عرفان جاوید کے دروازے

5  فروری‬‮  2017

قدرت اللہ شہاب مشہور ادیب اور بیوروکریٹ تھے۔وہ گورنر جنرل غلام محمد ،سکندر مرزا اورصدر ایوب خان کے پرنسپل سیکریٹری رہے۔ یہ عہدہ بیوروکریسی میں طاقت کی معراج سمجھا جاتا تھا۔ شہاب صاحب نے بنگال میں قحط کے دوران غلّے کے ذخائر بھوکے عوام کے لیے کھول دیئے، جھنگ میں عوامی فلاحی کے بے شمار کام کیے اور وہیں ان کا ایک پراسرار روحانی شخصیت سے سامنا ہوا، ایوب خان کو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے کا مشورہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا،

شہاب صاحب نے ایک ایمان دار افسر کی سادہ زندگی گزاری، اعلیٰ افسانے لکھے اوربے مثال سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ تحریرکی۔احمد بشیر شہاب صاحب کے دوست تھے‘ وہ معروف صحافی اور ادیب تھے۔ وہ سوشلسٹ تھے اور وہ روحانی معاملات پر زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے‘ شہاب صاحب 1960ءکی دہائی میں وزارت ِ تعلیم کے سیکریٹری تھے اور احمد بشیر ملازم‘ یہ دونوں ممتاز مفتی کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب تھے۔ ایک روز احمد بشیر کو قدرت اللہ شہاب کا فون آیا۔ شہاب صاحب کی آواز میں ہیجان تھے۔انھوں نے احمدبشیر سے کہا”آپ فوراً میرے دفتر آجائیں۔“ احمد بشیر شہاب صاحب کے دفترپہنچے تو وہ اکیلے بیٹھے تھے۔ وہ احمد بشیر کو دیکھتے ہی بولے ”آج میں بے انتہا خوش ہوں۔ مجھے بتا دیا گیا ہے‘ میں نے کب مرناہے۔“شہاب صاحب خلاف ِ مزاج اپنی خوشی چھپا نہیں پارہے تھے۔ احمدبشیر نے سوال کیا”آپ کو کس نے اور کیا بتایا“ شہاب صاحب نے جواب دیا”میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں مجھے ممتاز مفتی سے پہلے موت آئے گی۔“احمد بشیر نے یہ کشف مذاق میں اڑا دیا لیکن یہ بات بعد ازاں سوفی صددرست ثابت ہوئی۔ شہاب صاحب چھیاسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوگئے جب کہ ممتاز مفتی نے نوے برس کی طویل عمر پائی۔ یہ واقعہ احمد بشیر نے عرفان جاوید کو سنایا تو اُ س نے پوچھا ”آپ لوگ کہیں شہاب صاحب کے عہدے کی وجہ سے تو ان سے متاثر نہیں تھے“

احمد بشیر غصے میں آگئے اور کہنے لگے ”ہرگز نہیں۔ وہ بہت نفیس آدمی تھے وہ یحییٰ خان کے زمانے میں اصولی بنیادوں پر مستعفی ہوگئے تھے ہمیں ان کی ملازمت چھوڑنے اور وفات کے بعد دروغ گوئی کا کیا فائدہ؟“
یہ واقعہ عرفان جاوید نے اپنی خاکوں کی کتاب ”دروازے“ میں بیاں کیا۔” دروازے“ میں ایسے سینکڑوں دلچسپ واقعات، تاریخی حقائق، ادیبوں کے قصّے اورعام لوگوں کی زندگیوں کا احوال ہے۔ اس میںعالمی ادب کی دلآویزباتیں‘ نفسیات اور فلسفے کے نکتے بھی ہیں۔دروازے کے چند خاکے ایک برس تک اخبار میں شائع ہوتے رہے لیکن باقی نئے ہیں۔

میں نے ”دروازے“ اٹھائی تو میں یہ کتاب مکمل کئے بغیر سو نہ سکا‘ مجھے یقین ہے آپ بھی یہ کتاب شروع کریں گے تو آپ بھی ختم کیے بغیرنہیں رہ سکیں گے۔ آپ ”دروازے“ کا ایک اور حیران کن واقعہ ملاحظہ کیجئے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر سکھوں کا ایک طبقہ پنجاب کو اکٹھا رکھنا چاہتا تھا ۔ سکھوں کے لیڈر ماسٹر تاراسنگھ کا ساتھی گیانی ہری سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ قائداعظم کوملا اور پاکستان میں رہتے ہوئے خودمختاری کی بات کی۔ قائداعظم نے ان سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے جواب دیا ”ماسٹر تارا سنگھ کو میرا پیغام دے دیں میں ان سے ملنے امرت سرجانے کے لیے تیار ہوں۔یہ صحیح معنوں میں سکھوں کے لیڈر ہیں۔

