سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا

28  مارچ‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2023ء اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء قومی اسمبلی میں پیش کردیا جسے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے متعلقہ کمیٹی کو بھج دیا ،ترمیمی بل کے مطابق از خود نوٹس کا فیصلہ تین سینئر ججز کریں گے، تین رکنی سینئر ججز کی کمیٹی از خودنوٹس کا فیصلہ کرے گی،

ترمیمی بل کے تحت از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق ہوگا ، 30 دن میں اپیل دائر ہوسکے گی، اپیل کو دو ہفتوں میں فکس کیا جائے گا جبکہ اراکین قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ آئین کے نام پر آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے،عدالت کے حد سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں وزیراعظم کو برطرف کرنے کیلئے ایک پچھلا دروازہ بھی ڈھونڈ لیا گیا ،ہماری تاریخ سپریم کورٹ کے غیرمنصفانہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے، سوموٹو نوٹس کی طاقت کا بار بار غلط استعمال کیا گیا ،ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے،بروقت اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھانے پر ذمے داری قبول کرتا ہوں،ہمیں اب ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جنہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے،اداروں میں اصلاحات کرکے ملک کی سمت کو درست کیا جائے،پارلیمان سپریم ہے اور اس کا فیصلہ سب کوماننا ہوگا،پنجاب اسمبلی کے کیس میں آئین کودوبارہ تحریر کیاگیاہے جو عدلیہ کاحق نہیں ہے،،عمران خان عدلیہ کے ترازو کے توازن کوبگاڑرہے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جائیگی، پاکستان میں عدلیہ اورمسلح افواج کومتنازعہ نہیں بنانا چاہیے اوراس ایوان میں بیٹھ کرمسائل کاحل نکالنا چاہیے،قوم تقسیم ہے، سیاست دان قوم کومتحدکرنے میں اپنا کردار اداکریں،ملک میں انگریزوں کابنایاہواقانون اب بھی لاگوہے، اسلئے اب تک عدل وانصاف نہیں ہورہا،عدل کاترازوبرابرہونا چاہیے۔منگل کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ قائد ایوان نے کہا ہے کہ ایوان آئینی معاملات پر بحث کرے، وزیرپارلیمانی امور اس حوالے سے تحریک موو کریں۔ وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوبد عباسی نے تحریک پیش کی کہ ایوان موجودہ صورتحال پر بحث کرے جسے ایوان نے بحث کیلئے منظورْ کرلیا۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم جس آئین پر حلف اٹھا کر یہاں بیٹھتے ہیں کیا اس کی اصل روح کی پاسداری کررہے ہیں یا نہیں۔انہوںنے کہاکہ آئین کے ہر ستون کی حفاظت کی جانی چاہیے،

آئین کے نام پر آئین کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے اسی انداز میں چلایا جانا چاہیے جس حالت میں ذوالفقار کی زیر قیادت اسے آئین بنانے والوں نے دیا تھا، بدقسمتی سے ملک میں آنے والے مارشل لا کے ذریعے ایک عرصے تک ہر ادارے پر دوسرے ادارے نے قبضے کیے رکھے۔انہوں نے کہا کہ ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کہا تھا کہ اگر ملک میں عدالتیں ٹھیک کام کررہی ہیں

تو ملک کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسی روح کے تحت عدلیہ کو وہ اختیارات اور حقوق دینے کی جدوجہد شروع ہوئی جو ان کا حق تھا بالخصوص اس وقت جب سابق آمر جنرل مشرف نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اختیارات کو محدود کردیا اور اس موقع پر ان سب نے ایک جدوجہد کا آغاز کیا تھا،

وہ ججوں کی بحالی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔سید نوید قمر نے کہا کہ تحریک کامیاب ہونے کے بعد عدلیہ نے اتنی طاقت حاصل کر لی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی نے بھی حاصل نہیں کی تھی اور پھر صورتحال نے بالکل یکسر الٹی ڈگر اختیار کر لی، یہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ کوئی بھی ایگزیکٹو فیصلہ عدالتی دائرہ کار سے باہر نہ رہ سکا۔انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں انہوں نے سوموٹو لینا شروع کردئیے

