اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) دھن دولت کی بات جیسے ہی کی جاتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں سب سے پہلے قارون اور پھر بل گیٹس کا نام گونجتا سنائی دیتا ہے۔ قارون حضرت موسیٰ ؑ کے دور میں انتہائی امیر ترین شخص گزرا ہے ۔ماہرین آج بھی قارون کی دولت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہیں۔ اس کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ قارون حضرت موسی علیہ السلام کے چاچا کا لڑکا تھا یہ بہت خوش آواز تھا۔
تورات بڑی خوش الحالی سے پڑھتاتھا۔اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔یہ چونکہ بہت مالدار تھا ،اس لئے اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور تکبر اور اس کی دولت ظاہر ہو۔اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس کے خزانے کی کنجیاں اٹھانےپر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔اس کے بہت سے خزانے تھے ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔قوم کے بزرگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ اتنا اکڑا مت تو قارون نے جواب دیا کہ میں ایک عقلمند،زیرک،دانا شخص ہوں اور اسے اللہ بھی جانتاہے،اسی لئے اس نے مجھے دولت دی ہے۔قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر رزق برق عمدہ سواری پر سوار ہوکر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا نکلا،اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت و تجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔قارون اس طمطراق سے نکلا وہ سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے تھا تب ادھر حضرت موسی علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے،بنواسرائیل کا مجمع تھا سب کی نگائیں اس کی دھوم دھام پر لگ گئی حضرت موسی علیہ السلام نے اس سے پوچھا اس طرح کیسے نکلے ہو؟
اس نے کہا ایک فضیلت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہےاگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس عزت ؤ دولت ہے اگر آپ کو میری فضیلت میں شک ہے تو میں تیارٰ ہوں آپ اللہ سے دعا کریں دیکھ لیجئے اللہ کس کی دعا قبول کرتاہے آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہوگئے اور اسے لےکرچلے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا:اب پہلے دعا کروں یا تو کرے گا قارون نے کہا میں کروں گا اس نے دعا مانگی لیکن قبول نہ ہوئی
حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سے دعا کی یا اللہ زمین کو حکم کر جو میں کہوں مان لے۔اللہ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیاہے حضرے موسی علیہ السلام نے یہ سن زمین سے کہا:”اے زمین اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے،پھر مونڈھوں تک ،پھر فرمایا اس کے
خزانے اور اس کے مال بھی یہیں لے آؤ اسی وقت قارون کے تمام خزانے آگئے آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ قاروں اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی “ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا(بحوالہ:تفسیر ابن کثیر)قارون کے بعد بل گیٹس کا نام ہمارے ذہنوں میں آتا ہے۔ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کا بانی اور دنیا میں کئی برس تک امیر ترین رہنے والا شخص ہے
گو کہ اب اس کے اثاثوں کی مالیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور وہ اب دنیا کے پہلے امیر ترین شخص کی کرسی سے اتر چکا ہے تاہم پھر بھی کئی برس تک دنیا کے امیر ترین شخص رہنے والے بل گیٹس کو آج بھی دنیا بھر میں لوگ اسی پوزیشن پر سمجھتے ہیں مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے دنیا میں ایک ایسا مسلمان بادشاہ بھی گزرا ہے کہ جس کے خزانے قارون اور بل گیٹس کی دولت سے بھی کہیں زیادہ تھے۔
2017کے نومبر میں سلیبرٹی نیٹ ورتھ کی جانب سے دنیا کے امیر ترین اشخاص کی فہرست جاری کی گئی تھی جس میں بل گیصتس 12ویں نمبر پر براجمان ہیں جبکہ سلیبرٹی نیٹ ورتھ کے مطابق 700سال گزر جانے کے بعد بھی شہنشاہ مالی مانسا موسیٰ اپنی دولت کے خزانوں جن کی مالیت آج محتاط اندازے کے مطابق 400ارب ڈالرز لگائی گئی ہے پہلے نمبر پر ہیں۔ٹائم میگزین نے 14 ویں صدی
میں افریقی ملک مالی پر حکمرانی کرنے والے بادشاہ منسا موسیٰ کو ہر دور کا امیر ترین شخص قرار دیا ہے۔ درحقیقت جریدے کے مطابق اگر یہ سوال کیا جائے کہ منسا موسیٰ کتنے امیر تھے تو اس کا جواب ہے کہ ان کی دولت کا بالکل اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ماہرین کے مطابق موسیٰ اتنے امیر تھے کہ لوگوں کے لیے ان کے اثاثوں کا تخمینہ لگانا مشکل تھا۔ان کے بقول یہ وہ امیر ترین شخص ہے
جسے اس دور کے لوگوں نے دیکھا تھا تاریخ دان اس کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کو کیسے بیان کرے۔سلطنت مالی کے اس سب سے مشہور حکمران نے 1312 سے 1337ءتک حکومت کی اور اپنی سلطنت کو عروج پر پہنچا دیا۔اس دور میں مالی کی سلطنت مغرب میں بحراوقیانوس اور شمال میں تفازہ کی نمک کی کانوں سے جنوب میں ساحلی جنگلات تک پھیل گئی تھی۔
اس حکمران کو سب سے زیادہ شہرت 1324ءمیں کیے جانے والے سفر حج کی وجہ سے ملی۔اس سفر میں منسا موسیٰ نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس دور میں مالی سونا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا اور اس کی طلب بہت زیادہ تھی۔ معروف مورخ ابن خلدون ،العمری اور ابن بطوطہ جیسے مسلمان مورخین نے بھی مالی کے بادشاہ کی دولت بارے اپنی کتابوں میں تفصیل سے لکھاہے۔مورخین کا کہناہے کہ ان کی
دولت وثروت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سنہ 1324ءمیں اس نے اپنے ملک کے 60 ہزار افراد کے ہمراہ حج کا سفر کیا تھا۔ ان میں سے بارہ ہزار افراد کو کئی ٹن سونا اور ہیرے جواہرات اٹھوائے گئے تھے، وہ جہاں جاتے سونے اور ہیروں کے انبار لگا دیتے، جس کے باعث ان کے راہ میں آنے والے شہروں میں سونے کی اتنی ریل پیل ہوگئی کہ کئی سال تک سونے کی قیمتیں نچلی ترین سطح پرآ گئی تھیں۔