میں انھیں ان کی خواہش سے زیادہ دینے کیلئے تیارہوں۔“ گیانی ہری سنگھ قائد اعظم کا بیغام لے کر ماسٹر تارا سنگھ کے پاس گئے لیکن ماسٹر تارا سنگھ پر انتہا پسند ہندو سردارپٹیل کا بہت اثر تھا۔ وہ کرپان پر ہاتھ رکھ کر دھاڑنے لگا اورقائداعظم کے ساتھ ملنے سے صاف انکار کردیا۔ آزادی کے بعد گیانی ہری سنگھ پاکستان میں رُک گئے اور ننکانہ صاحب میں قیام کیا۔ ایوب خان کے دور میں تارا سنگھ ننکانہ صاحب آیا اور گیانی جی کو دیکھ کر بری طرح رونے لگا‘ وہ ندامت سے بولا ”گیانی! مجھے معاف کردو، میں نے پنتھ کے خلاف بڑا گناہ کیا“یہ واقعہ بھی احمد بشیر نے عرفان جاوید کو سنایا اور آخر میں بتایا ”مجھے یہ بات خود گیانی ہری سنگھ نے سنائی اور اس کی تصدیق بعد ازاں سکھ دانش ور جسونت سنگھ کنول نے 1981 میں لاہور میں میرے سامنے کی“ دروازے میں مستنصر حسین تارڑ کا خاکہ بھی موجود ہے۔

مستنصرحسین تارڑ نے بھی عرفان جاوید کو بے شمار واقعات سنائے‘ ان میں سے ایک واقعہ لاہور کے دو کرداروں سے متعلق تھا‘ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اندرونِ شہرلاہورمیں رہتے تھے۔ وہ محبت میں مبتلا ہوگئے۔ اُس دورمیں محبت کی شادی کو معیوب سمجھاجاتا تھا۔ چنانچہ والدین نے ملاقات اور بات چیت پرپابندی لگا دی۔ دونوں نے طے کر لیا ہم آپس میں رابطہ نہیں رکھیں گے مگر کہیں اورشادی بھی نہیں کریں گے۔ کئی برس بیت جاتے ہیں۔ لڑکی کے بہن بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اُس کی بوڑھی ماں اس غم میں نڈھال رہنے لگتی ہے وہ سوچتی رہتی ہے موت کے بعد لڑکی کاکون پرُسانِ حال ہوگا؟

مگر جب وہ لڑکی کو شادی کا کہتی ہے تووہ اپنی یہ بات دُہرادیتی ہے کہ اگر وہ شادی کرے گی تواُسی لڑکے سے کرے گی۔ ماں بیٹی کو سمجھاتی ہے وہ اب تک شادی کرکے کئی بچوں کا باپ بن چکا ہوگا مگر لڑکی کو اپنی محبت پر یقین ہے۔ بالآخر ماں آمادہ ہوجاتی ہے اور یہ شرط رکھتی ہے لڑکی کو فوری شادی کرنا ہوگی، میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں میں تمہیں اپنی موت سے پہلے دلہن دیکھنا چاہتی ہوں۔لڑکی کسی طرح لڑکے سے رابطے کا ذریعہ تلاش کرتی ہے۔ وہ لڑکے کو فون ملاتی ہے تو دوسری جانب سے وہی لڑکا فون اُٹھاتا ہے۔ لڑکی کی آواز سن کر وہ پوچھتا ہے ”بارات کب لاو¿ں؟“ لڑکی کہتی ہے ”آج شام!“اُسی شام اُن دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔

عرفان جاوید کے ”دروازے “میں ”سب رنگ“ کے بانی اور ”بازی گر“ جیسے شاہکار کے مصنف شکیل عادل زادہ کی زندگی کے بے شمار رنگین واقعات بھی شامل ہیں۔ اُن کا مینا کماری کے گھر میں قیام،کرشن چندر، جون ایلیا اور جوش ملیح آبادی کے قصّے،ضیاءالحق سے ملاقات کا احوال، ہندوستان کے شہروں کی سیاحت اور گھاٹ گھاٹ کی پرُلطف کہانیاں یہ خاکہ بھی خاکہ نہیں الف لیلیٰ ہے، شکیل صاحب نے ”دروازے“ میں رئیس امروہوی کی ناگہانی موت کے راز سے بھی پردہ اٹھایا۔ وہ پچاس سال پہلے مشتاق احمد یوسفی کی اس نصیحت کا ذکر بھی کرتے ہیں جسے اُنھوں نے عمر بھرمشعلِ راہ بنائے رکھا ۔