اور حکومت کے روزمرہ امور میں مداخلت کرنے لگے، وہ ٹرانسفر اور تقرریوں میں بھی مداخلت کرنے لگے جو مکمل طور پر ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔انہوںنے کہاکہ حد سے تجاوز کرنے کا یہ معاملہ اس مقام تک پہنچ گیا کہ سوموٹو اختیارات کے تحت اس وقت کی یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو برطرف کردیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آئین وزیراعظم کو ہٹانے کا صرف ایک طریقہ بتاتا ہے

اور وہ یہ ہے کہ یہ ایوان وزیراعظم کو ووٹ کی طاقت سے باہر کرے لیکن عدالت کے حد سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں وزیراعظم کو برطرف کرنے کے لیے ایک پچھلا دروازہ بھی ڈھونڈ لیا گیا اور یہ شق اصل میں آئین بنانے والوں نے نہیں بلکہ ایک فوجی آمر نے شامل کی تھی اور اس کے نتیجے میں ایک اور وزیراعظم کو ہٹا دیا گیا، کیا یہ عدلیہ کا حد سے تجاوز کرنا نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ بدقسمتی سے عدالتیں سیاسی ہو گئیں اور انہوں نے آئین کی روح پر عمل کرنے کے بجائے ایک سیاسی موقف اختیار کرنا شروع کردیا، سیاستدانوں جیسا رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا، سوموٹو نوٹس کی طاقت کا بار بار غلط استعمال کیا گیا اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں بروقت اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھانے پر ذمے داری قبول کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر ہم ایسی جگہ کھڑے ہیں

جہاں ہمیں فیصلہ لینا ہے کہ کیا ہم آئین کی روح کو خاموشی سے روندنے دیں گے یا ہم آگے کی جانب پیشرفت کریں تاکہ حقیقی انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ یا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔سید نوید قمر نے کہا کہ ہماری تاریخ سپریم کورٹ کے غیرمنصفانہ فیصلوں سے بھری پڑی ہے، ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں وہ صفحات پھاڑ دینے چاہئیں

جنہوں نے ہمیں نظریہ ضرورت دیا اور جس نے ایک منتخب وزیراعظم کا پھانسی پر لٹکا دیا اور ایک کے بعد ایک وزیراعظم کو برطرف کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اب ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جنہیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے، یہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں کے لیے بہترین موقع ہے، دونوں اداروں کو اس موقع سے سامنے آنا چاہیے اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو پوری قوم کے لیے قابل قبول ہوں۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے رمیش کمار وانکوانی نے کہاکہ

پاکستان ہے تو ہم ہیں کی سوچ درست ہے،اداروں کی مضبوطی اداروں کے اقدامات سے ہے،پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے ارکان پارلیمنٹ ہیں، عدلیہ کو عدلیہ مضبوط بنا سکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ جو بھی سیاسی جماعت حکومت میں آتی ہے وہ دو نعرے لگاتی ہے،ایک نعرہ مدینہ کی ریاست کا ماڈل اپنانے کا ہوتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں،یہاں بات ہوئی کہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے کو دوپٹہ پہنایا جاتا تھا ،

میں نے ایک ہی شرط رکھی تھی پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے کہ دوپٹہ نہیں پہنوں گا۔ انہوںنے کہاکہ اخلاقیات کی کمی ہوتی ہے تو خدا کی طرف سے رحمت رک جاتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ روزہ صرف بھوک کا نام نہیں، اگر زبان پہ قابو نہیں تو پھر روزہ بھی خراب ہوتا ہے،آج اگر ادارہ کے حوالہ سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے تو ادارہ کو غور کرنا ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ رانا بھگوان داس کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا،

