جو دانشور اور مورخ ذاتی شہرت کے اسیر نہیں ہوتے وہ وقت گزرنے کے ساتھ نئے تاریخی حقائق منظر عام پر آنے کے بعد اپنی سوچ اور فکر تبدیل کر لیتے ہیں۔ غیر جانبدار مبصر متفق ہیں کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو فوجی آمر اور جمہوریت کے قاتل جنرل ایوب خان کا دور حکومت ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے سب سے بہتر نظر آتا ہے۔ جنرل ایوب خان اگر قومی دولت کی تقسیم منصفانہ رکھتے اور اسے بائیس خاندانوں کے ہاتھوں میں جمع نہ ہونے دیتے تو ان کا دور پاکستان کا مثالی دور قرار دیا جاتا۔
منگلا اور تربیلا ڈیم جنرل ایوب خان کے نمایاں کارناموں میں شامل رہیں گے۔ جنرل ایوب خان کے بعد تین جنرل اور چار سیاست دان اقتدار میں آئے مگر چالیس سالوں میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ ہوسکا۔ کالا باغ ڈیم سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو گیا۔ جنرل ایوب خان کا معاشی ماڈل بھی اس قدر کامیاب تھا کہ کوریا اور ملائیشیا نے اس ماڈل کے بلیو پرنٹ لے کر ایشیا کے معاشی ٹائیگر بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ جنرل ایوب خان 1951ء میں پاک آرمی کے کمانڈر چیف بنے 1958ء میں وہ پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے اور 18 سال تک فوجی اور سیاسی طاقت کا مرکز رہے۔ انہوں نے پاک امریکہ تعلقات کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ ان کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں بھی اہم قرار دیا۔ جنرل ایوب خان امریکہ کے انتہائی قابل اعتماد دوست تھے۔ انہوں نے امریکہ کے ذہن، مزاج اور سفارت کاری کا گہرا مطالعہ کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے سلسلے میں جنرل ایوب خان کے تجزیے اور تبصرے کو سند کی حیثیت حاصل ہونی چاہیئے۔ جنرل ایوب خان نے اپنے 18 سالہ سیاسی اور عسکری سفر کی روداد ڈائری کی صورت میں تحریر کی ہے جو 2007ء میں چھپ چکی ہے۔ اس ڈائری کے دیباچے میں جنر ل ایوب خان لکھتے ہیں۔ ’’میں نے یہ ڈائری آنے والی نسل کے لیے لکھی ہے تاکہ وہ میرے تجربات سے سیکھ سکے‘‘۔
جنرل ایوب خان نے 2 نومبر 1966ء کی ڈائری میں نوٹ کیا ہے کہ ’’جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا (1965) امریکہ نے حلفیہ بیانات اور ٹھوس یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کی امداد کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت چین نے پاکستان کی بھر پور فوجی امداد کی‘‘۔جنرل ایوب خان نے 26 فروری 1967ء کے ایک نوٹ میں امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
ترجمہ:۔’’میرا یقین ہے کہ اْبھرتے ہوئے ممالک میں امریکہ اور برطانیہ نے جمہوریت کو جمہوریت کے نام پر بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ہمیں اپنے حالات کے مطابق نظام تشکیل نہیں دینے دیا۔ اس کی میں صرف یہ وضاحت دے سکتا ہوں کہ وہ ہمیں کمزور اور عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہم اْن کے رحم و کرم پر رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اْن کا انداز اور سوچ سیاسی ہے اور مکمل طور پر بد دیانتی پر مبنی ہے‘‘۔
27مارچ 1969ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں۔
’’امریکہ کی پالیسی میری پالیسیوں پر ناپسندیدگی پر مبنی دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ ایک کمزور اور سائز میں کم پاکستان چاہتا ہے تاکہ بھارت ، چین کا مثبت طور پر مقابلہ کر سکے اور شاید جنوب مشرقی ایشیاء میں چین کے خلاف فوجی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکے۔ اس صورتِ حال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی طاقتوں کا کمزور ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا خطرہ حقیقی اور مسلسل ہے۔ یہ طاقتیں نئے ممالک کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں جب تک کہ ان کے اپنے مفاد میں نہ ہو۔
ماضی میں کمیونسٹ اور خاص طور پر روس پر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہوتا تھا مگر اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے اس ہنر اور مہارت (اندرونی معاملات میں مداخلت) میں روس پر سبقت حاصل کر لی ہے‘‘۔ جنرل ایوب خان کی ڈائری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے بارے میں بہترین رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاسی رہنما تو فوج کی نظر میں ’’بلڈی سویلین ‘‘(Bloody Civilians) ہیں جرنیل ان کے مشوروں پر بے شک کان نہ دھریں مگر اپنے فوجی آمر رول ماڈل جنرل ایوب خان کی تجربے اور بصیرت پر مبنی سفارشات پر تو عمل کریں۔