٹ تھا‘ وہ اپنی ہٹ سے نہیں ہٹتا تھا‘ دل میں جو آگیا بس وہ کر کے رہتا تھا خواہ آپ کچھ بھی کر لیں یا اس کو اس کاکوئی بھی خمیازہ بھگتنا پڑے‘ میرا دوست بیٹے کی ان دونوں عادتوں سے تنگ تھا‘
بچہ ان کی اکلوتی اولاد تھا‘ بزنس اربوں روپے میں تھا‘ بیٹے نے چند سال بعد اربوں روپے کی یہ پوری سلطنت سنبھالنی تھی چنانچہ وہ بچے کے حوالے سے پریشان رہتا تھا‘ والد نے بیٹے پر ہر طریقہ استعمال کر کے دیکھ لیا تھا‘ وہ اسے بار بار سمجھا بھی چکا تھا‘ سختی بھی کر کے دیکھ لی تھی‘ منتیں بھی ہو چکی تھیں‘ بچے کو تعویز دھاگے اور جھاڑ پھونک کے عمل سے بھی گزار دیا گیا تھا‘ والدین نے اس کے دوست‘ اس کے احباب بھی بدل کر دیکھ لئے تھے اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ڈال اور نکال کر چیک کر لیا گیا تھا‘ والد کے دوست بھی بچے کو سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے لیکن یوں محسوس ہوتا تھا بچہ جیسے کنکریٹ کا بنا ہوا ہو‘ وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا‘ وہ سب کی سنتا تھا‘ ہاں میں سر بھی ہلاتا تھا‘ خوش دلی سے ہاتھ بھی ملاتا تھا اور نصیحت کرنے والے کا گرم جوشی سے شکریہ بھی ادا کرتا تھا لیکن کرتا وہی تھا جو وہ اس سے پہلے کر رہا ہوتا تھا‘ وہ اپنی روٹین تبدیل نہیں کرتا تھا چنانچہ والد کے پاس اب ماہر نفسیات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا‘ بچہ میری عزت کرتا تھا‘ والد نے مجھے اسے کلینک تک پہنچانے کی ذمہ داری دے دی‘ میں نے بچے کو دفتر بلایا‘ گاڑی میں بٹھایا اور سیدھا کلینک لے گیا‘ کلینک کے سامنے پہنچ کر بچے کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور ہنس کر بولا ”انکل آپ بھی مجھے پاگل سمجھتے ہیں“میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”ہرگز ہرگز نہیں‘ میں یہاں آپ کو نہیں آپ کے والدین کو لایا ہوں‘ علاج آپ کا نہیں آپ کی اماں اور ابا کا ہو گا“ اس نے بھی قہقہہ لگایا اور ہم کلینک کے اندر داخل ہو گئے۔
میرا دوست اور ان کی بیگم ڈاکٹر کے پاس بیٹھے تھے‘ وہ ڈاکٹر کو تفصیلات بتا چکے تھے چنانچہ جب ہم اندرداخل ہوئے تو نفسیات دان نے مسکرا کر بچے کی طرف دیکھا اور اس سے ڈھیٹ ہونے کی وجہ پوچھی‘ بچے نے ہنس کر جواب دیا‘ سر میں نارمل ہوں‘ میرے والدین میرے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکر مند ہیں‘ڈاکٹر نے پوچھا‘ کیا آپ والدین کے تقاضوں کو غلط سمجھتے ہیں‘ وہ فوراً بولا‘ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں ان کی باتیں درست ہیں‘
میں یہ باتیں سن کر ان کے ساتھ وعدہ بھی کر لیتا ہوں لیکن میں جب بھی واپس جاتا ہوں میں نہ جانے کیوں سپرنگ کی طرح ویسا ہو جاتا ہوں جیسا میں ان کی نصیحت سے پہلے ہوتا ہوں‘ مجھے آج تک اپنی اس عادت کی سمجھ نہیں آئی‘ ڈاکٹر مسکرایا اور پھر ہماری طرف مڑ کر بولا‘ آپ کے بچے میں کوئی خرابی نہیں‘ خرابی آپ کے اندر ہے‘ والدین حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھنے لگے‘ ڈاکٹر نے کہا‘ انسانی رویئے باقاعدہ سائنس ہیں‘ آپ جب تک یہ سائنس نہیں سمجھیں گے آپ اس وقت تک اپنے‘ اپنے بچوں اور معاشرے کے رویوں کا اندازہ نہیں کر سکیں گے‘ ہم خاموشی سے سنتے رہے‘