ایک جہاز ائیرپورٹ پہ بھیجا گیا اور مجھے کہا گیا کہ انہیں اسلام آباد لاؤں،میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا ہفتہ اور اتوار میری چھٹی ہے جس نے ملنا ہے پیر کو ملے،اگلے روز پھر کہا گیا کہ انہیں بتائیں کہ انہیں چیف جسٹس بنا دیا جائیگا۔انہوںنے کہاکہ انہیں بتایا تو رانا بھگوان داس نے جواب دیا کہ زندگی ایسے گزاریں کہ یاد رکھے جائیں ۔ملک کی موجودہ سیاسی، قانونی، آئینی اورمعاشی مشکلات پربحث میں حصہ لیتے ہوئے

قائدحزب اختلاف راجہ ریاض نے کہاکہ شہید بھٹوکو109 کے مقدمہ میں سزائے موت سنائی گئی مگر پی پی نے وہ قدم نہیں بڑھایا جو ایک لاڈلا اٹھارہاہے، چار سالوں میں اداروں کابیڑہ غرق ہوا اورصرف گوگی کوپالا جاتا رہا، خط نہ لکھنے پرسازش کے تحت ایک وزیراعظم کو فارغ کردیا گیا، ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک لاڈلے کیلئے رات کے 12 بجے اورصبح کے چھ بجے عدالتیں کھل رہی ہیں، وہ پولیس پرپیٹرول بموں سے حملے کرتا ہے مگراس کو 12،12 ضمانتیں مل رہی ہیں، یہ محسن کش ہے،

انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز کا فیصلہ پوری قوم کیلئے خوش خبری ہے، ہم آزاد عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں،میں نے عمران خان کوکبھی مسیحا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ کہاکہ یہ ایک فراڈ آدمی ہے۔رمیش کماروینکوانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ کے حوالہ سے جوچیزیں چل رہی ہیں اس کو اب کسی طرف بیٹھنا چاہیئے، جومطالبات آج کئے گئے ہیں اس پرعدلیہ کوسوچنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ ملک میں مسائل اوران کے حل کی بنیادسیاست ہونی چاہئے کیونکہ صرف اسی صورت میں ملک آگے جاسکتا ہے۔انتقام کی سیاست نے اس ملک کونقصان پہنچایا ہے۔انہوںنے کہاکہ اداروں میں اصلاحات کرکے ملک کی سمت کو درست کیا جائے۔ صالح محمد نے کہاکہ اداروں کوتنقید کانشانہ نہیں بنانا چاہیے، ملک معاشی مشکلات کا شکارہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پی ٹی آئی کی رکاوٹ بننے کی

بات خلاف حقیقت ہے، ملک میں آٹا کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ایم کیوایم پاکستان کے صلاح الدین نے کہاکہ اس وقت ملک جن سیاسی، معاشی اورقانونی مسائل کی صورتحال سے گزررہاہے اس پرعوام پریشان ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں موجودہ حالات پر گفتگو کرنے سے پہلے ماضی کودیکھنا ہوگا، سابق حکومت ایک پراجیکٹ تھی جو عوام کی مرضی کے بغیران پرنافذ کی گئی، سابق اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی میں کہاگیاکہ جب عمران خان حکومت میں آئیگا تو50لاکھ گھر اورایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی، ریاست مدینہ کا نعرہ دیا گیا مگر توشہ خانہ سے جس طرح گھڑیاں چوری کی گئیں اورملکی وسائل کولوٹا گیا

اس سے ثابت ہوا کہ ساری باتیں جھوٹی ہیں۔انہوںنے کہاکہ اسلام آبا دکے جلسہ میں خط لہراکرامریکی سازش کا بتایاگیا،امریکا کو عمران خان کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت کیاتھی۔ انہوںنے کہاکہ عمران نے امریکی ایجنڈا پرکام کیا، بھارت کو کشمیرطشتری میں پیش کیاگیا، سی پیک کوتباہ کردیاگیا، اگر اسے اورموقع ملتا تو امریکا کی مزیدخواہشات اورمطالبے پورے کرتا،عدم اعتماد کی تحریک آئینی اورجائزتحریک تھی مگر اس پرڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیرقانونی اورغیرآئینی تھی۔

