اسلا م آ باد(آن لائن) آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے 36 وزارتوں کو دی جانے والی2 3.1 کھرب ارب روپے کی فنڈنگ میں بدانتظامی، بے ضابطگیوں اور کمزور مالیاتی کنٹرول پر اعتراضات اٹھا دیے۔رپورٹ میں 33 ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی جن میں کمزور مالی انتظام کی وجہ سے 19 کھرب کی بے ضابطگیاں ہوئیں جبکہ 52 ایسے کیسز سامنے آٗے جن میں اثاثہ جات کے کمزور انتظام کے تحت 9 ارب 50 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔رپورٹ میں 78 ایسے کیسز سامنے آئے
جن میں 15 کھرب 30 ارب روپے کمزور اندرونی مالی کنٹرول کا شکار ہوئے جبکہ 7 کھرب 30 ارب روپے زائد ادائیگیوں اور پبلک فنڈز میں خرد برد کا شکار ہوئے۔آڈیٹر جنرل پاکستان نے وزارت خزانہ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) کی جانب سے 10 کھرب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس میں غلط بیانی پر بھی سوالات اٹھائے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومتی اخراجات کے یونٹ اور اوراڈیٹر جنرل پاکستان ریونیو مشترکہ طور پر اصل اخراجات کی تجدید کے ذمہ دار ہیں، لیکن اب تک رقوم کے ایک بڑے حصے کے اصل اخراجات کی تجدید زیر التوا ہے۔رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ وزارتوں اور ان کے ماتحت ڈویڑنز نے مالی سال 16۔2015 میں ملنے والی گرانٹ سے 3 کھرب 52 ارب روپے کے زائد اخراجات کیے۔درحقیقت ان وزارتوں کے سربراہان اور اکاؤنٹنگ افسران کو اخراجات میں اضافے کو روکنے کی ذمہ داری ہی نہیں سونپی گئی تھی۔آڈیٹرز نے انکشاف کیا کہ وزارت خزانہ نے مالی سال 16۔2015 کے دوران 10 کھرب 10 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی اجازت دی تھی۔آڈٹ میں بتایا گیا کہ تمام سپلیمینٹر گرانٹس میں سے 2 کھرب 61 ارب کے گرانٹس مالی سال 2017۔2016 کے بجٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کو پیش کی گئیں تھیں۔اڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ 8 کھرب 38 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس جو کہ مالی سال 16۔2015 کی کْل گرانٹس کا 76 فیصد ہے،
پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش ہی نہیں کی گئی تھیں جبکہ تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹس کو معلوم کرنے کے لیے ریکارڈ ہی موجود نہیں۔اڈٹ رپورٹ میں فنڈز کی بد انتظامی کا ایک اور معاملہ 2 کھرب 17 ارب روپے کا ہے جس کے مطابق وزارتوں اور ان کے ماتحت ڈویڑنز اس رقم کو وقت پر خرچ کرنے میں ناکام رہے اور نہ ہی مقررہ وقت پر وزارت خزانہ کو واپس ادا کی گئی تاکہ اس سے دوسرے پیداواری منصوبے مستفید ہو سکتے۔ جنرل نے ریکارڈ پر لاتے ہوئے بتایا کہ ان کی رپورٹ کے نتائج،
60 میں سے 36 وزارتوں اور ڈویڑن کو دیے جانے والے فنڈز کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 10 لاکھ سے زائد کی رقم ایسی کمپنیوں کو دی گئی یا خرچ کی گئی جن کا جانچ کی بنیاد پر اڈٹ کیا گیا جو کہ 100 فیصد اڈٹ نہیں تھا۔اڈیٹر جنرل پاکستان نے 123 کیسز کو نمایاں کیا جن میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ضروری اخراجات اور ادائیگیاں کی گئیں جن کی رقم تقریباً 8 کھرب 76 ارب روپے ہے۔رپورٹ میں 33 ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی
جن میں کمزور مالی انتظام کی وجہ سے 19 کھرب کی بے ضابطگیاں ہوئیں جبکہ 52 ایسے کیسز سامنے آ ئے جن میں اثاثہ جات کے کمزور انتظام کے تحت 9 ارب 50 کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔رپورٹ میں 78 ایسے کیسز سامنے ا?ئے جن میں 15 کھرب 30 ارب روپے کمزور اندرونی مالی کنٹرول کا شکار ہوئے جبکہ 7 کھرب 30 ارب روپے زائد ادائیگیوں اور پبلک فنڈز میں خرد برد کا شکار ہوئے۔اڈیٹر جنرل پاکستان نے وزارت خزانہ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو
(اے جی پی ار) کی جانب سے 10 کھرب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس میں غلط بیانی پر بھی سوالات اٹھائے۔ا?ٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومتی اخراجات کے یونٹ اور اور اڈیٹر جنرل پاکستان ریونیو مشترکہ طور پر اصل اخراجات کی تجدید کے ذمہ دار ہیں، لیکن اب تک رقوم کے ایک بڑے حصے کے اصل اخراجات کی تجدید زیر التوا ہے۔رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ وزارتوں اور ان کے ماتحت ڈویڑنز نے مالی سال 16۔2015 میں ملنے والی گرانٹ سے 3 کھرب 52 ارب روپے کے زائد اخراجات کیے۔
درحقیقت ان وزارتوں کے سربراہان اور اکاؤنٹنگ افسران کو اخراجات میں اضافے کو روکنے کی ذمہ داری ہی نہیں سونپی گئی تھی۔اڈیٹرز نے انکشاف کیا کہ وزارت خزانہ نے مالی سال 16۔2015 کے دوران 10 کھرب 10 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی اجازت دی تھی۔ا?ڈٹ میں بتایا گیا کہ تمام سپلیمینٹر گرانٹس میں سے 2 کھرب 61 ارب کے گرانٹس مالی سال 2017۔2016 کے بجٹ کے ساتھ پارلیمنٹ کو پیش کی گئیں تھیں۔اڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ 8 کھرب 38 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس
جو کہ مالی سال 16۔2015 کی کْل گرانٹس کا 76 فیصد ہے، پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش ہی نہیں کی گئی تھیں جبکہ تکنیکی سپلیمنٹری گرانٹس کو معلوم کرنے کے لیے ریکارڈ ہی موجود نہیں۔آڈٹ رپورٹ میں فنڈز کی بد انتظامی کا ایک اور معاملہ 2 کھرب 17 ارب روپے کا ہے جس کے مطابق وزارتوں اور ان کے ماتحت ڈویڑنز اس رقم کو وقت پر خرچ کرنے میں ناکام رہے اور نہ ہی مقررہ وقت پر وزارت خزانہ کو واپس ادا کی گئی تاکہ اس سے دوسرے پیداواری منصوبے مستفید ہو سکتے۔