”دروازے “ میں احمد فراز کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات بھی ہیں، فراز اپنے ملازم میاں بیوی کے اکلوتے گونگے بہرے بچے سے کتنی محبت کرتے تھے‘ ان کی گرفتاری کی روداد اور جنرل حمید گُل سے ملاقات کا ماجرابھی کتاب میںموجود ہے۔ ”دروازے“میں درجنوں چھوٹے چھوٹے چٹکلے بھی ہیں۔ مشہورافسانہ نگار منشایاد اپنی جوانی کے زمانے میں نسیم حجازی سے ملنے گئے اور ان سے درخواست کی آپ مجھے اپنے دوستوں کے حلقے میں شامل کرلیں‘ یہ سن کر حجازی صاحب کہنے لگے”برخوردار!یہ عمر نئی دوستیاں بنانے کی نہیںہوتی یہ پرانی دوستیوں پر نظر ثانی کی ہوتی ہے۔“

عطا الحق قاسمی صاحب نے دعویٰ کیا بچپن کے دوستوں سے اس وقت دوستی قائم رہتی ہے جب ذہنی سطح ایک ہویا پھر دلچسپی اور روزگارمشترک ہوں۔ ورنہ ملاقات کے کچھ دیر بعد بات کرنے کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ دوست مختلف انسان بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عموماً مرد اور عورت کی دوستی زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔ اس میں رومان یا دوسرے عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ایک مرتبہ فیض صاحب سے منوبھائی نے مشورہ مانگا تھا میں کس زبان میں شاعری کروں‘ فیض صاحب نے کلاسیک مشورہ دیا تھا ”جس زبان میں خواب دیکھتے ہو۔“اے حمید کی زندگی کی بے شمار کہانیوں میں سے ایک کہانی درختوں اور پودوں کے احساسات کی کہانی ہے یہ اب یورپ وامریکا میں سائنسی طورپر تسلیم کی جا چکی ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد لاہور کا ریڈیو اسٹیشن ایک اہم ثقافتی مرکز تھا ریڈیو پاکتان میں چوٹی کے شاعر اور ادیب اکٹھے ہوتے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ زیڈاے بخاری مہتمم اعلیٰ تھے۔ دیوار کے ساتھ پیپل اور پیپلی کا ایک جوڑا ہوا میں جھومتا رہتا تھا۔ ایک روز بخاری صاحب نے درختوں کی جانب اشارہ کیا اور اے حمید نے اگلے روز دیکھا پیپلی کا درخت کٹا ہوا تھا‘ اور اس کے تنے کا ٹنڈ زمین سے یوں باہر نکلا ہوا تھا جیسے ڈوبتے کا ہاتھ آخری مرتبہ پانی سے باہر آتا ہے۔ کٹے درخت کو دیکھ کر اے حمید کو یوں لگا جیسے ان کے گھر کا کوئی فرد مرگیا ہو۔ واقعے کے چند روز بعد پیپل کا باقی رہ جانے والا درخت پیپلی کے دکھ میں مرجھانے لگا اور دو ماہ بعد خشک ہوکر مردہ ہوگیا۔ دروازے میں اے حمید کی سری لنکا، برما، ہندوستان کی آوارہ گردیوں کی بے شمار کہانیاں بھی ہیں اور ان کی بارش، جنگل،چائے، بادل، پرندوں وغیرہ سے رومان کی باتیں بھی‘ یہ باتیں دھیمی پھوار کی طرح اور پھول کی بھینی خوشبو کی مانند ہیں۔

احمد ندیم قاسمی اپنے بٹوے میں ہروقت کس دوست کی تصویر رکھتے تھے، مرتے وقت”اداس نسلیں“ اور کئی شاہ کار کتابوں کے مصنف عبداللہ حسین کو کیا خلش تھی، ”ہرگھر سے بھٹونکلے گا ،تم کتنے بھٹو ماروگے“ کا خالق نصیر جی ٹی روڈ پر ٹھنڈی بوتلوں کا کھوکھا لگاتا تھا اس نے کسمپرسی میں کینسر کے ہاتھوں وفات پائی اس کی آخری خواہش کیاتھی، تصدق سہیل ایک عجیب وغریب زندگی گزارنے والا افسانوی نوعیت کا بڑا مصور ہے‘ اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی ، پچاس سال لندن میں گزارے اور وہ اب پاکستان میں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ زندگی گزاررہا ہے۔

یہ تمام لوگ عرفان جاوید کے ”دروازے“ کے پیچھے بیٹھے ہیں‘ ”دروازے“ فقط ایک کتاب نہیں‘ یہ گزری راتوں کا نوحہ اور بسر ہوتے مشاہیر کا مرثیہ ہے‘ میں نے طویل عرصے بعد ایک ایسی کتاب دیکھی جس میں شخصیات بھی ہیں‘ علم بھی‘ مشاہدہ بھی‘ تاریخ بھی اور ثقافت بھی‘ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرے دل سے بے اختیار نکلا ”زندہ باد عرفان جاوید“۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…