انہوںنے کہاکہ عمران خان سپریم کورٹ کالاڈلاہے مگروہ بھی سابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کوغیرآئینی قراردینے پرمجبورتھی۔انہوںنے کہاکہ عمران خان کوکراچی کی چودہ سیٹیں چوری کرکے دی گئیں تاکہ وہ اقتدارقائم کرسکے۔ایک ایسے ریٹائرڈ جج کونیب کاسربراہ بنادیا گیا جس کی ویڈیودیکھ کرہمارے سرشرم سے جھک گئے، ہمیں طے کرنا ہوگاکہ ہمیں آئین کے ساتھ یا آئین وقانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ کھڑاہونا ہے، انہوںنے کہاکہ پارلیمان سپریم ہے اور اس کا فیصلہ سب کوماننا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ پنجاب اسمبلی کے کیس میں آئین کودوبارہ تحریر کیاگیاہے جو عدلیہ کاحق نہیں ہے،عدل کاترازوبرابرہونا چاہیے، اگر پلڑوں میں فرق ہو توبددیانتی ہوگی۔انہوںنے کہاکہ جوڈیشل ایکٹیوازم ملک کوتباہی کی طرف لیکر جائیگی،اس ایوان سے رائے جانی چاہئے کہ ہم آئین اورقانون کے ساتھ کھڑے ہیں اوردیگراداروں کواس پارلیمان کواپنا کردار اداکرنے کا موقع دینا چا ہیے ۔

جی ڈی اے کے غوث بخش مہرنے کہاکہ پوری دنیا میں رائے عامہ کی بنیادپرپالیسی سازی ہوتی ہے،پاکستان میں عدلیہ اورمسلح افواج کومتنازعہ نہیں بنانا چاہیے اوراس ایوان میں بیٹھ کرمسائل کاحل نکالنا چاہیے،قوم تقسیم ہے، سیاست دان قوم کومتحدکرنے میں اپنا کردار اداکریں، سپیکر، وزیراعظم اورسیاسی رہنماوں کوملک کی خاطر اکٹھابیٹھنا چاہیے۔مولانا عبدالاکبرچترالی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ چترال میں بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والی خواتین کوشدید مشکلات کاسامنا ہے،

چترال ایک بڑا اوردورافتادہ علاقہ ہے، چترال میں بی آئی ایس پی کا طریقہ کارتبدیل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں عدل وانصاف نہیں ہے، پاکستان کی عدلیہ تنخواہوں اورمراعات میں چوتھے یا پانچویں نمبرپر مگر انصاف کی فراہمی میں 134 نمبرپرہے۔انہوںنے کہاکہ ملک میں انگریزوں کابنایاہواقانون اب بھی لاگوہے، اسلئے اب تک عدل وانصاف نہیں ہورہا۔ انہوںنے کہاکہ مولانا ہدایت الرحمان کوکیوں جیل میں ڈالا گیا ہے،

ان کے ساتھ عدل کیا جائے۔نزہت پٹھان نے کہاکہ پارلیمان سپریم ہے اوراسے طاقتوربنانا ضروری ہے، انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے آج ایوان میں جونکات اٹھائے ہیں اس حوالہ سے قانون سازی میں ہم حکومت کا ساتھ دیں گے۔جے یوآئی کی شاہدہ اخترعلی نے کہاکہ عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے اپنی بے توقیری کی ہے، ہمیں متفقہ اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہے،جے یوآئی آئین پرکاری ضرب لگانے نہیں دے گی،

عدلیہ کاکام انصاف دینا ہے، اگروہ بھی سیاست میں حصہ لیتے ہیں توانہیں منصب سے مستعفی ہوکرسیاسی میدان میں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان عدلیہ کے ترازو کے توازن کوبگاڑرہے ہیں جس کی اجازت نہیں دی جائیگی۔انہوںنے کہاکہ تمام اداروں کواپنی حدودمیں کام کرنا چاہیے۔ جویریہ ظفرآہیرنے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ آئینی ادارے اپنی طاقت اس ایوان سے حاصل کرتے ہیں،

