لوہے کے تاجر کو دو تین سال کے لیے کہیں باہر جانا تھا لیکن چالیس من لوہے کی طرف سے بہت فکر مند تھا کہ یہ کس کے حوالے کر جائے؟ آخر اُس نے یہ لوہا ایک شخص کے حوالے کیا اور کہا۔ ” دوست تمھاری دیانت مشہور ہے۔ میں تم کو اپنے لوہے کا امین بناتا ہوں۔ دو تین سال بعد واپس آ کے لے لوں گا!”
دوست نے بخوشی امین بننا گوارا کر لیا۔ تاجر نے لوہے کا ذخیرہ اس کے حوالے کیا اور سفر پر روانہ ہو گیا۔
یہ تین سال بعد واپس آیا اور اپنے دوست سے اپنی امانت طلب کی، دوست نے منہ بسورتے ہوئے افسوس سے کہا۔ ” دوست! میں تمھیں اس المیے کی کس طرح خبر دوں کہ تمھارا لوہا اس شہر کے خطر ناک اور موذی چوہے چٹ کر گئے، میں حیران ہوں کہ یہ کس طرح ہو گیا لیکن میری حیرت سے واقعے کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا”
تاجر نے بد دیانت دوست سے کوئی بحث نہیں کی اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ گلی میں دوست کا بچہ کھیل رہا تھا۔ تاجر نے بچے کو بہلا پُھسلا کے قابو میں کیا اور شہر کے باہر ایک جگہ چُھپا دیا۔
بچے کی گم شدگی نے تہلکا برپا کر دیا۔ بد دیانت دوست اس کی تلاش میں تاجر کے گھر تک پہنچ گیا اور اس سے پوچھا۔ ” دوست! تم نے کہیں میرا بچہ تو نہیں دیکھا؟”
تاجر نے جواب دیا ” دیکھا کیوں نہیں، جب میں تم سے بات کر کے باہر نکلا تو میں نے بچے کو باہر گلی میں کھیلتے ہوئے دیکھا تھا لیکن ۔۔۔۔”
بد دیانت دوست نے بے چین ہو کے سوال کیا۔ ” لیکن؟ لیکن کیا؟”
تاجر نے جواب دیا۔ ” بالکل اسی طرح جیسے اس شہر کے عجیب و غریب چوہے چالیس من لوہا چٹ کر گئے۔ پہلے مجھے تمھاری بات پر یقین نہیں آیا تھا لیکن کوے کی حرکت دیکھ کے یقین آ گیا!”
بد دیانت دوست نے بوکھلائے ہوئے شرمندہ لہجے میں کہا۔ ” میں اپنی بات پر نادم ہُوں بچے کا پتہ بتا کے تم اپنا لوہا واپس لے لو!”
تاجر نے جواب دیا۔ ” میں اپنی بات پر خوش ہوں، شام تک میرا لوہا میرے حوالے کر دو۔ پھر میں کوے سے چھین کے تمھارا بچہ تمھارے حوالے کر دوں گا” ۔
لوہے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں