قصور، لاہور (آن لائن)پنجاب پولیس نے قصور میں 6 سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کرنے کے الزام میں دو مرکزی ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے اسے کیس میں اہم پیش رفت قرار دے دیا۔ذرائع کے مطابق تفتیش کاروں کو بچی کی لاش کے پاس ایک خالی ڈبہ ملا جس کی فرانزک ٹیسٹ کی روشنی میں دونوں ملزم کو گرفتار کیا۔گرفتار ملزم کے خلاف پہلے ہی 6 ریپ کے کیس درج ہیں جبکہ دوسرا ملزم اس کا بھائی ہے اور اس پر بھی
اسی نوعیت کے کیس درج ہیں۔ذرائع کے مطابق دونوں ملزمان کالج روڈ کے نزدیک فروٹ اور ویجٹیبل مارکیٹ کے رہائشی ہیں اور اسی جگہ نومبر میں زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک بچی زندہ ملی تھی جو چلڈرن ہسپتال لاہور میں تاحال زیرِ علاج ہے۔مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے ٹی سی) نے زینب قتل کیس میں 10 جنوری کو تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے 300 سے زائد افراد کے فون نمبر حاصل کیے اور ان میں سے 6 نمبرز کا انتخاب کرکے تفتیش شروع کی۔ذرائع کے مطابق قصور میں موبائل لوکیٹٹروین کے ذریعے گزشتہ 3 دن سے دوملزمان کی موجودگی جاننے کے لیے کام جاری تھا تاہم پولیس نے انہیں ضلع قصور کی حدود سے باہر ایک جگہ سے گرفتار کیا جہاں وہ چھپے ہوئے تھے۔پولیس نے تحقیقات کے لیے 13 سو لوگوں کو گرفتار کیا اور ڈی این اے ٹیسٹ منفی ہونے پر متعدد لوگوں کو چھوڑ دیا۔انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز نے بتایا تھا کہ صحافیوں کو بتایا کہ تفتیش کار صحیح سمت میں اپنا کام کررہے ہیں۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیو میں متاثرہ بچی کے گھر کے باہر ایک مشکوک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے۔پولیس کے مطابق جے آئی ٹی نے زینب قتل کی تاحال کوئی ویڈیو جاری نہیں کی تاہم متاثرہ بچی کے اہلخانہ نے ویڈیو کا ابتدائی حصہ پولیس کو فراہم کیا تھا۔اسی حوالے سے پولیس نے علی پارک اور پیرووالا روڈ پر دو گھروں پر چھاپہ مارا جہاں پر رہائش پذیر کرایہ دار فرار ہیں۔ پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے مالک مکان کو حراست میں لے لیا۔