جب ان اداروں کواختیارات دئیے جارہے تھے تو اس وقت سوچنا چاہئے تھا،اس پارلیمان نے اپنی بے توقیری خود کی ہے اوراپنے اختیارات خودکم کئے ہیں، اس آئین کی رکھوالی کو یقینی بنانا چاہئے تھا، آئین میں مبہم چیزوں کی وضاحت وقت پرہونی چاہئے تھی اوریہ اس ایوان کاکام تھا، اگر ایسا کیا جاتا توباربارچیف جسٹس کے پاس جانا نہ پڑتا۔انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کی حکومت نے خواتین سیاستدانوں کے ساتھ جوکچھ کیا ہے

وہ کسی سے ڈھکاچھپانہیں ہے،یہ صرف بشری بی بی کوخاتون سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ امید ہے کہ مجوزہ ترامیم اچھی ہوں گی اوراس سے پارلیمان کواپنے اختیارات واپس مل سکیں گے، ملک اورعوام کا سوچنا چاہئیے۔پی پی پی کی نازبلوچ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ دین اورمذہب ہمیں عدل سکھاتاہے،بھٹونے پاکستان کو1973 کا متفقہ آئین دیا، سٹیل مل دی،

پورٹ قاسم دیا اورہرپاکستانی کو شناخت دی اس کے برعکس لاڈلے نے ملک کوکیا دیا، ان کے دورمیں اپوزیشن کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے، چن چن کرلوگوں کوجیلوں میں ڈالاگیا۔ 1992کے بعد کئی ممالک نے ورلڈکپ جیتے ہیں مگر کسی کپتان نے ملک کا ایسا حال نہیں کیا جو اس کپتان نے پاکستان کاکیاہے۔انہوں نے کہاکہ معاشرے کوجس طرح سے تقسیم درتقسیم کردیا گیاہے اس سے مجھے خوف آرہاہے، یہ لاڈلے آئین اورقانون کونہیں مانتے، بیرون ممالک ملک کے سپہ سالارکے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ احمدحسن ڈیہڑ نے کہاکہ وزیراعظم نے اہم ایشوز پربات کی ہے، عدالتی فیصلے اورالیکشن اہم مسائل ہیں

مگر میں اس سے اختلاف کررہاہوں، ملک کے غریب عوام کوشدیدمہنگائی کا سامنا کرنا پڑرہاہے اورمیرے خیال میں یہ اس وقت اس ملک کا بڑامسئلہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس بینچ بناسکتے ہیں مگر اس بینچ سے کسی کونکال نہیں سکتے۔ ملک کی اشرافیہ دوصوبوں میں انتخابات چاہتے ہیں، اس وقت مردم شماری جاری ہے، اگر الیکشن ہوتے ہیں تو پنجاب اورخیبرپختونخوا میں پچھلی مردم شماری جبکہ وفاق اوردیگردوصوبوں کے انتخابات نئی مردم شماری پرہوں گے، یہ ناانصافی ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے، معاشی مسائل کاحل نکالنا ضروری ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کا بازو مروڑا جا رہا ہے اوریہ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔انہوں نے کہاکہ دس سالوں کیلئے چارٹرآف اکانومی اورچارٹرآف ڈیموکریسی پراتفاق ہوناچاہئیے۔اس کے ساتھ ساتھ گندم، چینی اورآٹے کی قیمت کو 2018کی سطح پرلانا چاہئے۔ علی گوہربلوچ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے

کہاکہ سابق مسلط شدہ حکومت نے ملک کا ایسا ادارہ اورمحکمہ نہیں چھوڑا جس کو بیدردی سے لوٹا نہ گیاہو، لاڈلے کومسلط کرکے ملک کی جڑوں کونقصان پہنچایا گیا، معاشرے کوتقسیم کیاگیا اورملک کوبے حیائی کی طرف دھکیلا گیا۔ انہوںنے کہاکہ معیشت، سیاست اورسفارت کوتباہ کیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ اراکین تجاویز دیکرفوری قانون سازی کریں اوراسمبلی کی توقیرکو یقینی بنائیں۔

