تہران(این این آئی)جیسے ہی واشنگٹن اور تہران کے درمیان مذاکرات منظر عام پر آرہے ہیں سابق عہدیداروں اور کانگریس کے ارکان نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ایرانی حکومت کو گلے لگانے کی پالیسی سے خبردار کیا ہے۔ سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے وال سٹریٹ جنرل میں شائع اپنے مضمون میں کہا کہ بائیڈن کو ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول اور پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کی کوششوں کو روکنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے واشنگٹن خلیج میں اپنے اتحادیوں کو نظر انداز کر رہا ہے جس سے علاقائی عدم استحکام آئے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بولٹن نے تہران اور روسی- چینی محور کے درمیان بے مثال ہم آہنگی کے خطرے کی نشاندہی بھی کی۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت جب مشرق وسطی میں واشنگٹن کے اہم اتحادیوں کے لیے بائیڈن کی واضح نفرت سامنے آ رہی ہے اور 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے جنون کی پالیسی میں خطہ عدم استحکام کی تزویراتی ترتیب سے گزر رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے سابق عہدیدار نے وضاحت کی کہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے واضح امریکی عزم کی عدم موجودگی میں اسرائیل کی جانب سے تہران کے خلاف فوجی کارروائی کا امکان بھی بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو فوجی کارروائی کو آخری آپشن سمجھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان قریبی فوجی تعاون کی موجودگی میں وائٹ ہاوس کا ردعمل یہ پریشان کن احساس پیدا کرتا ہے کہ بائیڈن اسرائیل کی مدد کرنے کے بجائے تل ابیب میں فیصلہ سازی کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ تاکہ اسے ایران پر حملہ کرنے سے روکا جا سکے۔انہوں نے ایرانی اپوزیشن کے لیے بائیڈن کی زبانی اور معمولی حمایت کی بھی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ بائیڈن ایران کی اس اندرونی کشیدگی پر توجہ مرکوز کریں جو 84 سالہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے انتقال کے بعد ایران میں پھیلنے کا امکان ہے۔
ایران میں اپوزیشن طاقت کا متبادل بن کر سامنیآ رہی ہے۔ ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں پراسرار موت کے بعد ایران میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور معاشی عدم اطمینان اس سطح تک پہنچ گیا جس سے حکومت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بولٹن نے کہا کہ وہ لمحہ اچانک آ سکتا ہے جو ایرانی شہریوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کا موقع فراہم کر دے گا۔ اس لیے بائیڈن کو خامنہ ای کی موت سے پہلے ہی ایرانی اپوزیشن کی حمایت کرنا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ایران اور اس کی دہشت گردی کے خلاف امریکی مزاحمت بے اثر ہے کیونکہ صدر بائیڈن اگر اس کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہوتے تو خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے ساتھ خلیج کو مزید وسیع نہیں کر سکتے تھے۔