طالب علم کے راستہ میں اکابرین کو مجاہدے بھی کرنے پڑے‘ اس وقت کی مشقتیں اٹھانا پڑیں‘ یہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کو سہولتیں میسر نہیں تھیں‘ مثال کے طور پر سفیان ثوری اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پڑھنے کیلئے ایک محدث کی خدت میں پہنچے ‘ فرماتے ہیں کہ ہم تینوں کے پاس گزر اوقات کیلئے ستو وغیرہ تھے‘ ہم اسی کو تھوڑا تھوڑا کر کے استعمال کرتے رہے‘ ہمارے سبق کے مکمل ہونے میں ابھی تین دن باقی تھے کہ ہمارے پاس کھانے کی چیزیں ختم ہو گئیں‘
ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ بھئی دو آدمی تو استاد کا درس سننے کیلئے جایا کریں اور تیسرا مزدوری وغیرہ کر کے کھانے کا بندوبست کرے تاکہ بقیہ دنوں کیلئے کھانے کا کچھ انتظام ہو جائے‘ ایک ایک دن سب کو کام کرنا پڑے گا اور یوں تین دن گزر جائیں گے۔ فرماتے ہیں کہ باقی دو تو درس سننے کیلئے چلے گئے اور جس آدمی کو پہلے دن مزدوری کرنی تھی وہ مسجد میں چلا گیا سوچنے لگا کہ مجھے مخلوق کی مزدوری کرنے سے کیا ملے گا۔ کیوں نہ اپنے مالک کی مزدوری کر لوں‘ بالواسطہ لینے کی بجائے بلاواسطہ کیوں نہ حاصل کروں‘ چنانچہ انہوں نے نفلیں پڑھنی شروع کر دیں وہ نفلیں پڑھتے رہے اور دعائیں مانگتے رہے‘ وہ سارا دن مسجد میں گزار کر شام کو واپس آ گئے باقی دوستوں نے پوچھا‘ بتاؤ بھی! کچھ انتظام ہوا۔ کہنے لگا جناب! میں نے سارا دن ایک ایسے مالک کی مزدوری کی ہے جو پورا پورا حساب چکاتا ہے اس لئے وہ دے دے گا وہ مطمئن ہو گئے۔ دوسرے دن دوسرے کی باری تھی‘ اپنی سوچ کے تحت انہوں نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ وہ بھی مسجد میں سارا دن اللہ کی عبادت کرتے رہے اور اللہ رب العزت سے دعا مانگتے رہے‘ شام کو دوستوں نے پوچھا‘ سنائیں!کوئی انتظام ہوا؟ کہنے لگے کہ میں نے ایک ایسے مالک کی مزدوری کی ہے جو کسی کا قرض نہیں رہنے دیتا بلکہ پورا پورا ادا کر دیتا ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ تمہیں تمہارا اجر مل کر رہے گا۔ تیسرے دن تیسرے نے بھی یہی عمل کیا۔ اللہ کی شان کہ تیسرے دن کے بعد حاکم وقت رات کو سویا ہوا تھا۔
اس نے خواب میں ایک بہت بڑی بلا دیکھی اور اس بلا نے اپنا پنجہ اسے مارنے کیلئے اٹھایا اور کہا کہ سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال کرو۔ یہ منظر دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے ہر طرف ہرکارے دوڑا دیئے اور کہا کہ پتہ کرو کہ سفیان کون ہے؟ اس نے ہر ایک کو درہم و دینار سے بھری تھیلیاں بھی دے دیں اور کہا کہ یہ تو اسی وقت ان کو دے دینا اور بعد میں جب مجھے اطلاع کرو گے تو میں خزانوں کے منہ کھول دوں گا۔ ادھر تعلیم کا دن مکمل ہوا اور ادھر پولیس تلاش کرتے کرتے مسجد میں پہنچی۔ پولیس والوں نے پوچھا یہاں سفیان نامی کوئی بندہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ وقت کے حاکم کو ایک خواب آیا ہے اور اس نے ہمیں بھیجا ہے۔ سفیان ثوری اور ان کے ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب دو دروازے ہیں ایک مالک کا دروازہ اور ایک حاکم وقت کا دروازہ ہم نے جو علم پڑھا ہے اس میں تو یہی سیکھا ہے کہ ہم کو مالک سے لینا ہے لہٰذا ہماری علمی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ ہم چل کر حاکم وقت کے دروازہ پر جائیں۔ اللہ اکبر! تین دن کے بھوکے تھے مگر حاکم وقت کے پاس جانا گوارہ نہ کیا بلکہ اسی حالت میں انہوں نے واپس اپنے وطن کا سفر مکمل کیا جن کی نظر اللہ کی ذات پر رہتی ہے ان کے ساتھ اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