ایم ایم اے کے صلاح الدین ایوبی نے کہاکہ اسمبلی اورپارلیمان کوئی عام ادارہ نہیں ہے، اس ادارے کی عزت اورتوقیرہوناچاہیے۔انہوںنے کہاکہ زلمے خلیل زاد کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں آوازیں آرہی ہیں، لاس اینجلس سے ڈی چوک تک عمران خان کے کردار اور بیانیہ میں ریاست مدینہ کانام کہیں نہیں آتا،چار سالوں میں اس نے جوبھی باتیں کی ہیں اس کی نفی کی ہے۔

وفاقی وزیر برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت رانا تنویر حسین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ ملک تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے، ہم یہاں تک یکدم نہیں پہنچے، مولوی تمیز الدین کیس آج بھی ہر جگہ زیربحث ہے، یقین کرنا ہوگا کہ ملک کو اس نہج تک کس نے پہنچایا، ماضی میں نظریہ ضرورت کا سہارا لیا گیا، اپنی ضرورت کے مطابق آئین و قانون کی بات کی جاتی ہے، نظریہ ضرورت کے باعث ملک آج مسائل کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ اور اقامہ پر جے آئی ٹی بنائی گئی،

اس میں وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ پیش ہوئے، اس سے زیادہ آئین و قانون کا احترام نہیں ہو سکتا، پانامہ کیس سے اقامہ نکال کر ملک کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا حق ہے، انتخابات کیلئے رقم اور سکیورٹی نہیں ہے، ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے، ایسے انتخابات کا کیا فائدہ جس کی کوئی ساکھ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے معاملہ کا حل مل بیٹھ کر نکالنا چاہئے، اس سے ملک میں استحکام آئے گا،پی ٹی آئی کے دور میں آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات انتخابات کیلئے سازگار نہیں۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ عمران خان کے منہ سے آئین و قانون کی بات اچھی نہیں لگتی،موجودہ نظام کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر مشرف کو تین سال تک رہنے اور آئین میں ترمیم کی اجازت کس نے دی۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں جمہوریت، عوام کی فلاح و بہبود، گڈ گورننس اور اصلاحات کی بات کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنے مقام کیلئے کھڑا ہونا چاہئے، وزیراعظم کو 176 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں الیکٹیبلز کو عمران خان سے ملایا گیا،

عمران خان کو جس طریقہ سے جتوایا گیا سب کو معلوم ہے، عمران خان کبھی دوبارہ وزیراعظم نہیں بن سکتے، پاکستان دشمن وزیراعظم نہیں بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا، جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے یہ قانون قدرت ہے، عمران خان کرپٹ باپ کا بیٹا ہے، پی ٹی آئی والے عمران خان کو چھوڑ دیں، الیکٹیبلز ہمارا ساتھ دیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنا رویہ درست کریں اور راہ راست پر آ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے سوموٹو کا عام آدمی کے بنیادی حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔ ماضی کے تین مارشل لاء بھی دیکھے ہیں، یہ ہمیں نہیں ڈرا سکتے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کندن سیاسی جماعتیں ہیں، بڑی قربانیاں دی ہیں، جلاوطنی اور جیلیں کاٹی ہیں، پی ٹی آئی کے وزراء کرپٹ اور لوٹے تھے،

