اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا
شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘ حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے
حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی
طرف روانہ ہو گئے‘ فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘
حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘
یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘ یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘
اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں
لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘
ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘ میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔
میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘
یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
نوٹ: سدوم اور قوم لوط کے مکمل حالات پڑھنے کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں