حضرت عمر نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلا اہم کام یہ کیا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں “سیف من سیوف اللہ” یعنی اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا تھا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کےد ور میں انہوں نے عراق کا بیشتر حصہ فتح کر لیا تھا اور اب شام میں اپنی غیر معمولی
جنگی حکمت عملی کے جوہر دکھا رہے تھے۔ مسلم تاریخ میں اگر فوجی جرنیلوں کی رینکنگ کی جائے تو بلاشبہ حضرت خالد اس میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے انہیں معزول کیوں کیا جبکہ حضرت خالد کی کارکردگی غیر معمولی تھی؟
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر نے حضرت خالد کو معزول ہرگز نہیں کیا بلکہ انہیں سپہ سالار اعظم کی بجائے سیکنڈ ان کمانڈ بنا دیا۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں جن میں سب سے نمایاں یہ تھی کہ حضرت خالد جنگو ں میں اپنی غیر معمولی شجاعت کی وجہ سے بہت زیادہ خطرات مول لے لیا کرتے تھے۔ آپ فی الحقیقت ایک بہت بڑے risk-taker تھے اور بسا اوقات تھوڑی سی فوج کے ساتھ دشمن پر جھپٹ پڑتے اور اسے شکست دے ڈالتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی احتیاط کے باوجود اس معاملے میں حضرت خالد کو ڈھیل دیتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت محتاط تھی اور آپ مسلمانوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت خالد کو امین الامت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے تحت کر دیا تاکہ وہ اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ، حضرت خالد کو ضرورت سے زیادہ خطرات مول لینے سے روکیں اور ان کی جنگی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں۔ یہ بات طبری کی
روایت سے واضح ہو جاتی ہے جس میں حضرت ابوعبیدہ کے نام حضرت عمر کا خط نقل کیا گیا ہے۔
میں آپ کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں جو کہ باقی رہنے والا ہے اور جس کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی نے ہمیں گمراہی سے نکال کر راہ راست پر لگایا اور اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل فرمایا۔ میں آپ کو خالد کے لشکر کا امیر مقرر کرتا ہوں۔ آپ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہو
جائیے۔ مال غنیمت کے لیے مسلمانوں کی جان خطرے میں نہ ڈالیے اور نہ ہی کسی اجنبی مقام کے حالات اور نتائج کو معلوم کیے بغیر انہیں وہاں ٹھہرائیے۔ جب آپ کسی لشکر کو جنگ کے لیے بھیجیں تو معقول تعداد کے بغیر نہ بھیجیے۔ مسلمانوں کو ہلاکت (کے خطرے) میں ہرگز مبتلا نہ کیجیے۔ اللہ نے آپ کا معاملہ میرے ہاتھ میں اور میرا معاملہ آپ کے ہاتھ میں دیا ہے۔ دنیا کی محبت سے اپنی آنکھیں بند کر لیجیے اور اپنے دل کو اس سے بے نیاز کر لیجیے۔ خبردار! گزرے ہوئے لوگوں کی طرح انہیں ہلاکت میں نہ ڈالیے۔ ان کے بچھڑنے کے میدان آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