عمران خان نے معیشت اور گورننس تباہ کر دی، عمران خان کا کوئی اصول، دین مذہب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اس کے باپ کی جانب سے وراثتی زمین کے معاملہ پر جعل سازی سامنے آئی، عمران خان نے اس پر تین بار موقف بدلا۔بعد ازاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران لائرز ویلفیئر اینڈ پروٹیکشن بل 2023ء ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ کابینہ نے یہ بل منظور کیا تھا یہ بل وقت کی ضرورت ہے اور لائرز کی فلاح و بہبود اور تحفظ کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے استدعا کی کہ بل مزید غور و خوض کیلئے کمیٹی کو بھجوا دیا جائے۔ وزیر قانون نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ ماضی میں بار بار معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹسز کیے گئے ، یہ سوموٹو ادارے کی تکریم کا باعث نہیں بنے۔انہوںنے کہاکہ ابھی عدالت عظمی کا فیصلہ آیا جس میں ججز صاحبان نے لکھا کہ یہ ضروری ہے کہ کیسز کی تقسیم میں یکسانیت رکھنے کے لیے

اور تمام ججوں کے عقل و شعور کاس استعمال کرنے کے لیے ایسا میکانزم بنایا جائے جس میں شفافیت ہو۔انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ رولز آف پروسیجر آئین اور قانون کے تابع بنائے گئے، ان رولز میں یہ اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے اور اسی وجہ سے ہماری عدالتی تاریخ میں وہ ادوار بھی آئے جب فرد واحد نے اس اختیار کا استعمال اس طرح سے کیا کہ ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا اور انتظامی سطح پر خلاف ورزیاں ہوئیں جس کی وجہ سے عدالت کی ساکھ اور وقار پر انگلیاں اٹھائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور صورتحال سے بھی پالا پڑتا رہا کہ نظرثانی کی درخواست میں سپریم کورٹ رولز یہ کہتے ہیں کہ نظرثانی کی درخواست وہی وکیل دائر کرے گا جس نے مقدمے کی پیروی کی ہے لیکن آئین آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ آپ اپنی مرضی کا وکیل مقرر کریں تاہم رولز کے ذریعے سے اس پریکٹس کو روک دیا گیا، اس بارے میں بھی بارہا مطالبہ کیا گیا کہ

اس بارے میں قانون سازی ہونی چاہیے تو ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت قانون میں کچھ کارروائی جاری تھی۔انہوںنے کہاکہ اب گزشتہ روز جو دو معزز ججوں کا فیصلہ آیا ہے اس نے ایک اور تشویش کی لہر پیدا کردی اور ایک اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ خدانخواستہ ادارے میں یہ تقسیم اور فرد واحد کو دیا گیا اختیار دیا گیا ہے اس سے اعلیٰ ترین عدلیہ کے اعلیٰ ترین ادارے کو کوئی نقصان نہ ہو

اور اس کی ساکھ اور شہرت کو کوئی نقصان نہ پہنچے، تو ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت قانون و انصاف نے یہ بل تجویز کیا جسے کابینہ نے متفقہ طور پر منظور کر کے پارلیمان میں پیش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے بل پارلیمنٹ میں پڑھ کر سنایاجس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشزف نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا اور کہا کہ

آرڈر آف دی ڈے یہ تھا کہ سپریم کورٹ سے متعلق بل منگل کو ہی پاس کیے جائیں، ایوان کی رائے کے مطابق دونوں بل لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیجے جارہے ہیں۔انہوں نے رولنگ دی کہ سپریم کورٹ سے متعلق دونوں ترمیمی بل کمیٹی کو بھیجے جاتے ہیں اور کمیٹی سے درخواست ہے کہ رپورٹ جلد ایوان میں پیش کرے۔بعد ازاں قومی اسمبلی کااجلاس (آج)بدھ کو دن گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔

دریں اثناء نجی ٹی وی کے مطابق کابینہ کی طرف سے منظور کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے

بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس

میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔بل میں قانون کے دیگر

پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔اس کے علاوہ کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔بل میں کہا گیا کہ

اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہا قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس کل صبح ہوگا

جس کی صدارت چیئرمین محمود بشیر ورک کریں گے۔ذرائع نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف (آج) بدھ کو ہی بل منظور کرکے ایوان میں رپورٹ دے گی، قومی اسمبلی (آج) بدھ کو عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی حتمی منظوری دے گی اور پھر مجوزہ بل جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…