ڈاکٹر صاحب بولے‘ انسان سیکھنے اور سمجھنے والا جانور ہے‘ اللہ نے ہمیں سمجھنے اور سیکھنے کی لامتناہی صلاحیتیں دے رکھی ہیں‘ آپ دیکھ لیں لاکھوں کروڑوں سال کے ارتقاء کے باوجود تیرنے والے جانور رینگنے اور دوڑنے والے جانوروں کی طرح سیدھا کھڑا ہونا اور رینگنا نہیں سیکھ سکے اور ان دونوں نے مل کر پرندوں کی طرح اڑنا نہیں سیکھا‘ جانور انسان کی طرح بولنا‘ چلنا‘ رہنا‘دوڑنا‘ کام کرنا اور اپنی زندگی کو آرام دہ بنانا بھی نہیں سیکھ سکے‘ یہ انسان ہے جس نے دوڑنا (فاصلے کم کرنا)‘ اڑنا‘ تیرنا‘ بولنا اور طاقتور ہونا سیکھا اور پوری کائنات کو حیران کر دیا‘
سوال یہ ہے انسان نے یہ کارنامہ کیسے انجام دیا؟ اس کے پیچھے صرف ایک راز ہے اور وہ رازہے ”سیکھنے کی اہلیت‘‘ انسان میں باقی تمام مخلوقات کے مقابلے میں سیکھنے کی اہلیت زیادہ ہوتی ہے‘ آپ انسان کو سیکھنے سے باز نہیں رکھ سکتے اور سیکھنے کے دو عنصر ہوتے ہیں‘ دیکھ کر سیکھنا اور سن کر سیکھنا‘ انسان نوے فیصد چیزیں دیکھ کر سیکھتا ہے‘ ہم لوگ کیا ہیں‘ ہماری عادتیں‘ ہمارے رویئے اور ہماری شخصیت کیا ہو گی یہ فیصلہ ہماری زندگی کے ابتدائی 13 سال کرتے ہیں‘ ہم ان 13 برسوں میں جو دیکھتے ہیں‘
وہ دیکھنا ہماری شخصیت‘ ہمارے رویئے اور ہماری عادتیں بن جاتا ہے‘ ہم سب اپنی ماں کی طرح مسکراتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ماں کی مسکراہٹ دیکھ دیکھ کر مسکرانا سیکھتے ہیں‘ ہمارا لہجہ ہماری دادی‘ نانی اور خالہ جیسا ہوتا ہے کیونکہ ہم ان کی گود میں پل کر بڑے ہوتے ہیں‘ ہم ان کے منہ کے لفظ اچک کر بولنا سیکھتے ہیں اور ہم اپنے گھر کے بڑوں مثلاً والد‘ دادا‘ نانا‘ چچا‘ بڑے بھائی اور بڑی بہن کی طرح چلتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ان کو دیکھ کر چلنا سیکھتے ہیں‘ انسان کی زیادہ تر عادتیں 13 سال میں مکمل ہو جاتی ہیں اور یہ باقی زندگی ان عادتوں کی ہلکی پھلکی کانٹ چھانٹ کر کے گزارتا ہے‘
ڈاکٹر رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا‘ ہم والدین ایک غلطی کرتے ہیں‘ ہم اپنے بچوں کو دکھاتے کچھ اور بولتے کچھ ہیں‘ بچے کیونکہ دیکھ کر سیکھتے ہیں چنانچہ یہ وہ سیکھ جاتے ہیں جو یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ ہرگز ہرگز وہ نہیں سیکھتے جس کا ہم انہیں لیکچر دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ انسان کی اس فطرت سے واقف ہے چنانچہ اس نے کتابیں چار اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزاربھیجے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتا ہے ہم لوگ فرمودات سے نہیں سیکھیں گے‘ ہم آسمانی کتابوں کا عملی نمونہ دیکھ کر سیکھیں گے لہٰذا اس نے ہمیں دکھانے کا زیادہ اور سنانے کا کم بندوبست کیا‘
ہم مسلمان آج بھی قرآن مجید کے احکامات پراتنا عمل نہیں کرتے جتنا ہم سنت پر عمل کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے نبی اکرم ؐ کو دیکھا تھا اور ان سے سنت سیکھی تھی‘ وہ رکا اور بولا‘ میں نے آپ کی کہانی سن کر اندازہ کیا‘ آپ کابیٹا جب پیدا ہوا تھا تو آپ اس وقت سٹرگل کر رہے تھے اور سٹرگل کرنے والے لوگ ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات نان ڈسپلنڈ بھی‘ مزدور یا کلرک اپنا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتا؟ وہ سٹرگل کی عمر سے گزر رہا ہوتا ہے اور اس وقت اسے جہاں سے چند پیسے زیادہ ملتے ہیں وہ کم پیسوں کا کنٹریکٹ ادھورا چھوڑ کر نئی جاب پر چلا جاتا ہے چنانچہ ہمیں یہ لوگ نان ڈسپلنڈ اور وعدہ خلاف دکھائی دیتے ہیں‘
دوسرا‘ دنیا میں ترقی کرنے والے زیادہ تر لوگ ہٹ کے پکے ہوتے ہیں‘ یہ پیچھے نہیں ہٹتے چنانچہ یہ بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں‘ آپ بھی اپنی ہٹ کی وجہ سے کامیاب ہوئے‘ آپ کے بیٹے نے بچپن میں آپ میں یہ دونوں خرابیاں دیکھیں اور یہ آپ سے یہ دونوں چیزیں سیکھ گیا‘ آپ آج بھی ایسے ہی ہیں‘ یہ آپ کی ہٹ ہے جو آپ کو بیٹے کو لے لے کر پھرنے پر مجبور کر رہی ہے لہٰذا آپ کے بیٹے نے جو دیکھا وہ ویسا بن گیا‘ اس میں اس کی کیا غلطی ہے؟ وہ رکا اور پھر بولا‘ ہم والدین اپنے بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں ہم اگر ویسا بن جائیں تو یہ خود بخود بغیر کچھ کہے سنے ویسا بن جائیں گے‘
آپ اپنے بچے کو سچا دیکھنا چاہتے ہیں آپ خود جھوٹ ترک کر دیں‘ آپ کا بچہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا‘ آپ اپنے بچے کو مہذب‘ سمجھ دار‘ بیلنس‘ قانون پسند‘ دھیما‘ ریلیکس‘ پڑھا لکھا اور وعدے کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ خود وعدے کے پابند‘ پڑھے لکھے‘ ریلیکس‘ دھیمے‘ قانون پسند‘ متوازن‘ سمجھ دار اور مہذب ہو جائیں آپ کے بچے بھی آپ جیسے ہو جائیں گے چنانچہ آپ اگر اپنے بچے کی ہٹ دھرمی اور ڈسپلن کی کمی ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی ذات سے ہٹ دھرمی اور سستی نکال دیں آپ کا بچہ پانچ دس سال میں آپ جیسا ہو جائے گا ورنہ آپ حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اسے جتنا بھی سمجھا لیں گے یہ بنی اسرائیل کی طرح اپنی ضد کے بچھڑے بناتا رہے گا‘ یہ اپنی ہٹ دھرمی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ہم خاموشی سے اس کی طرف دیکھتے رہے‘ ڈاکٹر صاحب چند لمحے رک کر بولے‘ قدرت تین نسلوں کو ایک نسل سمجھتی ہے‘ آپ کی غلطی کا خمیازہ آپ کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بھگتتی ہے اور آپ یہ سزا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں چنانچہ آپ اور آپ کی اولاد اگر سزا سے بچنا چاہتی ہے تو آپ ان کو ویسا بنا کر دکھا دیں جیسا آپ انہیں بننے کی تلقین کرتے ہیں‘ آپ کے بچے بغیر کچھ سنے اچھے بن جائیں گے‘ آپ یقین کریں میں نے آج تک کسی اچھے انسان کے بچے کو برا نہیں دیکھا
اور جن اچھے لوگوں کے بچے برے نکلتے ہیں وہ لوگ دراصل اچھے نہیں ہوتے‘ وہ صرف دنیا کے سامنے اچھا ہونے کی اداکاری کرتے ہیں‘ ان کا بچہ کیونکہ ان کے اصل سے واقف ہوتا ہے چنانچہ وہ اصل جیسا بن جاتا ہے اور دنیا اسے حیرت سے دیکھتی رہتی ہے‘ ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے‘ میرے دوست کے بیٹے نے قہقہہ لگایا‘ ڈاکٹر کی طرف انگوٹھا لہرایا اور بولا‘ ویل ڈن ڈاکٹر صاحب‘ یہ خودبدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور مجھے روز بدلنا چاہتے ہیں‘ آپ خود فیصلہ کیجئے میں کیسے تبدیل ہو جاؤں‘ میرے دوست نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