اسلام آباد،لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن)جیکٹ کے دو بٹن ملزم عمران کی گرفتاری کی وجہ بن گئے ۔برطانوی میڈیا کے مطابق گرفتاری کےلیےڈی پی او وہاڑی عمر سعید ملزم کے گھر گئے، عمران کو گرفتار کرکے گھر کی تلاشی لی گئی، ملزم عمران کی گرفتاری کے لیے اس کی والدہ نے بھی مدد کی۔ملزم کاڈی این اے جب میچ ہوا تو پھر اس کی گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا، چھاپے کے دوران ملزم عمران کے گھر سے جیکٹ ملی تھی۔
جیکٹ کے دونوں بٹن کی مدد سے پولیس ملزم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ تفتیش کرنیوالےپولیس افسران کےسامنےملزم نےزیادہ پس وپیش نہیں کی، فوراًاعتراف کیا،5بچیوں سے زیر تعمیر گھروں میں زیادتی کی اور ان کا قتل کیا۔پکڑےجانےکےڈرسےبچوں کاگلاگھونٹ کرقتل کرتاتھا۔زینب سمیت3بچیوں کو زیادتی،قتل کےبعدکوڑے میں پھینک دیا۔عمران زینب کو قتل کرنے کے بعد فورا محفل میلاد میں گیاجب اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے محفل میں جانے سے قبل وضو کیا یا تیاری کی تو ملزم کا جواب نفی میں تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب سمیت کئی بچیوں کے قتل میں ملوث درندے کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ قصور واقعات میں ملوث عمران نے دوران تفتیش اپنے کالے کرتوتوں کا اعتراف کرلیا، ڈی این اے رپورٹ سے بھی قاتل کی تصدیق ہوگئی۔ زینب کے قتل میں ملوث سیریل کلر عمران کو شبانہ روز محنت سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔قاتل قصور کا رہائشی 24 سالہ اور ایک سیریل کلر ہے،میرا بس چلے تو ملزم کو چوراہے پر پھانسی دیدوں ، تاہم ہم سب قانون کے تابع ہیں، متعلقہ عدالت کے جج سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بھیڑیے کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ہمراہ زینب کے والد، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے افسران بھی موجود تھے، خادم اعلیٰ نے قصور میں زینب سمیت کمسن بچیوں کے اغواء4 ، زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کیا۔ان کا کہنا ہے کہ زینب کے قتل پر قوم کے دل رنجیدہ ہیں، جے آئی ٹی نے دن رات کام کیا، 14 روز کی شب و روز محنت کا ثمر زینب کے قاتل کی گرفتاری کی صورت میں ملا،
کرائم سین سے ملنے والے شواہد اور ڈی این اے سے ملزم کا جرم 100 فیصد ثابت ہوچکا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قصور سے گرفتار درندہ صفت 24 سالہ عمران سیریل کلر ہے، پنجاب پولیس اور پنجاب کی کیبنٹ کمیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، تحقیقات میں مدد پر آرمی چیف، آئی بی، ایم آئی سمیت تمام انٹیلی جنس اداروں اور ڈی جی فارنزک لیب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، تحقیقات کرنے والے افسران مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران خادم اعلیٰ نے اپنے افسران کیلئے تالیاں بھی بجوادیں۔وہ بولے کہ 1150 ڈی این اے ٹیسٹ کی جانچ پڑتال کے بعد اس درندے کو قابو کیا گیا، ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہونے کے بعد ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا، جس کے تحت حتمی طور پر قاتل کا تعین ممکن ہوسکا، ملزم عمران نے پولی گراف ٹیسٹ کے دوران اپنے تمام کالے کرتوتوں کا اعتراف کرلیا۔شہباز شریف نے کہا کہ زینب سمیت کئی بچیوں کے قاتل درندے کو گرفتار کرکے پہلا مرحلہ مکمل کرلیا،
دوسرا مرحلہ اس بھیڑیے کو انجام تک پہنچانا ہے، میرا دل بھی چاہتا ہے کہ اس درندے کو چوک پر لٹکایا جائے تاہم ہم سب قانون کے تابع ہیں، متعلقہ عدالت کے جج سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بھیڑیے کو قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا دی جائے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کیس میں ہر ممکن طور پر تعاون فراہم کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے قصور واقعے پر احتجاج کرنیوالوں پر بھی کڑی تنقید کی بولے کہ اس معاملے کو لوگوں نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کیا، ایسے واقعات سے بچنے اور ملزموں کو سخت سے سخت سزا دینے کیلئے قانون میں ترمیم کرنا پڑی تو کریں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مردان کی عاصمہ بھی ہماری بیٹی ہے، اس واقعے میں ملوث درندے کو بھی گرفتار کرنا چاہئے، شہباز شریف نے مردان واقعے پر پختونخوا حکومت کو پنجاب کی فارنزک لیب استعمال کرنے کی پیش کش بھی کردی ۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی معصوم بچی اسما بھی ہماری بیٹی ہے ، کے پی حکومت سے درمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ پنجاب کی فرانزک لیب سے ٹیسٹ کروائے اس سے اسما کے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد ملے گی ، سندھ حکومت سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسے کیسز میں فرانزک ٹیسٹ پنجاب فرنزک لیب سے کروائے ، پنجاب فرانزک لیب پورے جنوبی ایشیا میں سب سے اچھی لیب ہے، اس معاملے پر ہم نے سیاست نہیں کرنی ۔
زینب قتل کی تحقیقات کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والی پنجاب فرانزک لیب کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ انہیں محمد عمران کا ڈی این اے سیمپل 20 جنوری کو موصول ہوا جس کے نمونے چیک کیے گئے۔ڈی جی فرانزک لیب نے کہا کہ اگر پنجاب فرانزک سائنس لیب نہ ہوتی تو مجرم نہ پکرا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کی آبادی تقریباً 7 ارب ہے اور ہر شخص کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، محمد عمران کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ اسی نے یہ جرم کیا ہے۔