ایک شخص گیس والے غبارے فروخت کر کے گزر بسر کرتا تھا۔ بچے ہر وقت اس کے سٹال کے آس پاس منڈ لاتے رہتے تھے اور دن رات وہ غبارے بیچنے میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا اچھا بھلا گزر بسر چل رہا تھا۔ جب کبھی بھی گاہک کم ہوتے تو وہ جان بوجھ کر دو تین گیس والے غباروں کا دھاگا کھول دیتا اور وہ ہوا میں اڑ جاتے تھے۔ جب وہ آسمان میں جاتے ہوئے دور دور سے بچوں کو دکھائی دیتے تو وہ پھر غبارے لینے کی ضد کرتے
اور اپنے ماں باپ کو لے کر غبارے والے کے پاس آجاتے۔ ایک دفعہ وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اسے لگا کہ کسی بچے نے اس کا کرتا کھینچا اور اسے بلایا۔ اس نے جھک کر دیکھا تو واقعی ایک پانچ سے چھ سال کا چھوٹاکا چھوٹا سا بچہ اس کے ساتھ کھڑا تھا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے جھک کر اس کا ہاتھ پکڑا۔ اس سے مصافحہ کیااور پوچھا کہ بیٹا آپ کیا کہنا چاہتے ہو؟ بچے نے معصومیت سے بولا کہ انکل مجھے ایک کالے رنگ کا غبارہ چاہیے ہے۔ میں اس کا دھاگا چھوڑ دوں گا اور پھر اس کو ہوا میں اڑتے دیکھوں گا۔ جب وہ بادلوں میں چلا جائے گا، تب تک اسے دیکھتا رہوں گا۔آپ کے پاس کالا غبارہ ہے۔ میرے پاس تو ہر رنگ کا غبارہ موجود تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ میرے پاس ہے آپ پیسے نکالو۔ اس نے پھر پوچھا کہ انکل میں نے سرخ، پیلے، نیلے اور ہرے رنگ کے غباروں کو اڑتے دیکھا ہے لیکن بلیک والا بھی اڑے گا کیا؟ مجھے ہنسی آگئی اور میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے یقین دہائی کروائی کہ کیوں نہیں اڑے گا؟ غبارے کے رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے اندر ’ہیلیم گیس ‘موجود ہوتی ہے اور وہ اپنے رنگ سے نہیں اپنے اندر موجود گیس کے باعث اڑتا ہے۔ حاصل سبق جس طرح ایک غبارے کے رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا
بالکل اسی طرح انسان کے ظاہر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی انسان کتنی کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے یہ اس کے ظاہر نہیں اس کے باطن سے متعین ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کی وہ شے جو اس کی بلندی کو مختص کرتی ہے وہ اس کا رویہ ہے۔ جس انسان کی سوچ مثبت ہو اور اس کا رویہ ٹھیک ہو، وہ کسی بھی حالت میں اور کیسے بھی مسائل میں گھرا ہوا ہو،
اس کا کامیابی کی بلندیوں کو چھونا بہت حد تک یقینی ہوتا ہے۔جبکہ کوئی ایسا انسان جو ہمت ہار جائے یا اس کا رویہ ہی ناکام لوگوں والا ہو۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنی سوچ کے باعث ناکامی کی طرف چل پڑتا ہے۔ انسان کا باطن اس کی کامیابی اور ناکامی کا علمبردار ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنی ظاہری حالت پر جتنی توجہ دیتے ہیں، اپنے باطنی وجود پر بھی اتنا ہی وقت سرف کر لیں۔
اپنا رویہ بہتر بنائیں، ایسی کتابیں پڑھیں جوآپ کی سوچ اور رویے کو مثبت رنگ دیں۔ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو آپ کو آپ کی زندگی کے مقصد کے حصول میں سہارا دیں۔ براک اوباما، اوپرا ونفری، ٹائیگر ووڈز یا کرسچن بیل جیسے لوگ اگر اپنے رنگ کی بنیاد پر چھپ کر بیٹھ جاتے تو رہتی دنیا تک اپنا نام تاریخ کے سنہری پنوں پر کبھی تحریر نہ کر پاتے۔
بلند حوصلہ اور پختہ ارادیت کو اپنا شعار بنائیں، پھر دیکھیں کیسے کامیابی آپ کو بھی ہوا میں اڑا لے جاتی ہے۔