ماسکو/برلن /واشنگٹن(این این آئی)امریکا کی طرف سے پابندیوں کے اعلان کے بعد روس اور جرمنی کے درمیان نئی گیس پائپ لائن کے لیے کام کرنے والی کمپنی نے کام معطل کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سینیٹ سے منظور ہونے والے اس بل پر دستخط کر دیے جس کے تحت ان افراد اور کمپنیوں پر پابندی عائد کی جائے گی جو بحر بالٹک کے اندر سے روس اور جرمنی کے درمیان بچھائی
جانے والی اس نورڈ اسٹریم ٹوپائپ لائن کے جہازوں کے سیکشن پر کام کر رہی ہیں۔امریکا اس پائپ لائن کی کھلی مخالفت کرتا آیا ہے جو ایک ہزار 200 کلومیٹر کے فاصلے پر قدرتی گیس فراہم کرے گی۔یورپ کے مشرقی ممالک بھی اس منصوبے کے مخالف ہیں جبکہ امریکی حکومت کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے یورپ کا توانائی کے حصول کے لیے روس پر انحصار بڑھ جائے گا۔امریکی صدر کے دستخط سے بل کے قانون میں تبدیل ہونے کے بعد سوئس کمپنی آل سیزنے، جو زیر سمندر پائپ لائن بچھانے کے حصے کے لیے کام کر رہی ہے، اپنے بیان میں کہا کہ نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ(این ڈی اے اے)کے نفاذ کی توقع کے بعد آل سیز نے نورڈ اسٹریم ٹوکے لیے اپنی سرگرمیاں روک دی ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ کمپنی، متعلقہ امریکی حکام سے ضروری ضوابط، تکنیکی اور ماحولیاتی وضاحتوں کے لیے رہنمائی کی امید کرتی ہے۔واضح رہے کہ اس گیس پائپ لائن کی تعمیر میں پہلے ہی بہت پیشرفت ہوچکی ہے اور فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ امریکا کے اس قدم سے پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہونے میں کس حد تک رکاوٹ آئے گی۔ادھرنورڈ اسٹریم ٹو کے ترجمان کا بیان میں کہنا تھا کہ یورپی سپلائی سیکیورٹی کے لیے منصوبہ مکمل کرنا ضروری ہے، ہم منصوبے کے لیے کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر جلد از جلد اس پائپ لائن کو مکمل کریں گے۔
نورڈ اسٹریم ٹو، روسی کمپنی گیزپروم کی ملکیت ہے جس میں کئی یورپی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے۔دوسری جانب جرمنی نے امریکا کے اس قانون کے نفاذ پر افسوس کا اظہار کیا۔حکومتی ترجمان نے اس غیر علاقائی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جرمن اور یورپی کمپنیاں اثر انداز ہوں گی، جبکہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔تاہم جرمنی میں تعینات امریکی سفیر رِچرڈ گرینیل کا کہنا تھا کہ
کئی یورپی ممالک، یورپی کمیشن اور پارلیمنٹ نے ‘نورڈ اسٹریم ٹو’ پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی طویل عرصے سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی ایک ملک یا ذریعہ یورپ سے بے حد فائدہ نہ اٹھائے۔ جرمن چانسلر انجیلامیرکل کی ترجمان الریکے ڈَیمر نے بھی اس قسم کی پابندیوں کو متعلقہ ریاستی علاقوں سے باہر ہونے کی بنیاد پر مسترد کرتے ہوئے انہیں داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جوابی اقدام کرنے کا عزم ظاہر کیا جبکہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاکہ ان پابندیوں سے امریکا اور جرمنی کے تعلقات میں کھچاؤ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